قصور میں بکرا منڈی کی بجائے کچرا منڈی
شہر شہربکرا منڈی سج رہی ہے مگر قصور کی انتظامیہ کو نرالا خیال سوجھا ہے۔ اس نے بابا کمال چشتی ؒ کے قدموں میں کچرا منڈی کی غلاظت پھیلا دی ہے۔ بات کچرے تک رہتی تو پھر بھی برداشت کر لی جاتی مگر یہ غلاظت کا ڈھیر ہے۔ تعفن کا پہاڑ ہے اور بد بو ایسی کہ دماغ پھٹ جائے اور سانس بند ہو جائے ۔ شاید یہاں بائیو گیس کا پلا نٹ لگانے کا منصوبہ ہے۔
قصور بابابلھے شاہ کا شہر ہے ۔ خوبصورت صوفیانہ شاعری کا خالق، عبداللہ شاکر کا شہر ہے ،مزاحمتی شاعر جو خون کو گرما دیتا ہے۔ قصور ارشاد احمد حقانی کا شہر ہے جن کی تحریروں سے ڈکٹیٹروں پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔ اورقصور میرا بھی شہر ہے۔ جس نے کارگل کا شاہنامہ لکھا۔ قیصر ہند اور ضرب عضب کا رزم نامہ لکھا۔
گنڈا سنگھ روڈ نے کیا گناہ کیا کہ قصورکی انتظامیہ روزانہ درجنوں ٹرک لا کر اس کے کناروں پر ڈھیر کر دیتی ہے اس سڑک پر روزانہ فتوحی والہ برجکلاں، بازید پور، مہالم کلاں، شیخو پورہ ، سہجرہ۔ حسین خانوالہ، بھیڈیاں کلاں، ساندہ، مان، کیسر گڑھ اور بنگلہ کے لوگ سفر کرتے ہیں۔ بارڈر کو دیکھنے ملک بھر سے لوگ آتے ہیں۔ ان کے ساتھ بیرونی سیاح بھی ہوتے ہیںجنہیںاس بد بواور غلاظت کا مزہ چکھنا پڑتا ہے۔ کچرے اور غلاظت میں سینکڑوں کتے منہ مارتے ہیں اور آئے روز حادثات کا سبب بن رہے ہیں۔
مجھے پتہ ہوتا کہ یہ کارستانی کس کی ہے تو میں براہ راست اسی کو مخاطب کرتا۔ نوے کے عشرے میں میںنے پی ٹی سی ایل کے چیئر مین میاں جاوید سے کہا تھا کہ مجھے اپنے گائوں میں بوڑھی والدہ سے بات کرنا ہوتی ہے جس کے لئے اس وقت کے وزیرا عظم محمد خان جونیجو سے میںنے ایک وائر لیس ٹیلی فون کا کھمبا لگو ارکھا تھا مگر درجنوں کالیں کر نے کے باوجود اپنی ماں سے بات نہیں ہوپاتی۔ کچھ دنوں بعد پنجاب پی ٹی سی ایل کے جنرل مینجر نے مجھے بتا یا کہ قصور میں ٹیلی فون کے تو سیعی نظام کی منظوی مل گئی ہے۔ کیل کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ جدید تریں مشینری نصب ہو چکی ہے مگر بلدیہ کے چیئر مین جن کا نام میں ظاہر نہیں کرناچاہتا کہ وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ بارہ لاکھ کیش کا چیک انہیں دیا جائے تو وہ سڑکوں کی کھدائی کی اجازت دیں گے۔ میں سٹپٹا کر رہ گیا کہ یہ کیا بات ہوئی ۔ عوامی فلاح اور بھلائی کا کام اور اس کے لئے سرکاری ادارے سے رشوت کا مطالبہ ۔ میں ان دنوں نوائے وقت کا ڈپٹی ایڈیٹر تھا۔ اداریہ نویسی میرے فرائض میں شامل تھی۔ سات سطری ایک چھوٹا سا ادارتی نوٹ لکھاا ور قصورو بلدیہ کے لاڈلے مطالبے پر احتجاج کیا۔ میرا خیال تھا کہ اخبار تو کوئی پڑھتا نہیں بس دل کا غبار نکال لیا ہے مگر اگلی صبح میں سو کر اٹھا نہیں تھا کہ پنجاب کے اسی جنرل مینجر کی کال نے مجھے جگا دیا ۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ بلدیہ کے چیئر مین کوکیا سنگھایا ہے ۔ وہ فون پہ فون کر رہے ہیں کہ جون کا مہینہ شروع ہو نے والا ہے، آپ جلدی کر کے اپنی تاریں بچھائیں تاکہ اسی سال کے بجٹ سے سڑکوں کی مرمت کا کام کر سکیں۔ تو سات سطری تحریر تیر بہدف ثابت ہوئی مگر آج کون ہے جو بابا کمال چشتی ؒ کے مزار کے قدموں میں کچرے اور غلاظت کے انبار لگا رہا ہے اورا سے یہ شوق کیوں چڑھا ہے۔
کوئی دس پندرہ د ن پہلے قصور کے دیہات سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے اس سنگین مسئلے کو سوشل میڈیا پر اٹھایا۔ یہ سب نو عمر ہیں نوجوان ہیں ان کے جذبے دیکھنے والے ہیں وہ پہاڑوں سے ٹکرانے کی تڑپ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک مچھر نے نمرود کا دماغ چکرا کر رکھ دیا تھا ۔ وہ کہتے ہیں کہ ابا بیلوںنے ہاتھیوں کے لشکر کو مار بھگایا تھا اورچڑیوںمیں اتحاد ہو جائے تو وہ شیر کی کھال ادھیڑ کر رکھ دیتی ہیں۔
مگر میں جدو جہد کروں تو کس کے خلاف۔یہ شخص بے چہرہ ہے بے نام ہے ، وہ ریاست کی طاقت کا نقاب اوڑھے چھپا ہوا ہے مگر اسے معلوم نہیں کہ ریاست توعوام کا نام ہے۔ عوام نہ ہوں تو ریاست وجود میں نہیں آ سکتی۔ اور اسے جان لینا چاہئے کہ قصور کے نوجوان صحافی اٹھ کھڑے ہیں، سول سوسائٹی وکیل دانش ور۔ مزدور کسان سب ان کے شانہ بشانہ ہیں۔ یہ ریاست کی اصل طاقت ہے۔ بیورو کریسی جسے برادرم ڈاکٹر اجمل نیازی ہمیشہ برا کریسی لکھتے رہے کہ اس کے ہاتھوں کبھی کوئی نیکی بھول کربھی نہیں ہو تی۔ یہ برا کریسی ریاست کی طاقت نہیں۔ یہ ریاست کی طاقت کا غلط استعمال کر نے پر قادر ہے۔ قصور کی ننھی زینب پر قیامت ٹوٹی توسارا شہر سڑکوںپر ابل پڑاا ور برا کریسی نے گولی چلا کر چند لوگ موت کی نیند سلا دیئے ، ان کاا حتساب نہیں ہوا ۔ شہباز شریف کے دور میں احتساب کیسے ہوتا۔
اسن کی ناک کے نیچے ماڈل ٹائون میں درجنوں لوگوں کو شہید کر دیا گیا، قاتلوں کا کچھ نہیں بگڑ سکا، قصور کے صحافی کسی کا کچھ بگاڑنانہیں چاہتے لیکن کسی کو یہ اجازت بھی نہیں دیں گے کہ وہ ہماری ناک میں دم کر دے۔ ہمارے علاقے کے ماحول کو غلاظت سے بھر دے۔قصور کے دیہاتیوںنے پچیس تیس برس تک ٹینریز کے زہریلے پانی کوبرداشت کیا۔ اب ایک نئی قیامت کا سامنا ہے۔ کوئی بات نہیں۔ نئی نسل نئے جذبوں اور امنگوں سے سرشار ہے وہ اس محاذ کو بھی سر کرے گی اور قصور کی سر پھری انتظامیہ کو غلاظت کے ڈھیر بابا کمال چشتی ؒکے قدموں سے ہٹانے پر مجبور کرے گی ۔
کیا یہ سنگین مسئلہ حکومت پنجاب اور حکومت پاکستان حل کرسکتی ہے یا اسے اقوام متحدہ کے ماحولیات کے ادارے میں لے جانے کی ضرورت پڑے گی۔