• news
  • image

مسئلہ کشمیر:قومی یک جہتی کی ضرورت

بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ یہاں تک کہ اُنہوں نے اس شہ رگ کو دشمن کے پنجہء استبداد سے چھڑانے کے لئے آخری آپشن جنگ سے بھی گریز نہیں کیا۔ قائد نے پاک فوج کے دوسرے فوجی سربراہ جنرل گریسی کو کشمیر میں کارروائی کا حکم دیا تھا مگر اُس نے رو گردانی کی ۔ اگر پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل مسروی کو ایسا کرنے کا حکم دیا جاتا تو یقیناً وہ قائد کے فرمان کی تعمیل کرتے، جنرل مسروی آئین ،قانون اور فوجی ڈسپلن کو سمجھتے اوران پر عمل بھی کرتے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل سر فرینک والٹر میسروی کو 15 اگست 1947 ء کو قائم مقام فور سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر پاک فوج کا پہلا سربراہ نامزد کیا گیاتھا۔انہی کے دور میں 22 اکتوبر 1947 ء کو آپریشن گلمرگ شروع ہوا اور پاکستانی قبائلی لشکر پیش قدمی کرتا ہوا سری نگر کے مضافات تک پہنچ گیا۔تاہم کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر کو مبینہ طور پر ریاست کی ’سٹینڈ سٹل پوزیشن‘ ترک کر کے جموں میں بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دئیے اور اگلے دن بھارتی گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے الحاق قبول کرنے کے فوراً بعد بھارتی دستے سری نگر میں اترنے لگے ۔جنگِ کشمیر یکم جنوری 1949 ء کو ’جو جہاں ہے وہیں رک جائے‘ کے اصول کے تحت اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے بند ہوئی۔ جنرل میسروی کی 35 سالہ فوجی ملازمت کی میعاد دس فروری 1948 ء کو دورانِ جنگی حالات ہی ختم ہوگئی۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھارتی گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن اور کمانڈر انچیف سر روب لاک ہارٹ جنرل میسروی سے خوش نہیں تھے کیونکہ میسروی نے انھیں قبائلیوں کی پیش قدمی کے بارے میں بروقت آگاہ نہیں کیا تھا۔ جس پر جنرل میسروی کا موقف تھا کہ وہ ایسی رازدارانہ معلومات صرف پاکستانی گورنر جنرل اور حکومت کو دینے کے ہی پابند ہیں۔جنگی حالات میں جنرل میسروی کوریٹائر کرنا پاکستان کو علانیہ نقصان پہنچانے کی کوشش تھی ۔
قائد اعظم کے بعد آنے والے حکمرانوں نے قائداعظم کی طرح کشمیر کو اپنی شہ رگ تو کہا مگر جس طرح قائد سمجھتے تھے اُس طرح دل و جان سے نہیں سمجھا اگر سمجھا ہوتا تو ان کی طرف سے بھی قائد جیسے عزم و حوصلے کا اظہار ہوتا مگر یہ بے تیل کے تِل ثابت ہوئے۔ آج سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں، خارجہ اور دفاعی امور میں باہمی اعتماد اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے، کشمیر ایشو پر بھی یکجا ہیں ۔ گزشتہ سال ستمبر میں وزیر اعظم عمران خان کا اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب جرأت مندانہ تھا۔ اس نے دنیا کی آنکھیں کھول کر رکھ دیں۔ ناموس رسالت ؐ پر عمران کے دلائل نے مغرب کی بہت سے غلط فہمیاں دور کر دیں۔ کشمیر ایشو پر بولے تو اقوامِ عالم کی وسیع تر حمایت پاکستان کے حصے میں آئی۔ اُس وقت مودی سرکار کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر چکی تھی۔ بھارت پر پہلے ہی دبائو تھا وزیر اعظم کے خطاب نے اس میں مزید اضافہ کر دیا۔ جب بھارت شدید دبائو بلکہ بوکھلاہٹ میں تھاتو پاکستان میں ’’مولانا ‘‘آزادی مارچ کا علم بلند کر کے اسلام آباد کو تسخیر کرنے کانعرہ بلند کر کے کراچی سے عازم اسلام آبادہوئے۔ لیکن میری رائے میں اس آزادی مارچ کی وجہ سے کشمیر کی آزادی کی طرف تیزی سے گامزن قدموں میں لغزش آنے لگی۔ قدرت شاید کشمیریوں پر مہربان ہے، اس نے ایک اور موقع پاکستان کو دیا ہے، چین اور بھارت 1962ء کی طرح ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔ چین کو بھارت کا مقبوضہ کشمیرکا خصوصی درجہ ختم کرنے اور لداخ کو اپنی یونین ٹیرٹری کا حصہ بنانے کا اقدام مشتعل کر گیا۔ چین کے احتجاج پر بھارت نے نہ صرف کان نہ دھرا بلکہ متنازع علاقوں پر قبضہ مضبوط کرنے کے لئے وہاں دفاعی تعمیرات شروع کر دیں۔ اس کے بعد 50 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت اور چین کے متنازع علاقوں پر قبضے کی کہانی دنیا کے سامنے ہے۔ 62ء کی جنگ میں چین نے بھارت کو بے بس کر دیا تھا۔ چین نے پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں فوجی مداخلت کر کے قائد اعظم کے عزم و ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی دعوت دی مگر ایوب خان نے چپ سادھ لی۔ ایسا ہی پیغام جنرل مشرف نے کارگل میں اُس وقت چین کو دیا جب مشرف کے بقول پاک فوج نے بھارت کی گردن دبوچ لی تھی۔ چین کو اس کے علاقے لداخ پر مشرف نے قبضہ کرنے کا اشارہ دیاتھا مگر چین بھی خاموش رہا۔پاکستان اور چین کی آج کی قیادتیں ماضی کے حکمرانوں کی غلطیوں کا مداوا کرتی نظر آتی ہیں۔ میں نے پہلے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اورچین بھارت کشیدگی کے حوالے سے اپنے بیان میں حکومت اور اپوزیشن کو کشمیر ایشو کے یک نکاتی ایجنڈے پر سیاسی اختلافات سے بالا تر ہوکر متحد ہونے پر زور دیا ہے ۔ میں پھر اس اپیل پر زور دونگا کہ حکومت اور اپوزیشن کشمیر ایشو پر متحد ہو جائیںکشمیر کا مسئلہ صرف اسی طرح ہی حل ہو گا۔
یہ درست ہے کہ دونوں ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیںاور مسلح تصادم کی صورت میں جنگ شائد روائتی اسلحہ کے استعمال تک محدود نہ رہے لیکن حالات کی سنگینی کی طرف دُنیا کی توجہ دلانے کی صرف یہی ایک صورت باقی ہے۔عالمی طاقتوں نے تجارتی اور مادی مفادات کی خاطر کشمیر میں بھارتی مظالم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اُن کی نظر یں ایک کروڑ سے زائد کشمیریوں کی آزادی سے زیادہ بھارت کی وسیع و عریض منڈی پر ہیں۔اس حوالے سے بیشتر مسلمان ملکوں کی پالیسی بھی افسوسناک ہے وہ تجارتی اور مادی مفادات کی خاطر بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ۔ مسلمان ملکوں کی تنظیم اوآئی سی کے پلیٹ فارم پر تو عموماً بڑی دھواں دھار تقریریں ہو تی ہیں لیکن عملی اقدامات سے گریز کیا جاتا ہے حتیٰ کہ کشمیریوں اور بھارت کے اندر مسلمانوں پر مظالم کی بھرپور مذمت سے بھی گریز کیا جاتا ہے ۔بھارت کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل اور عالمی اداروں کی قرار دادوں کو پائمال کرتے ہوئے کشمیریوں کی بچی کھچی آزادی کو بھی کچلنے کے لئے کئی غیر آئینی، غیر جمہوری اور ظالمانہ اقدامات کر چُکا ہے ۔کشمیریوں کی حیثیت کو منسوخ کرنا ،آرٹیکل 370کو ختم کر کے کرفیو لگا دینا،لاکھوں افراد کو گھروں میں نظر بند کرنااور ضرورت کے لئے باہر نکلنے والوں پر وحشیانہ مظالم ڈھانا نہائت شرمناک ہے۔ مسئلہ کشمیر ،سرحدی جھڑپیں اور بھارت کی آبی جارحیت کا تسلسل نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لئے بھی سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔بد قسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سطح پر کچھ نہیں ہو گا۔ آخر میں یہ صرف ہماری لڑائی رہ جائے گی کوئی دوسرا اس سے لڑنے نہیں آئے گا۔یہ امرقابلِ ذکر ہے کہ شملہ معاہدے کے نتیجے میںسلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈال دیا۔شملہ سمجھوتے میں اس تنازع کو دو طرفہ قرار دیا گیا تھایعنی یہ طے پایا کہ اس مسئلے کو دونوں ملک بیرونی مداخلت کے بغیر باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے۔لیکن بد قسمتی سے بھارت نے ہٹ دھرمی کے باعث مسئلے کو پُر امن طور پر حل کرنے کی پاکستان کی ہر کوشش سبوتاژ کر دی۔تقریباً نصف صدی بعد موجودہ حکومت کی جاندار خارجہ پالیسی کے نتیجے میںگزشتہ سال چین کی مداخلت پر کشمیر کے مسئلے پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔ لیکن بڑی طاقتوں کے رویہ کے باعث تنازع کے حل کی جانب کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہو سکی۔ حالانکہ مسئلہ کشمیر اپنی نزاکت کے باعث کسی وقت بھی عالمی امن کو تہہ و بالا کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو اس کی ذمہ داری بھارت کی ہٹ دھرمی اور بڑی طاقتوں کی ناعاقبت اندیشی پر عائد ہو گی۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے، کہ بھارت کو کشمیریوں کی آزادی سلب کرنے کی اس لئے بھی جراٗت ہوئی ہے کہ ہم میں بحیثیت قوم وہ یک جہتی اور ہم آہنگی مفقود ہے ، جو دشمن کے لئے اسلحہ کے ذخائر سے بھی کہیں زیادہ ہیبت ناک ہو تی ہے ۔ جب 22کروڑ عوام جذبہء شہادت سے سر شار اپنی فوج کے شانہ بہ شانہء کھڑے ہوں گے تو دشمن بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن