نیب قانون، اپوزیشن نے کمیٹی کا بائیکاٹ کر دیا، حزب اختلاف کی رضامندی کے بغیر بل پارلیمنٹ لائینگے: فروغ نسیم
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی +ایجنسیاں ) قومی اسمبلی میں حکومت نے اپوزیشن کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں تجویز کردہ 35 ترامیم کو مسترد کر دیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انکشاف کیا ہے کہ اپوزیشن ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے قانون سازی کو نیب قانون کی منظوری سے پیکیج ڈیل کرنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف کی تجویز کردہ قانون سازی کو نیب قانون میں ترمیم کیساتھ مشروط کر دیا ہے۔ اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف کے ساتھ نیب کے حوالے سے قانون سازی کو مشروط کر دیا ہے۔ جو میرے لیے حیران کن بات تھی۔ ہم نے اپوازیشن پر واضح کر دیا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے ہمیں وقت کی قلت کا سامنا ہے، نیب کا جو قانون کوششوں کے باوجود 10سالوں میں نہیں بدل سکا وہ 10گھنٹوں میں کیسے بدل سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے مشترکہ طور پر نیب قانون میں 35 ترامیم تجویز کیں جو ہم نے وزیر اعظم کو پیش کر دیں۔ اپوزیشن نیب قانون میں جو ترامیم چاہتی ہے وہ ہمارے لئے ممکن نہیں، ہماری پارٹی کا منشور ہے کہ کرپشن برداشت نہیں کی جائے گی۔ اپوزیشن کی ترامیم سے نیب قانون بے معنی ہوجائے گا۔ اپوزیشن کے مطالبات کو تسلیم کرنا ہمارے ملکی مفاد کیلئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپوزیشن کو اپنی شرط پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ ہماری طرف سے چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ عمران خان کی سوچ کا محور یہ ہے کہ وہ کرپشن کے موضوع پر سودے بازی نہیں کروں گا۔ اپوزیشن سے گذارش ہے کہ حکومت کیلئے نہیں پاکستان کیلئے ایف اے ٹی ایف اور نیب قانون کو الگ الگ کر کے دیکھیں۔ پاکستان ہماری حکومت سے پہلے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں آ چکا تھا، گذشتہ حکومتوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے ملک گرے لسٹ میں گیا، ہندوستان کی واضح پالیسی اور کوشش ہے کہ پاکستان گرے سے بلیک لسٹ میں چلا جائے تاکہ پاکستان معاشی پابندیوں کا شکار ہو اور یہاں مہنگائی کا طوفان برپا ہو، میں نے بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے سفارتی کوششیں کیں، ہم نے سفارتی کوششوں کو بروئے کار لا کر ہندوستان کی کوششوں کو ناکام بنایا، ایف اے ٹی ایف کے گذشتہ اجلاس میں پاکستان کی کاوشوں کو سراہا گیا، ہمارے دوست ممالک ترکی، سعودی عرب سمیت اتنے ووٹ اکٹھے کئے ہیں کہ ہم بلیک لسٹ سے بچ سکیں۔ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی ہدایات پر ایسے اقدامات کئے ہیں جن پر عالمی سطح پر کافی اطمینان رہا، ہم ایف اے ٹی ایف پر اپوزیشن سے حکومت کے لئے نہیں پاکستان کے لئے تعاون چاہتے ہیں، آج قانون سازی کریں گے تو اکتوبر میں ایشیا پیسیفک میں چار بلز پیش کرسکیں گے۔ ابتدائی رپورٹ کے بعد اکتوبر میں طے ہوگا کہ پاکستان گرے لسٹ میں رہے گا یا وائٹ میں آئے گا۔ ایف اے ٹی ایف نے مزید شرائط رکھی ہیں، پاکستان کی آواز بننے والے تمام افراد کی کوششوں کو سراہتا ہوں، میں اپنی وزارت خارجہ، وزارت خزانہ، اسد عمر، حماد اظہر جس جس نے بھی ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی نمائندگی کی انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں، ہماری کوشش ہے کہ ہم پاکستان کے مفاد کے لئے اپوزیشن کے ساتھ مل کر قانون سازی کریں، ہمارے پاس وقت کی کمی ہے۔ ہماری رپورٹ ایشیا پیسفک گروپ کے پاس جائے گی تاکہ وہ آئندہ اجلاس میں پیش ہو سکے، میں شکرگزار ہوں کہ اپوزیشن نے ہماری درخواست پر قانون سازی کے لیے مل بیٹھنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ ان بلز کو ہم نے ان دونوں ایوانوں سے پاس کروانا ہے، 25رکنی پارلیمانی کمیٹی برائے قانون سازی تشکیل پائی جس میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان شامل ہیں، ہم نے مذاکرات کا آغاز کیا۔ ہم نے اپنی معروضات پیش کیں لیکن اپوزیشن نے کہا کہ اس پر پیش رفت ممکن نہیں، اگر آپ کو ہمارا مسودہ موزوں دکھائی نہیں دیتا تو وہ اس کا حل بتا دیں، اپوزیشن نے ایک مسودہ جوائنٹ پروپوزل پی پی پی اور پی ایم ایل این ہمارے سامنے رکھا اور اس میں 35 تجاویز میں ترمیم کا کہا۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ اس قانون کا اطلاق 16 نومبر 1999 سے ہو اس طرح 14 سال کا عرصہ منفی ہو جاتا ہے بہت سے مقدمات ختم ہو سکتے ہیں جو قرین انصاف نہ ہو گا۔ دوسرا مطالبہ چیئرمین نیب کے اختیارات کی کمی ہے۔ موجودہ چیئرمین کے چنائو میں تحریک انصاف کا کوئی حصہ نہیں کیونکہ یہ اس وقت کی حکومت اور اپوزیشن کی متفقہ مشاورت سے ہوا۔ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت دو اہم موضوعات ہیں اپوزیشن کے مطالبے کو تسلیم کرنا ہمارے ملکی مفاد کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اپوزیشن کو اس پر نظرثانی کرنی چاہیے، اپوزیشن کے دوست چاہتے ہیں کہ اگر کوئی نیب سے سزا یافتہ ہے تو وہ پارلیمنٹ کا ممبر بن سکتا ہے تو میں گذارش کروں گا اس پر بھی نظر ثانی کریں۔ ایک تجویز یہ بھی آئی کہ چیئرمین نیب کی تقرری کا دورانیہ چار سال سے کم کر کے تین سال کر دیا جائے۔ اپوزیشن نے ایک ارب روپے سے کم کا کیس نیب میں نہ جانے کا مطالبہ کیا۔ اپوزیشن نے مطالبہ کیا غیر ملکی اکائونٹس اور لیگل مدد و اثاثے نیب قانون سے نکال دیئے جائیں۔ اپوزیشن چاہتی ہے اگر کوئی شخص نیب سے سزا یافتہ ہوگیا تو وہ پھر بھی اسمبلی رکن بن سکتا ہے۔ قانون کہتا ہے کہ سزا یافتہ عوامی عہدہ رکھنے والا دس سال نااہل ہوتا ہے، اپوزیشن کی تجویز کے مطابق 6 جرائم کو نیب قانون سے حذف کر دیا جائے ، ایک تجویز یہ بھی آئی کہ جب تک مکمل سزا نہ سنا دی جائے ملزم کو نیب گرفتار نہ کرے۔ صاحب ثروت لوگ کروڑوں اربوں کے قرضے لیتے ہیں اور اگر کوئی انہیں معاف کرواتا ہے یا دیوالیہ ہوتا ہے تو نیب اس کے خلاف کارروائی نہ کرے دیگر فورمز کے تحت اس پر ایکشن ہو، آج پاکستان کے لیے ہم مل کر بیٹھیں۔ گیارہ بل پیش کئے گئے ہیں۔ اپوزیشن سے کہا کہ مل بیٹھ کر قوانین کی نشاندہی کریں۔ اس ضرورت کو ہم نے محسوس کیا اور اپوزیشن سے بات چیت شروع کی۔ یہ بل دونوں ایوانوں سے پاس ہونا ہے۔ ایک بل قومی اسمبلی پاس کر چکی ہے۔ سینٹ سے منظور ہونا ہے۔ دو قانون انسداد دہشتگردی ایک میوچل لیگل اسسٹنس سے متعلق ہے۔ ایک فیٹف سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپوزیشن کو آرڈیننس کے حوالے سے آگاہ کیا۔ اپوزیشن کا موقف تھا کہ اس پر پیش رفت ممکن نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں سزائے موت کے قیدی کو 7کی بجائے30دن کے اندر اپیل کرنے، منشیات فروشوں کی ناقابل ضمانت اور بغیر وارنٹ گرفتاری،16کی بجائے 18سال کی عمر تک مفت تعلیم اور 18سال سے کم عمر ڈرائیور کو تین سال قید یا 50ہزار روپے جرمانے سمیت8بل پیش کر دئیے گئے۔حکومت کی جانب سے تمام بلوں کی عدم مخالفت پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے تمام متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بجھوا دیے۔ دوسری جانب نیب قوانین میں ترمیم کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ تجاویز مسترد ہونے پر حزب اختلاف نے کمیٹی سے واک آؤٹ کر دیا۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت کی نیت خراب ہے، اب کمیٹی میں جانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ وسیع تر قومی مفاد میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کا موقف ایک ہے۔ حکومت نے نیب قانون میں اپوزیشن کی ترامیم کو مسترد کر دیا ہے۔ ہم نے کہا ہے کہ بتا دیں کونسی ترامیم قابل قبول نہیں، ہماری ترامیم سپریم کورٹ کی ہدایت اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ ایف اے ٹی ایف بل کو جب حکومت لائے گی، اس کو سٹینڈنگ کمیٹی میں ڈسکس کریں گے۔ پچھلے ہفتے حکومت نے اپوزیشن سے کہا تھا کہ چار بلوں کو قومی اسمبلی اور سینٹ سے متفقہ پاس کرانا چاہتے ہیں، جس پر ہم نے جواباً کہا کہ قومی مفاد کے بل کیلئے حاضر ہیں۔ اتفاق کیا گیا تھا کہ انہیں اکٹھے پاس کرکے سینٹ کو بھیجے جائیں گے۔ شیری رحمان نے کہا کہ ن لیگ نے ہمیشہ کہا ہے کہ پارلیمان کو مضبوط بنائیں۔ ہم اے پی سی میں بھی انہی چاروں بلز پر مشاورت کر رہے ہیں۔ ادھر وفاقی حکومت نے نیب قانون پر ڈیڈ لاک پیدا ہونے کے بعد اپوزیشن کی رضامندی کے بغیر بل پارلیمنٹ میں لانے کا فیصلہ کرلیا۔ وزیر قانون فروغ نسیم نے کہاکہ پارلیمانی کمیٹی برائے قانون سازی میں ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہے، اپوزیشن کا کہنا ہے جب تک الزام ثابت نہ ہو نیب گرفتاری نہ کرے۔ اپوزیشن ایف اے ٹی ایف قوانین کو پس پشت ڈال رہی ہے، اپوزیشن کے مطالبات حکومت کے اینٹی کرپشن بیانیے کے خلاف ہیں۔ حکومت ایف اے ٹی ایف سے متعلق قوانین ایوان میں لائے گی، ایف اے ٹی ایف کے 3 بل حکومت نے 6 اگست سے پہلے بنانے ہیں، اگر پاکستان یہ بل نہیں بنائے گا تو ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نہیں نکلے گا۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے بدلے اپوزیشن جو مانگ رہی ہے وہ تحریک انصاف تو کیا کوئی حکومت نہیں دے سکتی۔ اپوزیشن کے35نکات کا مطلب نیب کو بند کرنا ہے۔ وزیراعظم کا موقف واضح ہے کہ احتساب کے عمل پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی۔ اپوزیشن کے نکات ایسے ہیں جن پر بات چیت نہیں ہو سکتی۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ احتساب کے عمل کو بند کر دیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اپوزیشن سے اپیل کرتے ہیں کہ قومی سلامتی سے متعلق ایشوز پر قدم بڑھائے، اپوزیشن کے نکات مان لئے تو احتساب کا عمل ختم ہو جائیگا ،اس ایشو پر حکومت کو بلیک میل نہ کیا جائے۔
اسلام آباد ( محمدنواز رضا ۔وقائع نگار خصوصی) نیب قانون میں اپوزیشن کی ترامیم مسترد کئے جانے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قانون سازی میں تعاون بارے ہونے والے مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تقریر کے بعد اپوزیشن نے قانون سازی کے حوالے سے قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیاکا جس کے باعث پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس موخر کر دیا گیا اپوزیشن کے بائیکاٹ کے بعد پارلیمانی کمیٹی برائے قانون سازی کااجلاس ملتوی کرنا پڑا ،کمیٹی کے ارکان بھی اجلاس ملتوی ہونے کی اطلاع ملنے پر کمیٹی روم سے اٹھ کر چلے گئے، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عامر ڈوگر نے بتایاکہ آج اپوزیشن سے پھر رابطہ کرنے کی کوشش کی جائے گی اور انہیں پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں مدعو کیا جائے گا ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے نوائے وقت کے استفسار پر بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس ’’ان کیمرہ ‘‘ تھے اس کی باتیں وزیر خارجہ کی جانب سے منظر عام پر آنا پارلیمانی روایات کے خلاف ہے اپوزیشن نیب قانونون میں ترامیم پر بات چیت آل پارٹیز کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں کی روشنی میں کرے گی حکومت نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق تمام اپوزیشن کے تعاون کے بغیر پارلیمنٹ سے منظو کرانے کی حکمت عملی تیار کی ہے سینیٹ سے بل نامنظور ہونے کی صورت میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں منظور کرائے گی اپوزیشن نے حکومت کی طرف سے نیب قانون میں ترمیم کے مسودہ بارے میں غیر لچک دار رویہ اختیار کرنے حکومت سے مزید مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ کیا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب شاہد خاقان عباسی اور پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما شیری رحمان نے کہا ہے کہ حکومت سے مزید مذاکرات نہیں کریں گے پارلیمانی کمیٹی برائے قانون سازی کا بائیکاٹ رہے گا ،حکومت انتقامی کارروائیاں کررہی ہے اب مذاکرات نہیں کریں گے،کمیٹی کا بائیکاٹ اس لئے کیا ہے کہ حکومت نیب ترامیم پر سنجیدگی سے بات نہیں کر رہی۔منگل کو مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رہنما مسلم لیگ شاہد خاقان عباسی نے کہا حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے ہوا تھا کہ پارلیمان کے اسی سیشن میں نیب ترامیم پر بل پاس کرایا جائے گا لیکن حکومت نے نیب قانون میں کوئی بھی ترمیم منظور کرنے سے انکار کر دیا ہے لہذا اب مزید مذاکرات کی گنجائش نہیں ۔