• news

5 اگست کو مودی کے رام مندر کی افتتاحی تقریب میں جانے پر سوالات

اسلام آباد ( عبداللہ شاد - خبر نگار خصوصی) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 5 اگست کو رام مندر کی ’’ بھومی پُوجن‘‘ تقریب میں شرکت کرنی ہے، ان کے اس اقدام کی بدولت بھارتی اعتدال پسند سیاسی و سماجی رہنمائوں میں اشتعال اور بے چینی پائی جاتی ہے کہ اگر ملک کا وزیراعظم ہی اس قدر انتہا پسندی کی انتہائوں پر پہنچ جائے تو اس دیش کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہ بھی سوال کیا جا رہا ہے کہ 5 اگست کو ہی اس تقریب کیلئے کیوں چنا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیپالی وزیراعظم کے بیان اور چین کیساتھ کشیدگی کے بعد سے مجموعی طور پر بھارتی مورال اپنی کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور مودی اس دن کو ان کے مورال میں اضافہ کرنے اور تحریک آزادی کشمیر کو ٹارگٹ کرنے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ کانگرس کی جانب سے مودی پر تنقید کی جا رہی ہے جبکہ حقیقاً راجیو گاندھی کے اپنے دور میں ہی بابری مسجد اور رام مندر کا قضیہ کھڑا کیا گیا تھا۔ رام مندر معاملے کی بدولت اس وقت پورے بھارت میں انتہا پسندی کی فضا عروج پر ہے اور دھڑے بندی بھی شدت اختیار کر چکی ہے۔ کانگرس کے رکن راجیہ سبھا حسین دل وئی نے کہا ہے کہ ’’ وزیراعظم مودی خود ایودھیا میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کیلئے جائیں گے، اس سے بھارتی مسلمانوں میں جو اشتعال اور غم و غصہ پیدا ہو گا، وہ بھارت کے مستقبل پر تباہ کن اثرات ڈالے گا، جواہر لعل نہرو نے اپنی دور میں سومناتھ مندر کی افتتاحی تقریب میں اسی وجہ سے شرکت نہیں کی تھی اور اس وقت کے بھارتی صدر راجندر پرشادکو بھی جانے سے منع کیا تھا حالانکہ وہ اس کے باوجود گئے تھے ‘‘۔ نیشنلسٹ کانگرس کے سربراہ اور بھارت کے قد آور سیاسی رہنما ’’شرد پوار‘‘ نے کہا ہے کہ ’’مودی اس قدر اہتمام سے 5 اگست کو رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے جائیں گے جیسے اس سے کرونا وائرس، بھوک و بے روزگاری اور چین کیخلاف کشیدگی فوراً ختم ہو جائیگی‘‘۔ کانگرس کے نائب صدر راہل گاندھی نے ٹویٹ کرتے کہا کہ ’’ مودی نے اقتدار میں آنے کے لئے اپنی شخصیت کو ایک مخصوص رنگ دیا جو ان کی سب سے بڑی طاقت تھی مگر اب یہی پوری بھارت کی سب سے بڑی کمزوری بن چکی ہے‘‘۔

ای پیپر-دی نیشن