• news
  • image

ایران اور چین ’’ تذویراتی شراکت ‘‘ کامعاہدہ

تذویراتی اہمیت کے حامل منصوبے: مثلا‘جبوتی بیس (Djibouti Base)‘ گوادر پورٹ‘ خلیج فارس میں واقع قشم کا جزیرہ‘ آبادانکے نزدیک ماکو کا آزاد تجارتی علاقہ؛ گوادر اورچاہ بہار کی بندرگاہیں؛ چاہ بہار سے350 کلومیٹر کے فاصلے پر بندر جسک اور وہاںکے آزاد تجارتی علاقے کی سہولتیں چین کو حاصل ہوں گی جو مغربی دنیا اور امریکی اقتصادی مفادات کیلئے براہ راست چیلنج ہوں گے۔
ان بدلتے ہوئے تذویراتی ماحول کے پس پردہ کرشماتی حقیقت (Magical Realism) کی تشریح بھی واضح ہوگی اور نئے عالمی نظام کے خدوخال بھی نمایاں ہوںگے جیسا کہ یہ دانشمندانہ تحقیق بتاتی ہے:
ـ’’ایران کی گردن پر سے امریکہ کا گھٹنا ہٹ چکا ہے۔‘‘ ’’عالمی سوچ اور طاقت کے توازن میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔‘‘’’بلند ترین تعلیمی شرح رکھنے کے باوجود امریکہ تعلیم اورعا م فہم کے اوصاف سے عاری نظر آتا ہے۔‘‘’’چین‘ پاکستان‘ افغانستان‘ ایران اور وسطی ایشیاء پر مشتمل ایک نیا تذویراتی اقتصادی نظام قائم ہونے جارہا ہے جو روس کیلئے بڑا اہم ہے کہ وہ بھی اس میں شامل ہوجائے تاکہ اس کیلئے بحرعرب کے گرم پانیوں تک پہنچنا آسان ہو جائے۔‘‘ ’’یہ تمام صورتحال پاکستان کیلئے حوصلہ افزا ہے۔‘‘
امریکہ اور بھارت کو عنقریب افغانستان میں شرمناک ہزیمت اٹھانا پڑے گی کیونکہ اب افغانستان کا اسلامی امارت بننا ایک حقیقت ہے جوامریکہ کوسخت ناپسند ہے۔1989سے لیکر اب تک امریکہ افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتا رہا ہے اور حال ہی میں جب افغانستان سے نکلنے کے معاہدے پر دستخط کئے گئے تو ’’امریکہ‘ افغانستان میں اسلامی امارت کے قیام کو قبول نہیں کرتا‘‘ جیسے الفاظ بارہ مرتبہ دہرائے گئے۔اس معاہدے پر کسی امریکی حکومت کے نمائندے کے دستخط بھی نہیں ہیں۔ اس قسم کے جابرانہ رویے سے امریکہ کی ناقص سفارتی سوچ کا اظہار ہوتا ہے جو ایک عظیم طاقت کے شایان شان نہیں ہے۔ افغانستان میں رونما ہونے والے واقعات سے کشمیر میں جاری تحریک آزادی میںنیا ولولہ پیدا ہو گا جیسا کہ 1990میں روسی انخلاء کے بعد افغانستان میں پیدا ہوا تھااور یہ تحریک جہادی تحریک میں بدل جائیگی جس سے بھارت کے سامنے صرف دو راستے ہوں گے کہ وہ یاتو کشمیر سے نکل جائے یا پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دے۔ ان حالات میں پاکستان کیلئے سنہری مواقع بھی ہیں اور خطرات بھی ہیں‘ مثلا: پاکستان کو چاہیئے کہ بدلتے ہوئے حالات کو موقع غنیمت سمجھے اورا ایران اور افغانستان کے ساتھ ہر سطح پراپنے روابط کو مستحکم کرے۔ ایران تا پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ سڑک اور ریلوے لائن کے رابطے قائم کرے۔کوئٹہ سے زاہدان ریلو ے کے نظام کو بہتر بنائے۔ کوئٹہ اور پشاور سے اندرون افغانستان سڑک اور ریلوئے لائن کو توسیع دے۔امریکہ اور اسکے ایشیا پیسیفک کے اتحادی‘ پاکستان کے تذویراتی مفادات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کرینگے جس کے سدباب کیلئے حکمت عملی مرتب کرناضروری ہے۔
ایران اور چین کے مابین ہونیوالے اس معاہدے نے ایک سیاسی و تذویراتی طوفان کھڑا کردیا ہے جو نئے عالمی نظام کے خدوخال واضح کرتاہے اور اقتصادی و معاشرتی ترقی کیلئے باہمی اعتماد کی اہمیت بھی اجاگر کرتا ہے۔ چین مالی نظام کے قیام کے حوالے سے امریکہ کوشکست دینے میں کامیاب ہوا ہے۔ یہ امریکہ اور اسکے ’’زیادہ سے زیادہ دبائو‘‘ کی پالیسی کی تذویراتی شکست ہے جو اچھائی کو برائی پر فوقیت دلائے گی۔ متحارب طاقتوں کے درمیان تصادم کی منطق بڑی واضح ہے: ’’چین دنیا کا واحد ملک ہے جس نے حالیہ دہائیوں میں تصادم اور جبر واستبداد کی راہ اپنائے بغیر دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت ہونے کا مقام حاصل کیا ہے جبکہ امریکہ نے عراق‘ لیبیا‘ شام‘ یمن‘ صومالیہ‘ افغانستان اور دیگر متعددمسلم ممالک کیخلاف غیر مصنفانہ جنگیں لڑیں جس پر چھ ٹریلین امریکی ڈالر خرچ ہوئے ، آٹھ لاکھ سے زیادہ لوگ قتل ہوئے اور کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔اب ظلم و استبداد کے بادل چھٹنے شروع ہوئے ہیں‘ ایک نئی صبح طلوع ہو رہی ہے۔‘‘ الحمد اللہ۔ (ختم شد)

epaper

ای پیپر-دی نیشن