ایران سے بھارت کا دیس نکالا
ملکوں کی دوستی اپنے مفادات کے تابع ہوتی ہے اور یہی ہر ملک کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔ اس اصول کی روشنی میں ایران نے بھارت سے پینگیں بڑھائیں ۔ سٹرٹیجک اور تجارتی معاہدے کیے۔ پاکستان کو بائی پاس کر کے بھارت کو افغانستان ، وسطی ایشیائ، روس اور مشرقی یورپ تک رسائی دینے کیلئے اپنی بندرگاہ چاہ بہار میں سرمایہ کاری کی سہولت دی۔ چاہ بہار سے زاہدان تک ریلوے لائن بچھانے کا معاہدہ کیا۔ ایران کی سرزمین سے پاکستان کیخلاف بھارت کی دہشت گردانہ وارداتوں کی جانب سے آنکھیں بند رکھیں۔ پاکستان کی جانب سے خدشات، تشویش اور تحفظات کو نظر انداز کیا گیا۔ امریکی پابندیوں کے باوجود روس ، چین اور بھارت کو ایران سے تیل کی خریداری کی سہولت حاصل رہی۔ اس کے باوجود پاکستان سے ایران کیلئے مسلسل خیر سگالی کا اظہار کیا جاتا رہا۔ بھارت بالخصوص مودی سرکار نے ایران سے جو راہ و رسم بڑھائی یہ بھی اپنے مفاد کے تابع حکمت عملی تھی ۔ ایک تو ایران سے تیل کا حصول ، دوسرے پاکستان کو نقصان پہنچانے بالخصوص سی پیک میں روڑے اٹکانے اور گوادر کے مقابلے میں اپنے تجارتی مقاصد کیلئے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کو استعمال کرنا جس کے اہم مقاصد تھے۔ بھارت کے یہ مفادات اپنی جگہ لیکن وہ امریکی چنگل میں بھی جکڑا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے ایران سے سٹرٹیجک معاہدے کے باوجود بھارت نے 2005میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی میں امریکہ کے ایما پر ایران کے خلا ف ووٹ دیا جس سے ایران کے خلاف عالمی پابندیوں کی راہ ہموار ہوئی اور ایران شدید معاشی وتجارتی مشکلات کا شکار ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں بھارت اور ایران کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہونے چاہئیں تھے مگر حیرت انگیز طورپر دونوں کے تعلقات معمول پر رہے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ نے نہایت ہوشیاری سے بھارت کو ایران سے تیل حاصل کرنے کی اجازت دے دی اور اس طرح ایران ، بھارت کے خلاف کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر سکا۔ پھر چاہ بہار اور ریلوے لائن کے منصوبوں میں اربوں کی سرمایہ کاری نے تو بھارت اور ایران کو انتہائی قریب کر دیا اور برادر اسلامی ملک پاکستان ترجیح ثانی کی صف میں چلا گیا۔ بہر حال عالمی پابندیوں کے منفی اثرات سے ایران شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہوا۔ کساد بازاری کی یہ حالت کہ کرنسی کی قیمت آدھی سے بھی کم رہ گئی ۔ گرانی کے باعث شہری شدید مسائل میں گھر گئے۔ ان حالات میں بھارت مدد کی بجائے امریکہ کی گود میں بیٹھا رہا۔ اس صورتحال میں چین کی دور اندیش قیادت نے ایران سے خاموش رابطے کیے۔ امریکی رویے اور داخلی مشکلات میں ایران کو چین کی چھتری تلے ہی عافیت نظر آئی اور چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نے جس کے چھ سو ارب ڈالر تک بڑھنے کے امکانات ہیں، ایران کیلئے آسانی پیدا کر دی کہ وہ بھارت کو دیس نکالا دے ۔ دیکھا جائے تو بھارت کو ایران سے ہی نہیں پورے خطے سے دیس نکالا مل گیا ہے۔ حال ہی میں چین نے خطے کے ممالک کا اجلاس بلایا جس میں پاکستان، بنگلہ دیش ، نیپال، بھوٹان، سری لنکااور مالدیپ شریک ہیں۔ اس اجلا س میں بھارت کی غیر حاضری کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ اس طرح دیکھا جائے تو یہ بھارت کا سارک سے بھی عملاً دیس نکالا ہے۔
پاکستان میں بعض حلقے فکر مندی کا اظہار کر رہے ہیں کہ چین نے پاکستان میں صرف 60 ار ب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جبکہ ایران میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بادی النظر میں پاکستان کے مقابلے میں ایران کو زیادہ اہمیت دینے والی بات ہے لیکن گہرائی میں جایا جائے تو پاکستان کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ اپنی وسیع سرمایہ کاری کے ذریعہ چین نے ایران کے ذریعے گوادر پر بھارت اور امریکہ کا دباؤ کم کیا ہے دوسرے اس کے بدلے چین ایران سے سستا تیل حاصل کرے گا ۔ تیسرے چاہ بہار کو ذیلی بندر گاہ کے طور پر بروئے کار لایا جا سکے گا۔ ایران سے چین کا معاہدہ 25 سال کا ہے ۔ پاکستان سے دائمی معاہدہ ہے۔ چاہ بہار کسی صورت بھی گوادر کا متبادل نہیں بن سکتی۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر)عاصم باجوہ کی سربراہی میں گوادر ڈوپلمنٹ اتھارٹی جس برق رفتاری سے سی پیک منصوبے مکمل کر رہی ہے اس کے نتیجے میں پاکستان 25 سال میں صرف گوادر سے ہی 600 ارب ڈالر سے زیادہ حاصل کر سکے گا۔ اس سمیت پاکستان کو یہ فائدہ ہوگیا ہے کہ بھارت کو ایران کی جانب سے بلوچستان میں دہشت گردی کا موقع نہیں مل سکے گا۔ افغانستان میں طالبان کے غلبہ نے مغربی سرحد کو کافی حد تک محفوظ کر دیا ہے۔ چین ایران کے ساتھ افغانستان میں بھی بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کے نتیجے میں بھارت اور امریکہ کے افغانستان سے بھی پاؤں اکھڑ جائیں گے اور اس طرح خیبر پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کی بھارتی کوششوں کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا جس سے سی پیک منصوبے کو بھی تحفظ حاصل ہوگا۔
ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت کے آتے ہی اس کے بعض عہدیداروں کے سی پیک منصوبوں کا از سرنوجائزہ لینے اور آڈٹ کرانے جیسے بیانات نے یہاں مصروف کار چینی کمپنیوں اور حکومت میں اضطراب پیدا کیا۔ حکومت میں شامل بعض امریکہ نواز افراد کے باعث جس میں خود امریکی دباؤ بھی شامل ہے، سست روی کا مظاہرہ کیا۔ دو سال میں کام اتنا آگے نہیں بڑھ سکا جتنا ہونا چاہیے تھا چنانچہ قومی سلامتی کے ادارے نے اپنا کردار ادا کیا اور گوادر ڈوپلمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا اور جنرل عاصم باجوہ کی سربراہی میں تیزی سے کام شروع ہوا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے جن عہدیداروں نے متذکرہ بالا بیانات دیئے ان کا مقصد غالباً یہ تاثر دینا تھا کہ ن لیگ کی حکومت نے ان منصوبوں میں کرپشن کی ہے۔ سیاسی مخالفین کو رگڑنے کے جنون میں وہ یہ اندازہ نہ کر سکے کہ اس سے چین پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔ یہ اثرات مرتب ہوئے جن کا مشاہدہ پاکستان میں چین کے سفیر کی کراچی چیمبر آف کامرس میں خطاب کے آئینہ میں کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ان منفی اثرات کو ختم کرنے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چین کے دورے کر کے اہم کردار ادا کیا۔
چین معاہدہ کے تحت ایران میں تیل اور گیس کی صنعت میں 280 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جبکہ تیل اور گیس کی نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچہ میں ترقی کیلئے 20 ارب ڈالر خرچ کرے گا۔ اسی طرح ایران میں 5 جی ٹیکنالوجی کی ترقی میںایران کو مدد دے گا۔ کوئی حکمران جو غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہو، بہت مشکل ہے وہ متحارب قوتوں سے یکساں تعلقات استوار کر سکے اور نریندر مودی تو واجبی سی ذہانت کا مالک ہے جس نے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو بھڑکاکر بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جنگل اگا کر اور انتہا پسند ہندوؤں کی حمایت حاصل کر کے اقتدار کی منزل پر پہنچا ہے۔ یہ مودی کی بے بصیرتی کا عریاں مظاہرہ ہے ۔ وہ ایران ، اسرائیل اور امریکہ سے بیک وقت فوائد سمیٹنے کے چکر میں تھا مگر اسکی چالاکی زیادہ دیر ساتھ نہ دے سکی اور بالخصوص امریکی منصوبے کے تحت چین کیخلاف میدان میں اترنا پڑا اور عبرت ناک شکست سے دو چار ہونا پڑا۔