• news

’’بائبلؔ اور میرے خواب ؔمیں ججوں ؔکی حکومت!‘‘

معزز قارئین! اُن دِنوں جسٹس ثاقب نثار صاحب چیف جسٹس آف پاکستان تھے جب سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان نے 28 جولائی 2017ء کو آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت صادق اور امین نہ (ہونے) پر وزیراعظم میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے دِیا تھا۔
’’ججوں کی حکومت!‘‘
اُس سے پہلے 23 جولائی 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ مملکت خدادادِ پاکستان میں ججوں کی حکومت؟‘‘ ۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’Bible‘‘ کے عہد نامہ عتیق (Old Testament) میں ایک باب ہے۔ ’’Book of Judges‘‘ (قاضیوں کی کتاب) لِکھا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد ’’Joshua‘‘ (حضرت یوشعؑ) سے لے کر ’’Samuel‘‘ (حضرت سموئل ؑ) تک تقریباً چار سو سال تک بنی اسرائیل پر ججوں ( قبائلی بزرگوں ) کی حکومت رہی۔ اُس دَور میں ججوں کے سِوا بنی اسرائیل کا کوئی بادشاہ یا حکمران نہیں تھا۔ 2234 قبل از مسیح بنی اسرائیل نے خواہش کی کہ ’’ قُرب و جوار کی دیگر اقوام کی طرح وہ بھی کسی بادشاہ کے تابع فرمان بن کر رہیں۔ خُدا نے اُن کی یہ آرزو پوری کردِی۔ (جج اور نبی حضرت سموئل ؑنے بِن یامین ؑکی اولاد میں سے ’’Saul‘‘ (حضرت سائول ؑ) کو بادشاہ مقرر کردِیا۔ اُن کے بعد حضرت دائود ؑ۔ حضرت سلیمانؑ اور دوسرے بادشاہ تھے‘‘۔
"Judiciary and Media"
وزیراعظم میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دئیے جانے کے فیصلے پر 30 جولائی 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ سلام! ’’عدالتی انقلاب‘‘ تو شروع ہوگیا؟‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ میرے پیارے پاکستان میں ریاست کے چار "Pillers" (ستون)ہیں ۔"’’Legislature‘‘ ( پارلیمنٹ) ’’Executive‘‘ (حکومت) اور ’’Judiciary‘‘ ( جج صاحبان) اور ’’Media‘‘ ( اخبارات اور نشریاتی ادارے) ہیںلیکن، عرصہ دراز سے صرف "Judiciary" اور Media" "ہی ریاست پاکستان کے خیر خواہ ستون ہیں ۔ اگر کوئی "Legislature" اور "Executive" عوام کی بھلائی پر توجہ دیتی تو آج ہمارے 60 فی صد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی کیوں بسر کر رہے ہوتے؟
عدالتی انقلاب کے بعد مَیں نے خواب دیکھا کہ اور بیان کِیا کہ ’’ کیوں نہ پاکستان کے بھوکے ، ننگے اور بے گھر لوگ اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگیں کہ ’’یا رب اُلعالمِین ! مملکت خدا دادِ پاکستان میں ججوں کی حکومت قائم کردے !‘‘۔28 جولائی 2017ء کو ،سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل اور اُن کے اہلِ خاندان کے خلاف نیب کو مقدمات چلانے کی ہدایت سے پتہ چلا کہ ’’ پیارے پاکستان میں ججوں کی حکومت تو نہیں ؟ لیکن بڑی آہستگی سے ’’Judicial Revolution ‘‘ (عدالتی انقلاب ) شروع ہوگیا ہے۔
کیوں نہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور پنج تن پاک ؑکا بھی جن کی شفقت سے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچ جج صاحبان ’’عدالتی انقلاب ‘‘ کے بانِیانِ بن گئے ہیں۔ یقین کیا جانا چاہیے کہ اب ’’عدالتی انقلاب ‘‘ جاری رہے گا ۔ پاکستان میں قومی دولت لوٹنے والا صِرف شریف خاندان ہی نہیں بلکہ آصف زرداری اور اُس قبیل کے اور بھی کئی گروپ ہیں۔ اب عدالتی انقلاب کا ’’Law Roller‘‘ تیز رفتاری سے چلے گا اِنشاء اللہ! ‘‘۔
’’عدالتی انقلاب جاری!‘‘
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے بعد 18 جنوری 2019ء سے 20 دسمبر 2019ء تک جسٹس آصف سعید خان کھوسہ چیف جسٹس رہے اور اُن کے بعد 21 دسمبر 2019ء سے جسٹس گلزار احمد صاحب چیف جسٹس ہیں۔ سپریم کورٹ کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق جسٹس گلزار احمد صاحب یکم فروری 2022ء تک اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔ گویا 28 جولائی 2017ء کو شروع ہونے والا ’’ عدالتی انقلاب‘‘ ابھی تک جاری ہے لیکن، پاکستان کے جن "Influential People" کے خلاف یہ انقلاب شروع ہُوا تھا تو اُسی وقت سے "Counter Revolution" ( ردّ اِنقلاب) کے لئے (عوام دشمن لوگ ) اپنی اپنی ’’ کوششیں‘‘ جاری رکھے ہُوئے ہیں ؟
"Good and Bad Dictators!"
معزز قارئین!اُن دِنوں میاں نواز شریف وزیراعظم تھے جب 6 فروری 2015ء کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر جنابِ عمران خان کا یہ بیان شائع ہُوا کہ ’’ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ملک میں جعلی جمہوریت اور جعلی آمریت رہی ، اگر کوئی "Good Dictator" (اچھا آمر ) ہی مل جاتا تو ملک ترقی کرسکتا تھا ! ‘‘۔ 8 فروری کو مَیں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ’’ پاکستان سمیت دُنیا بھر میں ہر سال 15 ستمبر کو ’’یوم جمہوریت ‘‘(Democracy Day) منایا جاتا ہے لیکن افسوس کہ ’’ پاکستان میں کسی اچھے فوجی آمر کی رُخصتی پر اُس کی یاد میں ’’ یوم آمریت‘‘ (Dictatorship Day) نہیں منایا گیا؟
’’دھکاّ سٹارٹ جمہوریت!‘‘
معزز قارئین! حقیقت تو یہ ہے کہ’’ صدر پرویز مشرف کے بعد صدر آصف زرداری ، وزیراعظم نواز شریف اور پھر وزیراعظم عمران خان کے بعد ’’ دھکاّ سٹارٹ جمہوریت‘‘ ہی ہمارے سر پر سوار رہی اور فوج اُس کی سہولت کار لیکن، اِس کے باوجود ریاست ِ پاکستان کے دو ستون "Judiciary" ( جج صاحبان ) اور"Media" ( اخبارات اور نشریاتی ادارے ) ہی عوام کے خیر خواہ ہیں ۔ چیف جسٹس آف پاکستان ، جسٹس گلزار احمد صاحب اور اُن کے ساتھی جج صاحبان کے تازہ ترین بیانات سے مَیں تو یہ خواب دیکھ رہا ہُوں کہ ’’ کہیں پاکستان میں ’’ ججوں کی حکومت ہی ‘‘ مفلوک اُلحال عوام کے مسائل کا حل تو نہیں ؟

ای پیپر-دی نیشن