مقبوضہ کشمیر: مزید 3 نوجوان شہید، قابض فوج کی زیر حراست 8 ہزار سے زائد کشمیری لاپتہ
سری نگر( آن لائن ) مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فورسز نے سرچ آپریشن کی آڑ میں مزید 3 کشمیری نوجوان شہید کردیئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مقبوضہ کشمیرکے ضلع کولگام میں بھارتی فورسزنے ایک بارپھربربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرچ آپریشن کی آڑمیں 3 کشمیری نوجوانوں کوشہید کردیا۔گزشتہ روزبھی ضلع کپواڑہ میں بھارتی فورسزنے ریاستی دہشتگردی کے نتیجے میں کشمیری نوجوان کومحاصرہ کے دوران شہید کر دیا تھا۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیرمین سید علی گیلانی نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں گرفتاریوں کی نئی لہر قابض حکام کی مایوسی اور افسردگی کا عمل ہے ۔ گرفتاویوںسے ہمارے حق خودارادیت کے عزم کو مزید تقویت ملے گی۔سید علی گیلانی نے ایک ٹویٹ میں بھارتی فوجیوں اور پولیس کے ہاتھوں گرفتاریوں کی مذمت کی ہے۔سید علی گیلانی نے سرینگر میں ایک ٹویٹ میں کہا کہ تحریک حریت جموں و کشمیر کے جنرل سکریٹری عامر حمزہ کی گرفتاری بھارتی حکام کی مایوسی اور بزدلی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں8 ہزار سے زائد افراد قابض بھارتی فورسز کی زیر حراست لاپتہ ہوچکے ہیں۔لاپتہ کشمیریوں کے لواحقین مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ ایسی خواتین جن کے شوہر بھارتی فورسز کی حراست میں لاپتہ ہوچکے ہیں۔ ان کشمیری خواتین کو آدھی بیوائیں کہا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلسل لاک ڈاون اور معاشی مشکلات کے باعث آ دھی بیوائیں شدید متاثر ہوئی ہیں۔۔ جنوری 1998سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں آٹھ ہزار سے زائد افراد قابض بھارتی فورسز کی زیر حراست لاپتہ ہوچکے ہیں۔بھارتی حکومت نے گزشتہ برس پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرکے علاقے کا فوجی محاصرہ کر لیا تھا ۔حبلہ بیگم نامی ایک آدھی بیوہ نے سرینگر میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ اسے ایک فلاحی ادارے سے ہر ماہ ایک ہزار روپے ملتے تھے لیکن لاک ڈائون کے نفاذ کے بعدوہ ملنا بند ہو گئے ہیں جسکی وجہ سے وہ سخت مشکلات سے دوچار ہیں ۔حبلہ بیگم نے کہا کہ اسکا بیٹا الیکٹریشن کا کام کرتا ہے لیکن لاک لائون کی وجہ سے اسکا کام بھی تقریبا ٹھپ ہے ۔ حبلہ بیگم نے اپنے شوہر کی گرفتاری اور گمشدگی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ اسکے شوہر کو بھارتی فوج نے 22دسمبر 1998کو گرفتار کیا تھا جو اب تک گھر واپس نہیں لوٹے ۔ حبلہ نے کہا کہ اس نے اپنے شوہر کو ہرجگہ تلاش کیا لیکن ناکام رہی ۔حبلہ بیگم نے اپنے شوہر کی تلاش کے دوران سہنے والی تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ شوہر کی تلاش میں صبح گھر سے نکلتی تھی اور رات گئے گھر لوٹی تھی اور اس دوران اسکے چھوٹے چھوٹے پانچ بچے گھر پر اکیلے ہوتے تھے جو پورا دن اسکا انتظار کرتے رہتے۔ انہوں نے کہا کہ اسکا شوہر گھر کا واحد کفیل تھا لہذا نکی گمشدگی کے باعث انہیں فاقے بھی برداشت کرنے پڑے۔مشکلات کی زندگی کے دوران ہی حبلہ نے اپنی ایک بڑی بیٹی کی شادی کی جبکہ چھوٹی مسکان کی تعلیم کی طرف بھر پور توجہ دی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ مسکان بھی اسکی طرح ناخواندہ رہے اور تکالیف اٹھائے۔