پارلیمانی پارٹی اجلاس ، مسلم لیگ ن اے پی سی پر منقسم ، حکومت نے 2برس ناٹک رچائے: شہباز شریف
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے مسلم لیگ (ن) کی مشترکہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ اس بارے میں پارٹی میں منقسم رائے پائی جاتی ہے۔ شاہد خاقان عباسی اور محسن شاہنواز رانجھا پارلیمنٹ میں پیش ہونے والے بل کا اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں شق وار جائزہ لیتے رہے۔ تاہم اجلاس میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے پارٹی قیادت سے کہا کہ ہمیں مستقبل کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔ اجلاس سے احسن اقبال، میاں جاوید لطیف، خواجہ سعد رفیق، بیگم کلثوم پروین، فیاض سمیت دیگر ارکان نے اظہار خیال کیا۔ سینیٹر بیگم کلثوم پروین نے سینٹ میں سینیٹ رمشاہد اللہ خان اور سینیٹر جاوید عباسی کے کردار کو سراہا اور کہا کہ انہوں نے سینٹ میں مسلم لیگ (ن) کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ شہباز شریف نے بل کے بارے میں حکومت سے ہونے والی بات چیت سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے بات چیت کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا جائے گا۔ افتخار الحسن شاہ، رانا افضل اور عظمی بخاری کے والد سید زاہد حسین بخاری کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ شہباز شریف نے کہا کہ کرونا سے پہلے ہماری معیشت تباہ ہوچکی تھی۔ کرونا وبا آنے سے پہلے ہی قومی معیشت ہچکولے کھارہی تھی۔ تاریخی کرپشن سکینڈلز پر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ عید سے پہلے عوام پر پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا بم گرایا گیا۔ فصل کٹتے ہی پہلے دن سے گندم غائب ہوگئی۔ احسن اقبال نے کہاکہ اناڑی حکومت پاکستان کے کلیدی مفادات سے کھیل رہی ہے۔ حکومت نے پاکستان کو خارجہ میدان میں تنہا کر دیا ہے۔ اجلاس لائن آف کنٹرول پر بھارتی قابض فوج کی جانب سے بڑھتی ہوئی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں، فائرنگ کے ذریعے عام شہری آبادی کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کا اظہارکرتا ہے۔ یہ بھارتی اقدامات جنوبی ایشیا کے امن وسلامتی کے لئے سنگین خطرہ ہیں۔ عالمی برادری نے بھارت کو جنگی جنون سے روکنے میں کردار ادا نہ کیا تو پوری دنیا کو اس بھارتی جارحانہ سوچ کی قیمت اد اکرنا پڑسکتی ہے۔ افغانستان کی جانب سے باب دوستی چمن اور دیر میں پاکستانی سرحدی چوکیوں پر فائرنگ اور جانی ومالی نقصانات کی شدید مذمت کرتے ہوئے افغانستان حکومت پر زور دیتا ہے کہ امن کے مفاد میں مثبت ماحول پیدا کرے۔ پاکستان اور افغانستان برادر ہمسایہ ممالک ہیں۔ ان میں باہمی اعتماد، تعاون اور بہترین تعلقات نہ صرف دونوں ممالک بلکہ خطے کے بھی بہترین مفاد میں ہیں۔ اجلاس سمجھتا ہے کہ موجودہ حکومتی انتظام اگر اسی ڈگر پر یوں ہی چلتا رہا تو اس کے ملک اور عوام پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے اور خدا نخواستہ ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔ اجلاس عوا م کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے برملا اعتراف کرتا ہے کہ خود حکومتی اعدادوشمار اس امر کا اعتراف ہے کہ دیہات اور شہروں میں مہنگائی کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ شہباز شریف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ وزیر خارجہ نے لمبی چوڑی قرارداد پیش کی۔ مودی ہٹلر ثانی کے مظالم کی وزیر خارجہ نے صفائی کی حد تک مذمت کی۔ بھارتی غیر قانونی قبضے والے جمو ں وکشمیر میں ہزاروں لوگوں نے جام شہادت نوش کیا خواتین کے آنچل نوچے گئے بزرگوں اور بچوں کو شہید کیا جا رہا ہے معصوم کشمیریوں کے خون سے وادی سرخ ہو چکی ہے۔ پاکستانی قوم اور یہ ایوان عظیم کشمیریوں کو سلام پیش کرتا ہے۔ کشمیری بھائیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ بھارتی فوج نہتے کشمیریوں پر گولیاں برساتی ہے۔ آج کی کارروائی پر اپوزیشن کا احتجاج ریکارڈ کرانا ہے۔ عثمان کاکڑ‘ سراج الحق‘ مولانا اسعد محمود کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جو بل پیش کیا اس کی بعض شقیں ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے بہت اہم تھیں۔ اپوزیشن ارکان ان پر بات کرنا چاہتے تھے آپ نے بات نہیں کرنے دی جس سے ماحول خراب ہوا۔ یہ پارلیمانی روایات کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے۔ احتجاج ریکارڈ کرانے میں حق بجانب ہوں۔ کرونا سے وفات پانے والے ہزاروں پاکستانیوں کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ کشمیر پر پورا عالم اسلام خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ ہم خاموش تماشائی بن کر کشمیریوں کی حالت زار دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی ان مظالم پر بھارت کو پوچھنے والا نہیں۔ کشمیری عوام پر جو گزر رہا ہے ہم اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ مؤرخ کشمیریوں کی جرات کو سنہرے الفاظ میں لکھے گا۔ حکومت صرف تصویر‘ تقریر‘ تشہیر اور ٹیلی فون کر رہی ہے باقی کچھ نہیں۔ حکومت کا دامن خالی ہے۔ کشمیر متنازعہ مسئلہ ہے اس پر ایسی خاموشی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ اپوزیشن رہنما انہی معاملات پر بات کرنا چاہتے تھے۔ انہیں بات کی اجازت نہ دیکر کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا گیا۔ وزیراعظم ایک طرف ارطغرل ڈرامہ دیکھنے کو کہتے ہیں دوسری طرف مودی کو کال کی کوشش کرتے ہیں جو تضاد ہے۔ کشمیری آج بھی ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ کشمیری بھائیوں‘ بہنوں کا دکھ دیکھ کر رات کو نیند نہیں آتی۔ وزیر خارجہ نے عالمی طاقتوں کو جگانے کیلئے کیا کیا؟۔ عالمی طاقتیں مودی ہٹلر ثانی کی چیرہ دستیوں پر خاموش ہیں۔ صرف ٹی وی پر ’’یس‘‘ اور ’’نو‘‘ کرنے سے کیا ملے گا؟۔ کشمیر ایک دن آزاد ہو گا، انشاء اللہ۔ اور کشمیری عظیم قوم بنیں گے۔ فلسطین میں بھی کشمیر کی طرح مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ عالمی طاقتیں فلسطین میں مظالم پر بھی خاموش ہیں۔ دو سال حکومت نے مختلف ناٹک رچائے رکھے۔ شہباز شریف نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چل رہا ہے۔ مودی کو تو کسی نے نکیل نہیں ڈالی۔ کسی نے اسے پوچھا تک نہیں۔ ان کو سولو فلائٹ کا شوق ہے۔ انہیں کوئی سمجھانے والا بھی نہیں۔ مجھے شوق نہیں کہ وزیر خارجہ نے مجھے ٹیلی فون کرتے۔ چار تاریخ کو مجھے اور بلاول صاحب کو ایک دعوت نامہ بھیج دیا۔ وزیر خارجہ کا تعلق ایک پیر خاندان سے ہے۔ انہیں فون کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں ہوئی۔ عالمی سطح پر طاقتور پیغام دینے کیلئے ہم نے اتحاد کا پیغام دیا۔ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان سے مشورہ کرکے اپنے وفود بھیجے۔ شہباز شریف نے شعر پڑھا ’’ تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے‘ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘۔ آج کشمیریوں کا ہاتھ پکڑنا ہے۔ جھٹکنا نہیں۔ کشمیریوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینے سے بڑی غلطی اور نہیں ہو سکتی۔ کشمیر کے حوالے سے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ حکومت پانچ اگست کو کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور یوم استحصال کے موقع پر اگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی حکومت ساتھ لے کر چلتی تو اس سے اچھا پیغام جاتا۔