• news
  • image

اقتصادی رابطہ کمیٹی کا گندم کی درآمد کا عندیہ

وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزارت خوراک کو گندم کی درآمد کے لئے کوششیں تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس سلسلہ میں مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں گزشتہ روز گندم اور آٹے کی دستیابی کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور گندم کی درآمد کی صورت میں اس کی قیمت پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ صوبائی حکومتیں اور پاسکو گندم کی 79 فیصدتک پروکیورمنٹ کر چکی ہے۔ وزارت خوراک کی جانب سے بتایا گیا کہ اب تک 120 درآمد کنندگان نے گندم کی درآمد میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے ہمیں گندم اور دوسری اجناس میں خود کفیل ہونا چاہئے جس کے لئے بالخصوص گندم کی پیداوار فی ایکڑ بڑھانے کے لئے کسانوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں کھادوں ، پانی اور بجلی کی سبسڈائز نرخوں پر فراہمی ضروری ہے۔ ان بنیادی سہولتوں کے فقدان کے باوجودہمارا کسان اور کاشتکار طبقات محنت و جانفشانی سے نقدآور اجناس کی پیداوار بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے مگر انہیں مارکیٹ میں اپنی اجناس کا مناسب معاوضہ نہیں ملتاجبکہ پاسکو اوردوسرے منافع خور تاجر طبقات کسان سے اونے پونے داموں خریدی گئی گندم کا ذخیرہ کرکے اس کی مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں اورپھر مہنگے داموں فروخت کرکے عوام کو دونوں ہاتھوںسے لوٹتے ہیں۔ اصولی طور پر تو ملک میں گندم کی ضروریات پوری ہونے کے بعد گندم برآمد کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے مگر مفادپرست طبقات ملی بھگت سے گندم برآمد کرکے بھی دام کماتے ہیں اور اس کے باعث ملک میں پیدا ہونے والی گندم کی قلت سے انہیں گندم کے نرخ بڑھانے اور اسی طرح بیرون ملک سے گندم مہنگے داموں درآمدکرکے مزید منافع کمانے کا موقع ملتا ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ ادوار سے اب تک ذخیرہ اندوز مافیا حکومتوں کو یہی پالیسی اختیارکرنے پر مجبور کر رہا ہے اور مفادات سمیٹ رہاہے۔ گزشتہ سال ملک میں آٹے اور گندم کا سنگین بحران اس پالیسی کے باعث ہی پیدا ہواتھا جس کے تناظر میں گندم کی برآمد اور پھر درآمد کی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت تھی مگر اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلہ سے وہی پالیسی برقرار رکھنے کا عندیہ مل رہا ہے جس سے ملک اجناس کی قلت کے بحرانوں اور مہنگائی کی زد میں آتا ہے۔ ایسی پالیسیاں کسی صورت خوش آئند قرار نہیں دی جاسکتیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن