شوگر کمشن رپورٹ ختم بھی کر دیں تو ادارے کارروائی کر سکتے ہیں: اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ میں شوگر انکوائری کمشن کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر درخواست گزار وکیل مخدوم علی خان کے دلائل جاری ہیں۔ عدالت نے سماعت آج تک کیلئے ملتوی کردی۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے وکیل مخدوم علی خان جبکہ وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر عدالت میں پیش ہوئے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل جاری رکھتے ہوئے اور سپریم کورٹ فیصلوں کے مختلف حوالے دیتے ہوئے کہاکہ انکوائری کمشن کے لئے نوٹیفکیشنز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ ایک ممبر پورے 9 دنوں کے لئے کمشن سے غائب تھا، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ یہ کیس کسی ممبر کے حاضر یا غیر حاضر ہونے کا نہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت کمیشن دوبارہ بنائے؟ جس پر مخدوم علی خان ایڈووکیٹ نے کہاکہ حکومت دوبارہ کمیشن بنائے اور انکوائری کرے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ کمیشن اٹانومس باڈی ہوگی، اور ان کے پاس انکوائری کے اختیارات ہونگے؟ درخواست گزار وکیل نے کہاکہ جی بالکل، سیکشن 10 کے تحت حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ ایڈیشنل اختیارات دے، شوگر ملز کے بارے میں بہت ساری باتیں کی گئی، کچھ مخصوص کمپنیوں کے حوالے سے انکوائری کی گئی، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ اگر کسی کے خلاف ذاتی طور پر فائنڈنگ آجاتی ہے تو وہ اس سے متاثر ہوسکتے ہیں؟۔ مخدوم علی خان ایڈووکیٹ نے کہاکہ سپریم کورٹ کے کرکٹر سلیم ملک کیس میں واضح احکامات ہیں، انکوائری کمیشن رپورٹ سے ریپوٹیشن خراب ہوگئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ آپ جس انڈین کورٹس کے فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں، اس میں حکومت کو کسی انکوائری سے منع نہیں کیا گیا، جس پر درخواست گزار وکیل نے کہاکہ کیا ہم اس قسم کے کمیشن رپورٹ کو چیلنج کرسکتے ہیں؟۔ پبلک انٹرسٹ کے خلاف ہر قسم کی انکوائری یا ایگزیکٹو معاملات کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ درخواست گزار وکیل نے کہاکہ شوگر ملز مالکان کو سٹہ باز، مافیاز کہا گیا۔ شوگر انکوائری کے لئے وفاقی حکومت نے کمیشن بنایا، رپورٹ میں کہا گیا کہ کمیشن نے حکومتی احکامات کے بعد چینی بحران پر کام شروع کیا، انکوائری کمیشن رپورٹ سے شوگر ملز پر سنگین الزامات لگائے گئے، پہلے وزیراعظم کی بنائی گئی ایڈہاک کمیٹی نے اپنی رائے دی اور کمیشن بنانے کی سفارش کی، رپورٹ میں کہہ دیا گیا سٹے کے ذریعے غیر قانونی طور پر قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ یہ تو ایک مجموعی بات کی گئی تھی اس میں کسی کا نام نہیں لیا گیا، ایک مجموعی بات لکھنے سے کسی کی شہرت کو کیسے نقصان ہو سکتا ہے؟ درخواست گزار وکیل نے کہاکہ پوری شوگر انڈسٹری پر یہ الزام لگایا تھا، ایڈہاک کمیٹی نے کئی معاملات پر اپنی رائے دیکر کہا کہ اس پر کمیشن بنائیں، انکوائری کمیشن نے ایڈہاک کمیٹی کی قائم کردہ رائے پر متعصبانہ کارروائی کی، شوگر انکوائری کمیشن نے جانبدارانہ رپورٹ تیار کرلی۔ جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ کمیشن غیر آئینی ہے؟۔ جس پر وکیل درخواست گزار نے کہاکہ کمشین نے جو بھی کام کیا سارا غیر قانونی کام ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ انکوائری رپورٹ کسی ادارے پر بائنڈنگ تو نہیں کہ وہ اسی پر کارروائی کرے، سنگل بنچ نے بھی اپنے فیصلے میں اس بات کی نشاندہی کی ہے، نیب اور دیگر ادارے تو خود بھی کسی معاملے پر انکوائری کے مجاز ہیں، کل کوئی ادارہ خود چینی سکینڈل پر تحقیقات شروع کر دے تو آپ کس کو الزام دیں گے، اس رپورٹ کو ختم بھی کر دیا جائے تو اداروں کا کارروائی کا اختیار تو ختم نہیں ہو گا۔ جس پر درخواست گزار وکیل نے کہاکہ جب کابینہ یہ رپورٹ اداروں کو بھیجے گی تو وہ اداروں پر اثر انداز ہو گی، ہمارا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ یہ رپورٹ ہماری شہرت کو خراب کر رہی ہے، جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا چینی انکوائری کمشن نے ایسوسی ایشن کو بلایا تھا؟ جس پر وکیل نے کہاکہ جی کمشن نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کو بھی نوٹس کرکے بلایا تھا، انکوائری کمشن نے رپورٹ میں کچھ شوگر ملز کے خلاف صرف الزامات لگائے۔ جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ کمیشن نے کہا ہے کہ ٹیکس آڈٹ کریں، اور ٹیکس آڈٹ غلط تو نہیں ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ یہ رپورٹ کسی کے غلط اقدامات کا کوئی ثبوت تو نہیں ہے۔