آخر اتنی بے بسی کیوں؟
کرونا وائرس نے کرہ ارض کے تمام ممالک کی طرح ارض وطن کو بھی خوف دہشت اور بھوک ننگ سے بے حال کر رکھا ہے وہ حقیقت تو اپنی جگہ موجود ہے مگر اس قسم کی غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی فضائوں میں ایسی تبدیلیاں میں رونما ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ جن کے نتیجے میں ملک کے کروڑوں خاندانوں کے جسم اور روح کا رشتہ بحال رکھنے کے راستے اگر بند نہیں تو محدود ضرور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سرکاری اور درباری حلقوں کی طرف سے مختلف حوالوں سے جس تبدیلی کی گردان آئے دن سننے میں آتی رہتی ہے وہ ملک کے غریب و زندگی کی سہولتوں سے محروم کروڑوں خاندانوں کے لئے روح فرسا اور جان لیوا ثابت گی۔ ان تبدیلیوں کے در آنے اور قدم جما لینے کے نتیجے میں کسی بھی تبدیلی کے دعوے اور نعرے محض سراب نہ ثابت ہوں گے۔ اس پاکستان کے لئے اور اس کے لوگوں کے لئے اس سے بڑی اذیت ناک تبدیلی اور کیا ہو سکتی ہے کہ پاکستان مانا ہوا ایک زرعی ملک ہے۔ ایسا زرعی ملک جو اپنی اجناس کی پیداوار کی مناسبت سے اقوام عالم کی نظر میں سونے کی چڑیا کہلاتا تھا۔ عصر حاضر کی کرامات کے نتیجے میں عوام اس زرعی ملک میں اس تبدیلی پردل مسوس کر رہ گئے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کے لئے اناج نایاب ہو رہا ہے۔ آٹا نام کی چیز عام آدمی کی قوت خرید سے باہر جا رہی ہے بلکہ چلی گئی ہے۔ چینی کی بلاجواز گرانی نے سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ پٹرول مہنگا ہونے سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ یقینی امر ہوتا ہے جو ہوا۔ اس کے ساتھ ہی ضروریات زندگی اور دیگر سامان کی مال برداری کے کرایوں کے بڑھنے کا اندازہ لگانا بھی کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ اس کے اثرات مثبت نہیں معاشرے کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔
عوام کی اکثریت ششدر و حیران ماحول میں مستقبل کے بارے میں ان گنت وسوسوں کا شکار ہے۔ جبکہ تازہ ترین تبدیلی کی یہ نوید بھی کروڑوں غریب و مفلس خاندانوں اور دیگر لا تعداد مریضوں کے لئے بجلی بن کر گری ہے کہ ارباب اختیار نے بڑے آرام سے دوا ساز کمپنیوں کو ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت دے دی ہے۔ جس ملک میں ایوان اقتدار کی سب سے بڑی کرسی پر ممکن قیادت کی طرف سے کسی بھی چیز کی عدم دستیابی کا نوٹس لینے کی خبر پر اس چیز کی ریکارڈ توڑ مہنگائی ہونے کی صورت میں نتیجہ منظر عام پر آئے اگر اس عہد حکومت کی رٹ کے حوالے سے کوئی سوال اٹھایا جائے گا تو ہو سکتا ہے کہ طبع نازک پر گراں گزرے مگر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ معاملات کو قابو میں رکھنے میں ارباب حکومت کی گرفت نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ عوام کو ایسے معاملات میں ریلیف ایسی چیز دینے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ حالات جس نہج پر جا رہے ہیں۔ اس کا اندازہ ان حقیقتوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو زبان زد عام ہو رہی ہیں۔ چینی ، آٹا، ادویات ، پٹرول اور دیگر ضروریات زندگی کی ہوشربا گردانی کی عدم دستیابی پر پریشان حال عوام کو تو سوچنے کا موقع ہی نہیں مل سکتا۔ معاملات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ عدالت عظمیٰ نے بھی ان کی نشاندہی دو ٹوک الفاظ ہیں کرنا ضروری سمجھ لیا ہے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ میرا رونا نہیں ہے یہ رونا ہے سارے گلستان کا۔ خیبر پختونخواہ میں موجودہ بر سر اقتدار سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف دوسری مرتبہ باری لے رہی ہے اور حالت یوں ہے کہ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ملازمین کا کوئی مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی طرف سے ریمارکس کسی بھی ایسی سیاسی جماعت کے لئے لمحہ فکریہ ہیں جو کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے نعروں اور عزائم کو لے کر اقتدار میں آئی ہو۔ چیف جسٹس کے ریمارکس ہیں کہ خیبر پختونخواہ کا ورکرز ویلفیئر بورڈ کرپٹ ترین ادارہ ہے۔ اس کی بھرتیوں میں وزراء کا کیا کام؟ ورکرز ویلفیئر بورڈ پختونخواہ کے افسروں کو شرم نہیں آتی۔ کوئی ملازم بھی قانون کے مطابق بھرتی نہیں کیا گیا۔ لگتا ہے کہ سارا خیبر پختونخواہ سرکاری ملازمت ہی کرتا ہے۔ اب ذرا وفاقی سطح پر ارباب حکومت کی کارکردگی ملاحظہ فرمائیں جو کچھ یوں ہے کہ قومی اسمبلی کے ایوان میں حکومت کی طرف سے ایک ذمہ دار اور انتہائی صاف ستھرے خیالات کے منجھے ہوئے سیاستدان فخر امام اس حقیقت پر تعزیتی بیان دیتے ہوتے دکھائے گئے کہ پنجاب کے لئے اتنی مقدار میں گندم خریدی گئی مگر معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ گندم کہاں گئی۔ درحقیقت یہ ایک طرح کا نوحہ تھا کہ پنجاب وغیرہ میں گندم کی کمیابی اور آٹے کی ہوشربا گرانی و عدم دستیابی پر عوام کی زبان سے ایوان میں سنا گیا کہ اتنی تعداد میں گندم درآمد کی جا رہی ہے۔ گورننس کی اس سے بدتر صورتحال اور کیا ہو گی۔
چینی، آٹا، پٹرول اور ادویات کی گرانی کو اگر تبدیلی سے تعبیر کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہو گا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سرکار عالی مدار کے صف اول کے ترجمان تواتر سے گردان کئے جا رہے ہیں کہ چینی، آٹا وغیرہ کے حوالے سے مافیا کی رپورٹ شائع کر دی ہے۔ کارروائی کرنا متعلقہ اداروں کا کام ہے۔
اس صورتحال میں عوام صبر کا گھونٹ پیئے ہوئے کسی نجات دہندہ کیلئے دست دعا دراز کرنے کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں۔ عوام تو بے بس ہیں ۔ آخر بر سر اقتدار قیادت مافیا پر قابو نہ پانے میں اتنی بے بس اور کمزور کیوں ہے؟