• news
  • image

عدلیہ کی رہنمائی اور پارلیمنٹ کی سفارشات سے نیب کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے؟

30دن میں فیصلہ ممکن نہیں، احتساب عدالتیں ناکافی ہیں، چیئرمین نیب کا سپریم کورٹ میں جواب داخل
قومی احتساب بیورو نیب نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ نیب قانون کی شق 16 کے تحت بدعنوانی کے مقدمات کا 30 دن میں فیصلہ ممکن نہیں ہے اور ایسے کرپشن کے مقدمات میں پچاس پچاس گواہ بنانا قانونی مجبوری ہے ، چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ موجودہ احتساب عدالتیں مقدمات کا بوجھ اُٹھانے کیلئے ناکافی ہیں ، حکومت کو کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ نیب عدالتوں کی تعداد بڑھائی جائے ، متعدد بار حکومت کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مقدمات کے بوجھ کی وجہ سے ٹرائل میں تاخیر ہو رہی ہے۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ لاہور کراچی راولپنڈی اسلام آباد اور بلوچستان میں اضافی عدالتوں کی ضرورت ہے کیونکہ ہر احتساب عدالت اوسطاً 50 مقدمات سن رہی ہے۔ 120 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز دستیاب نہیں ہیں تو ریٹائر جج بھی تعینات ہو سکتے ہیں۔ چیئرمین نیب نے مزید کہا ہے کہ احتساب عدالتوں کے خلاف اپیلیں سُننے کے لئے بھی ریٹائرڈ ججز کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں وزارت قانون و انصاف نے 120 احتساب عدالتوں کے قیام سے متعلق اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ جس میں کہا گیا کہ نئی عدالتوں کے قیام میں مالی مسائل کا سامنا ہے۔ عدالتوں کے قیام کے بعد 2 ارب 86 کروڑ روپے کے بجٹ کی ضرورت ہو گی جس کے لئے مشاورت کا عمل شروع کر دیا ہے۔
پاکستان میں نیب احتساب کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور اسے طاقتور بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی کارکردگی کی کہیں تحسین ہوتی ہے اور کہیں شدید تنقید اور اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے تو کئی بار برہمی کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ نیب کے پاس لاکھوں کروڑوں سے لے کر اربوں کھربوں کی کرپشن کے کیسز ہیں۔ اربوں کھربوں کے جن کے خلاف کیسز ہونگے وہ معمولی لوگ نہیں ہو سکتے۔ وہ اپنے خلاف کیسز ختم کرانے سزا سے بچنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں ، ان کے لیے نیب کا وجود زہرِ قاتل نہیں تو کیا تسکین آمیز ہو گا؟۔ نیب کی کارکردگی پر بات کی جا سکتی ہے آخر مقدمات کے فیصلے دہائیوں میں کیوں ہوتے ہیں اور پھر ملزموں کے ساتھ جس قسم کا سلوک ہوتا ہے اسے کورٹس کی طرف سے بھی توہین آمیز کہا گیا ہے ، اساتذہ تک کو ان کے علم فضل اور عمر رسیدگی کے باوجود ہتھکڑیاں لگا دی گئیں ایسے اور بھی معاملات ہیں جن کے باعث نیب پر تنقید کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ مقدمات میں ماخوذ عناصر اپنے مقاصد کی بجاآوری کے لیے سوچے سمجھے منصوبے کے تخت نیب کے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہیں ، ان کو ملک کے بہترین وکلا کی خدمات بھی حاصل ہو جاتی ہیں اور میڈیا کے کچھ حصے بھی پروپیگنڈے میں ہمنوا بن جاتے ہیں جس سے نیب کے بارے میں کئی لوگوں کی منفی رائے کا تاثر قائم ہونا فطری امر ہے۔
نیب عدالتوں کے قیام کا ایک مقصد مقدمات کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ اس کے لئے تیس دن کی مدت مقرر کی گئی ہے آج جن مشکلات کا اظہار چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کر رہے ہیں ان کا ادراک نیب کی تشکیل کے دوران ذمہ داران کو ہونا چاہئے تھا۔چیئرمین کے بقول ملزمان کی متفرق درخواستیں اور اعلیٰ عدلیہ کے حکم امتناع بھی تاخیر کی وجہ ہیں۔ چیئرمین نیب نے مئوقف اپنایا ہے کہ عدالتیں ضمانت کیلئے سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں پر عمل نہیں کرتیں ، ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کا طریقہ کار بھی وقت طلب ہے ، عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ بیرون ممالک سے قانونی معاونت ملنے میں تاخیر بھی بروقت فیصلے نہ ہونے کی وجہ ہے۔
کچھ لوگوں نے ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹا، ان کے ہمالیہ جیسے اثاثے نظر آ رہے ہیں مگر آمدن سے زیادہ جائیدادوں کے بارے میں پوچھا جائے تو جواب میں جو کچھ کہا جاتا ہے وہ سب کو ازبر ہے۔ چوروں ، لٹیروں کے لئے کسی کے دل میں نرم گوشہ ہو ہی نہیں سکتا مگر جس پر چوری یا کرپشن کا الزام عائد ہو جائے وہ ثابت ہونے تک اسے چور ڈاکو قرار دینا قرین انصاف نہیں۔ عدلیہ بھی اسی پوائنٹ کو لے کر نیب پر برہمی کا اظہار کر چکی ہے۔ کرپٹ مافیاز کو ہر باشعور اور محب وطن شخص نشان عبرت بنتا دیکھنے کا متمنی ہے۔ عدلیہ بھی نیب کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے مگر مقدمات میں تاخیر پر تحفظات تو سامنے آئیں گے ہی۔ تاخیر کی جو بھی وجوہات ہوں یہ دہائیوں پر محیط کیسے ہو سکتی ہیں جبکہ قانون کے تحت فیصلہ ایک ماہ میں ہونا ہوتا ہے۔
چیئرمین نیب نے کہا ہے کہ رضاکارانہ رقم واپسی کا اختیار استعمال کرنے سے سپریم کورٹ روک چکی ہے لیکن اگر رضا کارانہ رقم واپسی کی اجازت ملے تو کئی کیسز عدالتوں تک ہی نہیں پہنچیں گے۔ رضاکارانہ واپسی سے کیس تو عدالتوں میں نہیں پہنچیں گے مگر یہ کرپٹ لوگوں کی حوصلہ مندی کا باعث ضرور بنیں گے۔ کیوں نہ کرپٹ ثابت ہونے پر قید کی سزائوں کے ساتھ جائیدادیں ضبط کر لی جائیں جس سے کرپشن کی کسی کے اندر سوچ ہی پیدا نہیں ہو گی۔
نیب قوانین میں بہتری آ سکتی ہے اس حوالے سے چیئرمین نیب نے سپریم کورٹ کے سامنے تجاویز رکھی ہیں اس کے ساتھ ساتھ شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں 24 رکنی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل دی گئی ہے جس کا پہلا اجلاس ہو چکا ہے۔ اس کی سفارشات کی روشنی میں نیب کی کارکردگی بہتر ہو سکے گی۔ سپریم کورٹ کی طرف سے 120 عدالتوں کے قیام کے فیصلے پر عمل ہوتا ہے تو مقدمات کے فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر کا ایک سبب ختم ہو جائے گا۔ بلاامتیاز احتساب اور کرپشن کا خاتمہ تحریک انصاف کے منشور کا حصہ ہے اور تحریک انصاف پر عوام نے اعتماد بھی اسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کیا تھا ۔ 120 عدالتوں کے قیام کی راہ بہرصورت ہموار کرنی چاہئے ۔ سالانہ 2 ارب 86 کروڑ روپے بہت بڑی رقم نہیں ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کے سامنے بھی یہ مشکل رکھی گئی تھی انہوں نے اس رقم کوچوزے کی خوراک کے برابر قراردیا تھا اور اتنی رقم تو ایک کیس سے نکل سکتی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن