مقبوضہ کشمیر: حریت پسندوں کی جائیدادیں ضبط کرنے کا منصوبہ، صنعتی یونٹس کیلئے 9600کنال اراضی پر قبضہ
نئی دہلی ، سری نگر(کے پی آئی) بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے بھارت مخالف حریت پسندوں کی جائیدادیں بحق سرکار ضبط کرنے کا منصوبہ بنا یا ہے ۔ اس سلسلے میں بھارتی وزارت داخلہ نے قانون یو اے پی اے (Unlawful Activities PreventionAct) کے تحت 44افسروں کو نامز د کیا گیا ہے۔ ان افسروں کو یو اے پی اے ایکٹ کے تحت بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کی جائیداد ضبط کرنے کے حوالے سے اختیارات دئے گئے ہیں۔ کے پی آئی کے مطابق یو اے پی اے گزشتہ سال بھارتی پارلیمنٹ نے پاس کیا تھا بھارتی حکومت جموںوکشمیر سمیت بھارت کی مختلف ریاستوں میں بھارت مخالف افراد کی جائیداد ضبط کرنے کے احکامات صادر کئے ہیں۔ بھارتی اخبار کے مطابق جائیداد ضبطی کا عمل جموںوکشمیر سے ہی شروع ہوسکتا ہے اس حوالے سے آنے والے دنوں کے دوران بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کرنے کا امکان ہے۔ بھارتی حکومت نے گزشتہ سال پارلیمنٹ سیشن کے دوران یو اے پی اے ایکٹ قانون پاس کرایا اگر چہ کانگریس سمیت دوسری بائیں بازوں کی جماعتوں نے اس قانون میں ترامیم کرنے کے ضمن میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج بھی کیا تاہم حکومت نے ترمیم کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ عسکریت کے خلاف حکومت زیروٹالرنس پر کاربند ہے۔ کانگریس نے اس وقت کہا تھا کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو سکتا ہے تاہم بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں واضح کیا تھا کہ ایسے افراد کے خلاف ہی اس قانون کا اطلاق ہوگا جن کے خلاف عسکری سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے پختہ ثبوت ہوں گے ۔ قابل زکر امر یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پہلے ہی حریت پسندوں کی جائیداد ضبطی کا عمل جاری ہے ۔ دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی ان دنوں تہاڑ جیل میں ہیں سرینگر میں ان کے ضبط کیا گیا ہے۔بھارتی حکومت نے اسرائیلی طرز پر مقبوضہ کشمیر میں 9600 کنال سے زیادہ اراضی پر قبضہ کر لیا ہے۔9600 کنال اراضی پر37 نئی صنعتی سٹیٹس قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے ۔جموں و کشمیر رائٹ ٹو انفارمیشن(آر ٹی آئی) موومنٹ کے چیئرمین ، ڈاکٹر راجہ مظفر بٹ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ 9600 کنال پر قبضہ زراعت پر مبنی کشمیر کی معیشت کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ فیکٹریاں لگانے کے بجائے 9600 کنال اراضی پر 100 زرعی فارموں کے قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے۔ 2016 کی دسویں زراعت مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں زرعی اراضی محض 0.59 ہیکٹر تھی جبکہ 2011 میں 0.62 ہیکٹر رقبہ زرعی اراضی پر مشتمل تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کو زمین کے حصول کے لیے تمام رکاوٹیں ختم ہو گئی ہیں ۔ بھارتی فوج دفاعی مقاصد کے نام پر جموں وکشمیر میں کہیں بھی زمین حاصل کر سکتی ہے۔ اس عمل کے لیے فوج کو کسی این او سی کی ضرورت نہیں ہو گی۔ انڈیا ٹوڈے کے مطابق بھارتی فوج ، بی ایس ایف ، سی آر پی ایف وغیرہ کو کسی این او سی کے بغیر جموں وکشمیر میں زمین حاصل کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ اس سلسلے میںجموں و کشمیر انتظامیہ نے 1971 سرکلر واپس لے لیا ہے۔ کے پی آئی کے مطابق جموں و کشمیر میں زمین کے حصول ، بحالی اور آبادکاری کے ایکٹ ، کے تحت سرکلر1971 کے تحت بھارتی فوج ، بی ایس ایف ، سی آر پی ایف وغیرہ کو اراضی کے حصول کے لئے محکمہ داخلہ سے عدم اعتراض سرٹیفکیٹ(این او سی) کی ضرورت ہوتی تھی۔ 1971 سرکلر اس وقت واپس لے لیا گیا جب زمین کے حصول سے متعلق بھارتی قانون کو جموں و کشمیر تک بڑھا دیا گیا ۔ 24 جولائی کو جاری کردہ ایک حکم میں کہا گیا ہے کہ سرکلر1971 ختم کرکے بحری ، فوجی ، فضائیہ ، اور مسلح افواج سے متعلق سٹریٹجک مقاصد کے لئے "حصول زمین کی فراہمی کا بندوبست کیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کرونا وائرس کے نام پر سخت لاک ڈاون کے دوران بھارتی فوج کی محاصرے اور تلاشی کارروائیاں جاری ہیں۔ بھارتی تحقیقاتی ایجنسی(این آئی اے )نے6 کشمیری نوجوانوں کے خلاف جعلی مقدمے میں چارج شیٹ عدالت میں جمع کرادی ہے ۔جموں میں این آئی اے کی خصوصی عدالت میں داخل کی جانے والی چارج شیٹ میں الزام لگا یا گیا ہے کہ ان6 نوجوانون نے عسکریت پسندی میں کرداد ادا کیا تھا۔ کے پی آئی کے مطابق جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ان نوجوانوں میں سمیر احمدڈار، آصف احمد ملک ، سرتاج احمد منٹو، شہیب منظور، ظہور احمد خان اور بڈگام کے سہیل جاوید شامل ہیں۔ تحقیقاتی ایجنسی کے مطابق پیر کے روز جموں کی خصوصی عدالت میں گرفتا ر شدگان کے خلاف چارج شیٹ دائر کی گئی این آئی اے کے مطابق گرفتار شدگان کا تعلق جیش محمد سے ہے۔ ان کے خلاف بھارت مختلف دفعات کے تحت پہلے ہی بغاوت کے مقدمات درج ہیں۔ ایجنسی نے بتایا کہ اس حوالے سے نگروٹہ پولسی تھانہ میں 45/2020کے تحت کیس درج ہے۔