کرونا: رواں برس بھوک، افلاس سے ایک لاکھ 28 ہزار بچوں کی ہلاکت کا خدشہ: اقوام متحدہ
جینیوا+ نیویارک(صباح نیوز+ این این آئی) اقوام متحدہ (یو این)کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں برس بھوک اور افلاس سے ایک لاکھ 28 ہزار بچوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق لاک ڈائون کی وجہ سے خوراک کی کمی میں اضافہ ہوا جس کے باعث ماہانہ 10ہزار بچے ہلاک ہورہے ہیں۔اقوام متحدہ نے لاک ڈائون کی وجہ سے بھوک اور افلاس میں اضافہ پر اظہار تشویش کیا اور کہا ہے کہ لاک ڈائون کے باعث بھوک اور افلاس سے متاثرہ افراد پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بھوک اور افلاس سے دوچار افراد پر لاک ڈائون کے اثرات تباہ کن ہوں گے۔اقوام متحدہ نے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے خوراک کی سپلائی میں قلت کے سبب اس وبا کے ایک سال مکمل ہونے تک ایک لاکھ 28 ہزار بچوں کی بھوک سے موت ہوجائے گی۔اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے خوراک کی سپلائی میں قلت کے سبب ہر ماہ تقریباً دس ہزار بچے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مناسب خوراک نہیں ملنے کے سبب ہر ماہ ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ بچے دیگر جسمانی عارضوں کا شکار ہو رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے مختلف اداروں نے کہا ہے کہ غذائیت میں اضافے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے ورنہ یہ انفرادی سانحے مستقبل میں ایک پوری نسل کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تعذیاتی شعبے کے سربراہ فرانسسکو برانکا کا کہنا تھا’’کووڈ بحران کی وجہ سے فوڈ سیکورٹی کے اثرات آنے والے کئی برسوں تک دکھائی دیں گے۔ اس کے سماجی اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔لاطینی امریکا سے لے کر جنوبی ایشیا اور سب صحارا افریقہ تک کے ملکوں میں پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ غریب کنبے مستقبل میں خوراک کی قلت سے دوچار ہوں گے۔اپریل میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے سربراہ ڈیوڈ بیسلے نے متنبہ کیا تھا کہ کرونا وائرس کے سبب عالمی سطح پرفاقہ کشی کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس عالمی ادارے نے فروری میں ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ وینیزویلا میں ہر تین میں سے ایک کنبے کو بھوکا رہنا پڑ رہا ہے۔ ملک میں پہلے ہی افراط زر کی شرح میں اضافے کی وجہ سے تنخواہیں تقریباً بے معنی رہ گئیں اور لاکھوں لوگوں کو دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرنا پڑا۔ اس کے بعد کوورنا وائر س کی وبا پہنچ گئی۔وینیزویلا کے سرحدی ریاست تاچیرا میں ایک ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر فرانسسکو نیئتو نے بتایا’’قلت تغذیہ کا شکار کوئی نہ کوئی بچہ ہر روز ان کے پاس پہنچتا ہے۔ مئی میں دو ماہ کے قرنطینہ کے بعد 18 ماہ کے جڑواں بچے ان کے پاس لائے گئے۔ بھو ک کی وجہ سے ان کا جسم ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ ان کی ماں بے روزگا ر تھی اور خود اپنی والدہ کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ اس خاتون نے بتایا کہ وہ صرف ابلے ہوئے کیلوں پر گزارا کررہے تھے۔ڈاکٹرفرانسسکو کا کہنا تھا کہ بچے جب ہسپتال میں لائے گئے اس وقت تک کافی تاخیر ہوچکی تھی۔ ان میں سے ایک بچہ آٹھ دن بعد چل بسا۔اقوام متحدہ کی چار ایجنسیوں عالمی ادارہ صحت، یونیسیف، ورلڈ فوڈ پروگرام اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے عالمی سطح پر بھوک کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے فوری طورپر کم از کم 2.4 بلین ڈالر کے امداد کی اپیل کی ہے۔یونسیف کے تغذیاتی پروگرام کے سربراہ وکٹر اگایو کا کہنا ہے کہ پیسے کی کمی تو اپنی جگہ ہے لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے نقل و حمل پر عائد پابندیوں کے سبب لوگوں کی علاج معالجہ کی سہولت تک رسائی نہیں ہوپارہی ہے۔وکٹر اگایو کہتے ہیں کہ سکول بند ہیں، پرائمری ہیلتھ سینٹروں کی خدمات متاثر ہیں، تغذیاتی پروگرام بند ہیں، ہم نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے وٹامن اے سپلیمنٹ فراہمی کے عالمی پروگرام تقریباً معطل ہوجانے کی مثا ل دی۔ حالانکہ یہ جسم کے اندر مزاحمتی نظام کو فروغ دینے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔افغانستان میں نقل و حمل پر پابندیوں کی وجہ سے لوگ قلت تغذیہ کا شکار بچوں کو ہسپتال نہیں لے جا پارہے ہیں حالانکہ انہیں علاج کی سخت ضرورت ہے۔ کابل میں اندرا گاندھی ہسپتال میں ماہر امراض اطفال ڈاکٹر نعمت اللہ امیری کہتے ہیں کہ اب تین سے چار بچے ہی آرہے ہیں جبکہ پچھلے سال ان کی تعداد دس گنا زیادہ تھی۔چونکہ بچے ہسپتال نہیں آرہے ہیں اس لیے مسئلے کی سنگینی کی نوعیت کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ تاہم جان ہاپکنس یونیورسٹی کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق پانچ برس سے کم عمر کے مزید 13000 سے زیادہ بچے موت کا شکار ہوسکتے ہیں۔یونیسیف کے مطابق افغانستان بھوک کے لحاظ سے ریڈ زون میں ہے۔ قلت تغذیہ کا شکار بچوں کی تعداد جنوری میں چھ لاکھ 90 ہزار سے بڑھ کر سات لاکھ 80 ہزار ہوگئی تھی یعنی 13 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔