اداروں کو شفاف چلنا چاہئے، کسی کو ایک روپے کا فائدہ نہیں پہنچنے دینگے: چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) کرونا از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے این ڈی ایم اے اور سول ایوی ایشن پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تین مرتبہ حکم دینے کے باجود این ڈی ایم اے معلومات فراہم نہیں کر رہا۔ لگتا ہے ہمارے ساتھ کسی نے بہت ہوشیاری اور چالاکی کی ہے۔ لگتا ہے این ڈی ایم اے کو ہی ختم کرنا پڑے گا۔ شاید کرونا میں بہت کچھ غلط ہوا ہے جس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کسی کو ایک روپے کا فائدہ بھی نہیں پہنچنے دینگے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اربوں روپے کیسے خرچ ہورہے ہیں جعلی ادویات بنانے والوں اور فروخت کرنے والوں کو سزائے موت ہونی چاہئے ۔ ڈی جی سول ایوی ایشن اس عہدے کے اہل نہیں۔ سی اے اے کے تمام افسران کو ان کا حصہ پہنچ رہا ہوتا ہے۔ جعلی لائسنس پر دستخط کرنے والے جیل جائینگے۔ چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں رش دیکھ کر ہدایت کی کہ عدالت میں سماجی فاصلے کو برقرار رکھا جائے۔ جس کے بعد باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا این ڈی ایم اے نے ابھی تک اہم دستاویز جمع نہیں کرائیں۔ الحفیظ کمپنی کی مشینری کو امپورٹ کی اجازت دینے کی دستاویز کہاں ہیں۔ تین بار حکم دینے کے باوجود دستاویز کیوں نہیں دیئے گئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جہاز چارٹرڈ کرنے اور اس کی ادائیگیوں کی تفصیلات کہاں ہیں۔ ڈائریکٹر این ڈی ایم اے نے عدالت میں موقف اپنایا کہ الحفیظ کمپنی کی مشینری این ڈی ایم اے نے امپورٹ نہیں کی۔ کمپنی نے براہ راست امپورٹ کی ہے این ڈی ایم نے صرف سہولت کاری کی ہے تاکہ مشینری امپورٹ ہو سکے جس پر چیف جسٹس نے کہا ابھی تک الحفیظ کمپنی کا مالک سامنے نہیں آسکا۔ اصل مسئلہ کسٹم اور دیگر قوانین پر عمل نہ ہونا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا دستاویزات کے مطابق مشینری کی قیمت ظاھر نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا جہاز چارٹر کیاگیا جس کے لئے ایک کروڑ سات لاکھ سے زائد نقد رقم ادا کی گئی۔ چارٹر معاہدے کے مطابق ادائیگی کیسے کر سکتے ہیں۔ کراچی میں اتنا کیش کوئی کیسے دے سکتا ہے۔ لگتا ہے ھمارے ساتھ کسی نے بہت ہوشیاری اور چالاکی کی ہے۔ ویکسین اور ادویات کی امپورٹ کی دستاویز کہاں ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا متعلقہ حکام کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل صاحب کیا تماشا چل رہا ہے۔ لگتا ہے این ڈی ایم اے کو ہی ختم کرنا پڑے گا۔کیا این ڈی ایم اے کو ختم کرنے کے لئے سفارش کر دیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا چیئرمین این ڈی ایم اے وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا این ڈی ایم اے کے لوگ عدالت میں موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا شاید بہت کچھ غلط ہوا ہے جس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جار ہی ہے کیوں نہ چیئرمین این ڈی ایم اے کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیں؟۔ کسی کو ایک روپے کا فائدہ بھی نہیں پہنچنے دینگے۔ ملک کے اداروں کو شفاف انداز میں چلنا چاہئے۔ نقد ادائیگی اس کمپنی کو کی گئی جس کا کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔ لگتا ہے چائنا میں پاکستانی سفارتخانے نے چین کو نقد ادائیگی کی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہااین ڈی ایم اے کو فری ہینڈ اور بھاری فنڈز دیئے گئے تا کہ کرونا سے لڑا جا سکے۔ اب این ڈی ایم اے عدالت اور عوام کو جوابدہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا این ڈی ایم اے ٹڈی دل کے لئے جہاز اور مشینری منگوا رہا ہے ۔صرف زبانی نہیں دستاویز سے شفافیت دکھانی پڑے گی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اربوں روپے کیسے خرچ ہورہے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے ممبر ایڈمن کو خود کچھ معلوم نہیں ۔ این ڈی ایم اے کی رپورٹ غیر تسلی بخش ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکرونا،سیلاب ، ٹڈی دل اور سب کچھ این ڈی ایم اے کو سونپا گیا ہے عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے این ڈی ایم اے کے جمع شدہ جواب واپس لینے کی استدعا کردی اور موقف اپنایا کہ دستاویز سمیت جامع جواب جمع کرائینگے۔ جس پر عدالت نے اپنے حکم میں ایس ای سی پی سے الحفیظ کمپنی کی تمام تفصیلات طلب کرتے ہوئے عدالت نے این ڈی ایم اے کا جواب ممبر ایڈمن کو واپس دے دیا اور تمام تفصیلات پر مبنی جامع جواب طلب کرلیا جس کے بعد عدالت نے چیئرمین ڈریپ سے استفسار کیا کہ ڈریپ نے نان رجسٹرڈ ادویات کی درآمد کی اجازت کیسے دی؟ جن ادویات کی اجازت ہی نہیں انکو لانے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں جس پر چیئرمین ڈریپ نے کہا قوانین کے مطابق ایمر جنسی میں ادویات اور مشینری در آمد کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ تاہم اس کے حوالے سے ایمر جنسی کے تحت ہسپتال کی جانب سے درخواست دی جا تی ہے جس پر ادویات کو فوری لانے کیلئے اجازت دی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس ہسپتال نے مشینری اور ادویات مانگی تھیں؟ چیئر مین ڈریپ نے کہا سرکاری اور نجی ہسپتال دونوں کی جانب سے ایمر جنسی میں ادویات کی اجازت طلب کی گئی تھی چیف جسٹس نے کہا بھارت سے انے والی ادویات کون سی تھیں چیئرمین ڈریپ نے بتا یا کہ بھارت سے آنے والی ادویات کی امپورٹ پر پابندی لگی تھی۔ لیکن اب بھارت سے خام مال دوبارہ آرہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا بھارت سے آنے والی ادویات غیر قانونی تھی۔ اور اس کی حیثیت کیا تھی ؟ جس پر اٹا رنی جنرل نے کہاکابینہ نے چند ادویات کی اجازت دی لیکن امپورٹ بہت زیادہ ہوئیں جس پر انکوائری کروائی گئی تو معلوم ہوا کہ اجازت سے کہیں ذیادہ ادویات بھارت سے لائی گئیں شہزاد اکبر نے رپورٹ جمع کرائی کہ اجازت کا غلط استعمال کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے کہاڈریپ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی بھی دوا نہیں لائی جا سکتی ڈریپ کی ناک کے نیچے جعلی ادویات مل رہی ہیں۔ جعلی ادویات بنانے والوں اور فروخت کرنے والوں کو سزائے موت ہونی چاہئے,پاکستان میں زیادہ سے زیادہ دو ہفتے کی سزا ہوتی ہے جعلی دوائی بیچنے والے کو زیادہ سے زیادہ 10 ہزار روپے جرمانہ ہوتا ہے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چیئرمین ڈریپ آپ اپنا کام کر ہی نہیں رہے۔سپریم کورٹ کی ایڈیشنل سیکریڑی صحت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا سیکرٹری صاحب آپ صرف لیڑ بازی ہی کرتے ہیں آپ کیا کر رہے ہیں خط لکھنے سے مسائل حل نہیں ہوتے, جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاآپ نے سارا ملبہ صوبوں پر ڈال دیاصرف خط ہی لکھنے ہیں تو وزارت صحت کا کیا فائدہ؟ چیف جسٹس نے کہا ہمیں عملی کام چاہیے بابوئوں والا کام نہیں آپکو معلوم ہے کہ بابو کون ہوتا ہے؟ بابو کا لفظ افسروں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر سیکرٹری صحت ادویات کی قیمتوں کے حوالے تفصیلی رپورٹ کے ہمراہ پیش ہوں ۔عدالت نے ڈریپ کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی اور ڈریپ سے امپورٹ کی گئی ادویات سے متعلق تمام تفصیلات طلب کرلیں ۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت کتنی لگژری گاڑیاں خرید رہی ہے پنجاب حکومت نے بتایا نہیں کہ 500 ملین کی کونسی لگژری گاڑیاں امپورٹ کی جائیں گی کوئی ایمبولینس ہے کچرے گاڑی ہے یا پھر پراڈو کوئی معلوم نہیں۔ عدالتی استفسار پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتا یا کہ پنجاب حکومت کوئی گاڑیاں امپورٹ نہیں کر رہیو جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاگزشتہ سماعت پر پنجاب کی جانب سے یہ ہی کہا گیا کہ گاڑیاں نہیں منگوا رہیو کرونا کی وجہ سے ترقیاتی فنڈز تو جاری نہیں کر رہے پھر یہ گاڑیاں کیسے خریدی جا رہی ہیں ؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گزشتہ سال کتنی گاڑیاں خریدیں گئیں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاگزشتہ سال کی معلومات ابھی موجود نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاپہلے بھی بی ایم ڈبلیو ،ڈبل کیبن پراڈو خریدنے پر سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا تھا اب پنجاب حکومت دوبارہ 500 ملین کی گاڑیاں خرید رہی ہیں ڈونرز کی جانب سے ملک کو قرضہ دیا جاتا ہے اب اس قرضہ سے لگژری گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں افسران کہتے ہیں کھیتوں میں جانا ہے اس لئے بڑی گاڑی چاہیے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا صاف پانی کمپنی نے چار ارب روپے خرچ کئے تھے، صاف پانی تو ملا نہیں اربوں روپے کی لگڑری گاڑیاں خریدی گئی، عدالت نے حکم دے کر گاڑیاں حکومت کو واپس کرائیں، جس پر عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ پنجاب حکومت نے چار سو اٹھاسٹھ روپے گاڑیوں کی خریداری کیلئے مختص کئے، بتایا گیا فنڈز مختص کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ گاڑیاں لازمی خریدی جائیں گی، عدالت نے صوبائی حکومت، سرکاری کمپنیوں کے پاس موجود گاڑیوں کی تفصیلات طلب کرلیں اور ڈونر ایجنسیوں کی جانب سے دی گئی رقم سے خریدی گئی گاڑیوں کی تفصیلات بھی طلب کرتے ہوے سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو بجٹ میں گاڑیوں کیلئے مختص فنڈ استعمال کرنے سے روک دیا کیس کی سماعت کے دوران سندھ اور بلوچستان حکومت نے تفصیلی رپورٹ جمع کرنے کیلئے وقت مانگ لیاجس پر عدالت نے سندھ حکومت اور بلوچستان کو دو ہفتوں کا وقت دے دیابلوچستان حکومت سے بھی دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیاسول ایو ایشن حکام کیس میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس پاکستان نے کہاپوری دنیا میں جعلی لائسنس کا سکینڈل ہمارا مشہورہواپاکستان کے بہت سے اور سکینڈل پہلے سے مشہور تھے۔ کیا سول ایویشن اتھارٹی کے کسی افسر کے خلاف کاروائی ہوئی۔ عملی کام کیا تو جواب دیں۔تقریر نہیں سنیں گے۔چیف جسٹس نے کہاپاکستان میں تمام برائیاں ایئرپورٹ سے آتی ہیں لگتا ہے یہ آج آپ پر انکشاف ہو رہا ہے ڈی جی سول ایو ی ایشن نے کہاسول ایو ایشن میں اصلاحات لا رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہاہمیں کہیں بھی اصلاحات نظر نہیں ارہی ہیں۔آپ اس عہدے کے اہل نہیں۔ سی اے اے چلانا آپ کے بس کی بات نہیں چیف جسٹس نے کہاپائلٹ کو لائسنس دینے کے وقت سی اے اے کے تمام کمپیوٹر بند ہو گئے ۔ ہمارے لئے شرم کا مقام ہے کہ پائلٹس کے لائسنس جعلی نکلے۔ سی اے اے نے عوام کی زندگیاں دا پر لگا دی ہیں۔ سی اے اے نے کسی افسر کے خلاف کاروائی نہیں کی۔بھیانک جرم کرنے اور کرانے والے آرام سے تنخواہیں لے رہے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہابدنامی میں پاکستان زمین کہ تہہ تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کو دنیا کا کرپٹ ترین ملک کہا جاتا ہے سی اے اے کے بعض جاری لائسنس سمجھ سے باھر ہیں۔ ڈی جی سول ایو ایشن نے کہافرانزک آڈٹ کے مطابق 262 لائسنس جعلی ہیں۔28 لائسنس مسنوخ کرکے 189 کے خلاف کاروائی شروع کردی ہے فرانزک اڈٹ تھرڈ پارٹی سے 2010 سے 2018 تک کروایا گیا۔جسٹس اعجا ز الاحسن نے کہا2018 میں عدالت نے لائسنس چیک کرنے کا حکم دیا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا ڈی جی صاحب آپ مضبوط آدمی ہیں ؟ ڈی جی نے کہاانشا اللہ میں مضبوط آدمی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاآپکا انشا اللہ عملی طور پر نظر نہیں آرہا۔سی اے اے کا تمام عملہ سمجھوتہ کر چکا ہے جعلی لائسنس دینے والے تمام افسروں کو برطرف کریں۔جعلی لائسنس پر دسخط کرنے والے جیل جائینگے۔ حکومت کی منظوری سے ایف آئی اے کو معاملہ بھجوائیں گے۔ دوران سماعت ایم ڈی پی آئی اے ارشد محمود ملک بھی عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ جعلی ڈگری والے 750 ملازمین کو نکالا ہے,بھرتیوں میں ملوث افراد کو بھی نکالا گیا ہے چیف جسٹس نے کہا لوگوں نے پی آئی اے پر سفر کرنا چھوڑ دیا ہے ایم ڈی نے بتا یا کہ پی آئی اے میں 141 جعلی لائسنس والے پائلٹس نکلے, جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاپی آئی اے کو 450 پائلٹس کی ضرورت ہی کیوں ہے, ارشد ملک نے کہا جعلی ڈگریوں والے 15 پائلٹس کو برطرف کیا گیا,پائلٹس کو صرف معطل کر سکتا ہوں برطرف سول ایوی ایشن کرتا ہے چیف جسٹس نے کہاکیا آپکو پائلٹس برطرف کرنے کا اختیار ہے,جس پر ایم ڈی پی آئی اے نے کہابدقسمتی سے قانون نے میرے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں چیف جسٹس نے کہا یہ مسئلے کا حل نہیں کہ 500 ملازم نکال کر اتنے ہی بھرتی کر لیں ارشد ملک نے کہا پی آئی اے کا 50 فیصد عملہ نکال رہے ہیں چیف جسٹس نے کہاپی آئی اے کا کوئی اثاثہ بھی فروخت نہیں کر سکیں گے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاروزویلٹ ہوٹل سمیت پی آئی اے کا کوئی اثاثہ عدالت کی اجازت کے بغیر فروخت نہیں ہوسکتا,چیف جسٹس نے کہاگلشن جناح میں پی آئی اے پلاٹ پر آج بھی شادی ہال بنا ہوا ہے,سپریم کورٹ اس شادی ہال کو گرانے کا حکم دی چکی ہے لیکن وہ گرا نہیں شادی ہال نہ گرانے پر توہین عدالت کی کارروائی کریں گے شاید آپکی یونین کے لوگ اس کو چلا رہے ہیں جس پر ارشد ملک نے کہا ہال بند ہے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکمپیوٹر تک غیر قانونی رسائی پر کیا کاروائی ہوئی۔ مئی میں حادثہ ہوا اب تک صرف چٹھی بازی ہو رہی ہے۔ کراچی حادثے کے پائلٹ کو لائسنس 1990میں جاری ہوا تھا۔2010 سے پہلے جاری لائسنس کا کیا کرینگے۔ اب فوری طور پر عملی اقدامات کا وقت ہے جہاز کا پائلٹ تین سو بندوں کی ذمہ داری چھوڑ کر کرونا پر گفتگو کررہا تھا۔ آپ کو رات کو نیند کیسے آجاتی ہے چیف جسٹس نے کہاآپ کو تو کام کام اور صرف کام کرکے نتائج دینے چاہیئں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاپاکستان کے علاوہ کتنے ممالک میں جعلی لائسنس نکلے؟ سیاسی مداخلت ہے پائلٹ اتنے بااثر ییں کہ ایکشن نہیں ہو رہاپوری دنیا میں سول ایوی ایشن نے ملک کو بدنام کیا۔ چیف جسٹس نے کہا1947سے کے آج تک جاری تمام لائسنس چیک کریں۔ ڈی جی نے کہاکمپیوٹرائہزڈ ڈیٹا 2010 میں شروع ہوا اس لئے سے وہاں سے آڈٹ ہوپی آئی اے کے اکتیس جھاز اور 450 پائلٹ ہیں۔ جبکہ دنیا کی دس ایئر لائینز میں ایک سو چھتر پاکستانی پائلٹ کام کررہے ہیں چیف جسٹس نے کہا کل کو سب نکالے گئے لوگ ائیر پورٹ سے یہ بیرون ملک چلے جائیں گے ایتھوپیا جیسے ملک نے بھی پاکستانی پائلٹس پر سوالات اٹھا دیئے ایک وقت تھا ہالی ووڈ اداکار پی آئی اے میں سفر کرنا اعزاز سمجھتے تھے، آج حالت دیکھیں پی آئی اے کہاں کھڑا ہے، پی آئی اے میں بھرتیوں پر پابندی عائد کرینگے، ایم ڈی پی آئی نے کہا سندھ ہائی کورٹ نے پانچ جعلی پائلٹس کو حکم امتناعی پر بحال کیا، چیف جسٹس نے کہاہائی کورٹ کا حکم امتناعی چیلنج کیوں نہیں کیا؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا مروجہ طریقہ کار کے مطابق کارروائی تیز کریں، دوران سماعت پالپا کے وکیل پیش ہوئے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ جعلی پائلٹس کی وکالت کر رہے ہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہاکسی جعلی پائلٹ سے کوئی ہمدردی نہیں، چیف جسٹس نے کہاپائلٹس کا فیصلے متعلقہ ادارے کرینگے،پی آئی اے جعلی پائلٹس سے ملا ہوا ہے، پی آئی اے پڑوسیوں کو نہیں اپنے گھر کو دیکھے عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ سول ایوی ایشن کے کمپیوٹر محفوظ نہیں، سول ایوی ایشن اتھارٹی میں ہونے والا کوئی کام محفوظ نہیں رہا، جعلی لائسنس ہولڈر پائلٹس کیخلاف کارروائی فوری مکمل کرے اور جعلی لائسنس جاری کرنے والے افسران کیخلاف فوجداری مقدمات درج کروائے جائیں اور دو ہفتے میں کارروائی پر مبنی رپورٹ پیش کی جائے ۔ عدالت نے پالپا کی فریق بننے کی درخواست خارج کر دی ۔