پاکستانی سیاست
ویسے تو سیاست دنیا میں ایک بہت ہی مقدس پیشہ ہے مگر پاکستان کی سیاست ذرا باقی دنیا سے ’’ وکھری ٹائپ‘‘ کی ہے۔کہنے کو تو پاکستانی سیاستدان سیاست عبادت سمجھ کر کرتے ہیں مگر بد قسمتی سے اقتدار میں پہنچ کر عبادت منافقت میں بدل جاتی ہے۔ پھر ملک اور عوام کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ ملک جانتا ہے یا عوام ۔پاکستان میں سیاست وہ پیشہ ہے جو تا حیات چلتا ہے۔تعلیم کی کوئی قید نہیں۔ اس میں ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی۔ یاد رہے کہ ہمارا ایک معذور گورنر جنرل بھی کافی عرصہ حکمران رہا۔ پاکستان کو کافی نقصان پہنچا کر گیا مگر ہم اُف تک نہ کر سکے۔ ہماری سیاست میں جس کو بھی سیاست کا موقعہ مل جاتا ہے اس کی نہ صرف کئی نسلیں سنور جاتی ہیں بلکہ پوراخاندان ہی سنور جاتا ہے۔ پاکستان میں سیاست سے بلند مرتبہ کوئی پیشہ نہیں۔ ہماری سیاست کی پہلی خوبی یہ ہے کہ یہ موروثیت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جو کوئی ایک دفعہ بھی اقتدار میں آیا اسکا سارا خاندان ہی سیاسی بن گیااور اقتدار وہ اپنا حق سمجھتا ہے۔ اور تو اور اس خاندان کی خواتین بھی سیاسی لیڈرز بن کر دھڑلے سے حکمرانی کرتی ہیں۔ ایسے خاندانوں کے بچے بھی سیاستدان ہوتے ہیں۔بڑے بڑے بزرگ سیاستدان بھی ان کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھتے ہیں اور سیاسی بچے کا ہر لفظ لوہے پر لکیر مانا جاتا ہے۔پارٹی ممبران اسکی سیاسی علم و دانش کی تعریفیں کر کر کے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتے ہیں۔بعض اوقات تو احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ کوئی اوتار ہے۔ اس سے کوئی سوال پوچھنا یا اسکے کسی حکم پر اعتراض کرنا اسکی شان میں گستاخی کے مترادف ہے۔
ہماری سیاست کی ایک بڑی خوبی بڑھکیں مارنا اور ایسے ایسے دعوے کرنا ہے جنہیں پورا کرنا نہ تو ممکن ہوتا ہے اور نہ ہی محترم سیاستدانوں کا ایسا کرنے کا ارادہ ہوتا ہے۔ محض عوام کو بے وقوف بنانے کا ہنر ہے جو اکثر سیاستدان الیکشن سے پہلے عوام پر آزماتے ہیں۔ اگر تمام سیاستدانوں کی مثالیں لیں تو یہ کاغذ کم ہو جائیگا۔فی الحال دو لیڈروں کے بیانات ہی کافی ہونگے۔مسلم لیگ نون کے جناب شہباز شریف صاحب ایک سینئر اور تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ ایک لمبے عرصے تک پنجاب کی حکمرانی کر چکے ہیں۔ بہت اچھے مقرر ہیں لیکن ہیں بہت جذباتی۔ ان کی تقریر یں اکثر جذبات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بعض اوقات تو مائیک بھی توڑ دیتے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں جناب نے بہت جذباتی انداز میں جناب آصف علی زرداری پر حملہ کیا۔ فرمایا : ’’ پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت اسکا پیٹ پھاڑ کر نکالیں گے ۔اسے اگر لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں‘‘۔عوام اس بیان سے بہت خوش ہوئے کیونکہ ہمارے کچھ سیاستدانوں نے ملک لوٹ کر اسے کنگال کر دیا ہے۔ ہر پاکستانی کی بہت بڑی حسرت ہے کہ پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے ۔عوام ہر اُس سیاستد ن کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں جو کرپشن کا پیسہ واپس لائے ۔لہٰذا عوام نے دل کھول کرمسلم لیگ نون کو ووٹ دئیے ۔محترم شہباز شریف صاحب ایک دفعہ پھر پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اقتدار میں آکر عوام سے کئے گئے تمام وعدے سرکاری مال خانے میں جمع کرا کر تالے لگوا دئیے۔پھر اسکا کبھی ذکر تک نہ کیا بلکہ زرداری صاحب کو لاہور دعوت دی گئی۔ لوگ کہتے ہیں کہ انہیں27ڈشز کا لنچ دیا گیا تھا۔
یہی کچھ عمران خان نے الیکشن سے پہلے کیا۔ انہوں نے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور ایک نیا پاکستان بنانے کا وعدہ کیا ۔مطلب یہ کہ کسی امیر اور طاقتور کو رعایت نہیں ملے گی ۔قانون امیر غریب کے لئے ایک ہوگا۔ عوام نے عمران خان پر اعتماد کیا۔ محترم پاکستان کے وزیر اعظم بنے ۔نہ لوٹا ہوا پیسہ واپس لا سکے نہ ایک قانون پر عمل کرا سکے۔ پاکستان کو لوٹنے والے آرام سے دندناتے پھرتے ہیں۔حکومت ان کا بال بھی بیکا نہ کر سکی۔
پاکستانی سیاست کی ایک اور بڑی خوبی مال بنانا ہے بادیگر الفاظ ملک کو لوٹنا ہے۔ دوسرے ممالک میںلوگ سیاست اور اقتدار میں اس لئے آتے ہیں کہ ملک کی خدمت کریں۔ ملک کی ترقی کا ذریعہ بنیں۔ دنیا میں ملک کا نام روشن کریں۔ ملک کی خدمت کا اعزاز بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے اور ایسے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ان کا دور حکومت ملکی تاریخ میں یاد گار بن جائے۔ کچھ صدور اور وزراء ایسے بھی تھے جن کا نہ ذاتی گھر تھا نہ ذاتی گاڑی۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم مرحوم لیاقت علی خان جب شہید ہوئے تو ان کی جیب میں صرف سترہ روپے تھے اور ان کی بنیان پھٹی ہوئی تھی۔ ان کے پاس اس وقت تک ذاتی مکان بھی نہیں تھا۔ اسی طرح جناب قائداعظم ملکی خزانے سے چائے کا کپ تک نہیں پیتے تھے۔ یہ تھے ہمارے اس وقت کے لیڈرز جب پاکستان بنا تھا۔ پاکستان کے پاس اس وقت کچھ بھی نہ تھا۔ مسائل اژدہائوں کی شکل میں منہ پھاڑے کھڑے تھے۔ یہ نیک اور ایماندار لوگ تھے جن کی انتھک محنت اور کوششوں سے پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہوا۔ مگر افسوس کہ ان عظیم انسانوں کے بعد ایسے ایسے سیاستدان پاکستان کے حکمران بنے جن کے کارنامے سن کر افسوس ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جومحض اس لئے سیاست میں آئے کہ پاکستان کو لوٹ کھائیں۔ کچھ ایسے سیاستدان بھی تھے جو سیاست سے پہلے کرائے کے مکانوں میں رہتے تھے یا جن کے ذاتی مکان پانچ مرلے سے زیادہ نہ تھے۔ اقتدار میں آئے۔ اب محلات میں رہتے ہیں۔ قیمتی گاڑیوںمیں پھرتے ہیں۔ بڑے بڑے بینک بیلنس ہیں جو یورپی بنکوں میں جمع کرا رکھے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تقریباً تقریباً پاکستان کے ہر سیاستدان نے ملک کو لوٹا ۔ پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیجا۔ باہر جائیدادیں خرید کیں۔ یوں ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ مزید نقصان یہ کیا کہ ملک کو قرض میں ڈبودیا اور یہ قرضہ اتنا زیادہ ہے کہ ہماری کئی نسلیں یہ قرض اتاریں گی۔ ان لوگوں کے ضمیر کو کیا کہا جائے جنہوں نے ایک خوبصورت اور پھلتے پھولتے ملک کو بھکاری بنا دیا۔