میں چمن سے دور ہوں، تو بھی چمن سے دور ہے
سپریم کورٹ کی نگاہ میں نیب متنازعہ، احتساب یکطرفہ ہے۔ نیب آرڈیننس کا قانون جنرل پرویز مشرف کے دور میں احتساب ایکٹ 1997ء کو ختم کرکے بنایا گیا جو پہلے دن سے ہی متنازعہ ہے۔ مقصد وفاداریاں تبدیل کرانا، سیاسی جماعتیں توڑنا، مخالفین کا بازو مروڑنا اور انہیں سبق سکھانا، نیب کی ساکھ اور غیرجانبداری مجروح ہوچکی۔ مہذب معاشروں میں مجرم قرار دینے کے بعد سزا شروع ہوتی ہے۔ ٹرائل سے پہلے یا دوران سزا اذیت کا باعث ، گرفتاری کا اختیار ظلم اور ہراسانی کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ آئین میں انسانی احترام کا حق غیرمشروط کسی بھی حالات میں ختم یا کم نہیں کیا جاسکتا۔ عدالتوں کو ضمانت دیتے وقت فرد اور معاشرے کے حقوق میں توازن رکھنا ہوگا۔ احتساب کو سیاسی انجینئرنگ کیلئے استعمال کرنے کا تاثر ہے۔ عدالتی فیصلہ نیب کے کردار، کارکردگی اور ساکھ پر سوال اٹھا رہا ہے۔ نیب قانون کہتا ہے تفتیش جلد مکمل کی جائے مگر سالوں گزرنے کے باوجود فیصلے نہیں ہوتے۔ ریاستی ادارہ کتنا طاقتور کیوں نہ ہو، شہریوں کے حقوق کم نہیں کرسکتا۔ نیب ایک طرف ہی گرفتاریاں کرتا ہے، سیاسی تقسیم کے دوسری جانب لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ عوام کو آئینی حقوق نہیں مل رہے، جمہوری اقدار اور مساوات کے اصولوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، بلاجواز زیرحراست رکھنا سزا کے مترادف ہے۔ نیب کے طرزعمل سے قوم کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ دہری شہریت اور سرکاری مناسب پر بحث چل رہی ہے۔ سپریم کورٹ دہری شہریت کے حامل افراد کے تقرر کو سکیورٹی رسک قرار دے چکی ہے۔ وزیراعظم کے 15میں سے 7معاونین خصوصی دہری شہریت کے حامل ہیں۔ 2018ء میں سپریم کورٹ نے اس بارے میں پارلیمنٹ میں واضح قانون سازی کی ہدایت کی تھی۔ 20ماہ میں اس سمت میں کوئی پیشرفت نہ ہوئی، حکومتی استدلال ہے کہ دہری شہریت والا مشیر بن سکتا ہے۔ رکن پارلیمنٹ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعظم کی بغل میں مشیر بیٹھتا ہے یا عام رکن پارلیمنٹ؟
پاکستان کو کرپٹ ترین ملک کہا جاتا ہے کیونکہ جس محکمے، ادارے کی کتاب کھولیں کرپشن کے پوشیدہ اوراق سامنے آتے ہیں۔ آخر کب تک ہائے چینی، ہائے آٹا، ہائے پٹرول، ہائے بجلی، ہائے پانی ہوتی رہے گی۔ 2020ء میں گندم تاریخ کی بلندترین سطح 2 ہزار روپے میں فروخت ہوئی۔ پرائیویٹ سیکٹر کو گندم خریدنے نہیں دی گئی جبکہ 2019ء میں نجی شعبے کے پاس 16لاکھ ٹن گندم تھی۔ اس وقت 20کلو آٹا تھیلا 785روپے کا تھا جو 860کے سرکاری ریٹ کے برعکس 1100روپے میں فروخت ہوتا رہاہے۔ وزیراعظم نے حکم جاری کیا کہ سبسڈی کے پورے نظام کاتفصیلی جائزہ لیا جائے۔ چین سستے گھروں کیلئے بھی 10کروڑ دینے کو تیار ہے۔ سرکاری ریٹ مقرر ہوتے ہی چینی، آٹا مارکیٹ سے غائب، چینی کہیں بھی 70روپے کلو دستیاب نہیں۔ دکانداروں نے فروخت ہی بند کر دی۔ پنجاب کی کھلی منڈی میں گندم کی قیمتوں نے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ضلعی انتظامیہ کو ڈرائیونگ پر بٹھانے کا تجربہ خریداری مہم میں ناکام رہا۔ ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ سونا بھی فی تولہ 1600روپے مہنگا ہوگیا۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 168روپے 80پیسے کا ہوگیا۔ سونے کی فی تولہ قیمت ایک لاکھ 11ہزار 250روپے پر پہنچ گئی۔ ستمبر 2018ء سے اب تک 23مہینوں میں گندم کی قیمت میں 94اور چینی کے نرخوںمیں 69فیصد ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ 2009ء سے 2018ء تک ملک میں 386.8ملین میٹرک ٹن گندم زیادہ تھی۔ اس وقت قلت کو درآمد کرکے پورا کرنا پڑ رہا ہے۔ آڑھتیوں، ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں نے آٹے اور چینی کے بحران میں اضافی 200ارب کمائے، اب بھی ان سماج دشمنوں نے 5ملین میٹرک ٹن گندم کا ذخیرہ کر رکھا ہے۔ غریب کی روٹی مہنگی نہیں، ٹریفک وارڈنوں نے غیرضروری ٹریفک چالانوں کا بازار گرم کررکھا ہے۔ ٹریفک تمام قاعدوں ضابطوں سے آزاد ہے۔ وارڈنز کا کام ریونیو اکٹھا کرنا یا ٹریفک کی روانی بہتر بنانا ہے۔ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2025ء تک 4000ارب تک پہنچ جائے گا۔ پاکستان میں بجلی کی قیمت ویت نام، سری لنکا، بنگلہ دیش، ملائیشیا، بھارت، تھائی لینڈ اور جنوبی کوریا سے زیادہ ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 8لاکھ 20ہزار 165غیرمستحق افراد شامل کئے گئے۔ تاحال 2017ء میں ہونے والی آخری مردم شماری کے نتائج کی سرکاری طور پر توثیق نہیں ہوسکی۔ صرف 20فیصد آبادی 4کروڑ 68لاکھ بینک اکائونٹ رکھتی ہے۔ موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 18کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ڈیجیٹل انقلاب کے دروازے کھلتے جا رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کو نئے احتسابی نظام پر بات کرنا ہوگا۔ عدالتیں نیب قوانین میں خامیوں اور طریقہ کار پر سوالات اٹھاتی ہیں۔ حکومتی کنٹرول مافیاز نے سنبھال رکھا ہے، پسند اور ناپسند پر وزیروں اور مشیروں کو بھرتی کیا۔ 25کلو آٹے کا تھیلا دو ہفتوں میں 100روپے مہنگا کیسے ہوا؟ کھلا آٹا 75روپے کلو تک پہنچ گیا۔ لاہور کی یہ حالت ہے گھنٹوں بارش کے بعد آدھا لاہور ڈوب جاتا ہے۔ بجلی کا نظام درہم برہم اور ہر طرف ٹریفک جام ہوتی ہے۔ بات وزراء کی نہیں عوام کے اظہار اعتماد کی ہے جسے موقع ملے وہ دشمن پر ضرور جھپٹتا ہے۔ عوامی انسانی اور سیاسی رویوں کو بدلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ شہریوں کو مافیا اور لیڈروںکو نیب سے کیوں ڈر لگتا ہے۔ گورننس میں شفافیت کی تلاش میں 7 عشرے گزر گئے۔ کرپشن معاشرے میںر چ بس چکی ہے۔تنخواہیں نہ بڑھنے سے راشی پہلے سے زیادہ بے خوف ہوگئے ہیں۔ رشوت ہی اب انکریمنٹ کی جگہ لے گی۔ سزا کے بغیر کسی کی گرفتاری شخصی توہین، فرد اور خاندان کیلئے اذیت اوربدنامی کا باعث بنتی ہے۔ نیب کو حکومتی اثر سے آزاد اور ایک غیرجانبدار ریاستی ادارے کا درجہ دیا جائے۔ مہنگائی کا بازار ہر دور میں گرم رہا،حکومت کو زوال آیا، مہنگائی عروج پر رہی۔ مہنگائی ایسی حکمران ہے جس کے سامنے آئین ، قانون ، پارلیمنٹ نے بھی گھٹنے ٹیک رکھے ہیں۔ سونے اور ڈالر کی اونچی اڑان کے سامنے کس کا زور چلتا ہے۔ ہمیں سنگاپور، کوریا اور تائیوان کا ماڈل اپنانے کی ضرورت ہے۔ کیا پاکستان پر مسلط غربت دور کرناامریکہ یا چین کی ذمہ داری ہے۔ جعلی ادویات پر سزائے موت ہونی چاہئے۔ حکومت کے 700روز، مہنگائی 8سال کی بلندترین سطح پر پہنچ گئی۔ پچھلے سال کی نسبت قیمتیں زیادہ ہونے سے قربانی کے جانور خریدنا مشکل ہوگیا۔