• news
  • image

نئے تجارتی شہر آباد کرنے کی ضرورت!!!!

خبر یہ ہے کہ پنجاب حکومت مچھلی منڈی کو شہر سے باہر منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یاد رکھا جائے ہم نے ڈیڑھ سال قبل یہ تجویز پیش کی تھی اور اس پر کام شروع کیا گیا پنجاب حکومت کے اہم وزیر جو کہ ان دنوں بھی وزارت چلا رہے ہیں انہوں نے ضلعی انتظامیہ کو ساتھ ملایا ایک کھیل کھیلا، تعلقات استعمال کیے، پردے کے پیچھے رہ کر ڈوریاں ہلائیں، عوامی فلاح کے اس منصوبے کی ہر طریقے سے مخالفت کا سامان کیا یوں اکثریت نے عوام کے فائدے کے  بجائے ایک وزیر کو خوش کرنے کو زیادہ اہم جانا اور اس نئے منصوبے کو صرف اس لیے روک دیا گیا کہ کہیں وزیروں کی کارکردگی نہ دب جائے۔ اب ایک مرتبہ پھر حکومت اس منصوبے پر کام شروع کر رہی ہے۔ یہ خوش آئند ہے ہم تو چاہتے تھے کہ یہ کام ڈیڑھ برس قبل ہی شروع ہو جاتا لیکن اس وقت ہونے والی سازشوں کی وجہ سے کام آگے نہ بڑھ سکا۔ کیا قوم کا ڈیڑھ سال ضائع کرنے والے سازشیوں اور مفاد پرستوں کا حساب ہو گا۔ قوموں کی زندگیوں میں وقت سے زیادہ قیمتی اور اہم کچھ نہیں ہوتا، وقت ضائع کرنے والے قوم کے دشمن ہیں۔ عوامی فلاح کے منصوبے شروع کرنے میں رکاوٹ ڈالنے، عہدے کا ناجائز استعمال کرنے اور ذاتی مفادات، اختلافات یا دھڑے بندی کرنے والے ملک و قوم کے دشمن ہیں۔ ایسے افراد ہر سیاسی جماعت میں موجود ہوتے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ موجودہ حکومت میں بھی ایسے سیاست دان نظام کا حصہ ہیں جو عوامی فلاح کے منصوبوں سے زیادہ ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ منصوبہ ڈیڑھ برس پہلے شروع ہوتا تو آج مچھلی منڈی کی شہر سے باہر منتقلی کا بہت سارا کام ہو چکا ہوتا اور ایسی منڈیوں کی شہر سے باہر منتقلی کا عمل شروع ہونے پر بھی کام شروع ہو جاتا بدقسمتی سے پنجاب حکومت کے ایک ہم وزیر اور اس کے سیاسی دھڑے نے گندی سیاست سے ملک و قوم کا نقصان کیا۔ تاجروں کو مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ شہر کو ایک بہترین منصوبے سے محروم رکھا گیا۔
مچھلی منڈی، پھل و سبزی منڈیاں، مرغی کا کاروبار شہر سے باہر منتقل کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ ہم نے مچھلی منڈی کو پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر شروع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا دوسرے مرحلے میں ایسی تمام منڈیوں اور ہول سیل مارکیٹوں کو مرحلہ وار شہر سے باہر منتقل کرنے کی حکمت عملی تیار کی تھی۔ موجودہ دور میں اس کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔ شہر کی آبادی میں اضافہ ہونے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہول سیل مارکیٹوں میں آنا جانا نہایت مشکل ہو چکا ہے پھر ان علاقوں کے رہائشیوں کی زندگی بھی مشکل ہوئی ہے۔ ہمیں پھیلتے ہوئے شہروں بڑھتی ہوئی آبادی اور جدید دنیا کے تقاضوں کو پورا کرتے ایسے تمام کاروباری مراکز کو شہر سے باہر منتقل کرتے ہوئے نئے تجارتی شہر آباد کرنا ہوں گے۔ اگر شہر سے پندرہ بیس کلو میٹر نئے تجارتی شہر آباد کیے جائے شہر سے تمام منڈیاں باہر منتقل کی جائیں، شہروں میں پہلے سے موجود تاجروں کو نئے شہروں میں منتقل کرتے ہوئے سہولیات فراہم کی جائیں ان کی پراپرٹی کا خیال رکھا جائے، منتقلی اور کاروبار کو پھیلانے کے لیے کاروبار دوست حکمت عملی پر کام کیا جائے تو ناصرف بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ قیمتوں کے تعین اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے بھی زیادہ بہتر انداز میں کام کیا جا سکتا ہے۔ پھل سبزیاں، گوشت سمیت اشیائ￿  خوردونوش ایک ہی جگہ سے شہروں میں منتقل ہوں رہی ہوں، حکومت کی پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور متعلقہ وزارتیں بہتر اور متحرک انداز میں کام کریں تو عوام کو مہنگائی کے جن سے بچایا جا سکتا ہے۔ یہی کام حکومت کو کرنا ہوتے ہیں۔ سامان منڈیوں سے شہروں تک لانے والے مڈل مین کو ساتھ ملایا جائے، اشیاء خوردونوش کے کاروبار سے منسلک افراد کو مناسب قیمتوں پر اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تو مصنوعی مہنگائی پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ اشیاء خوردونوش کی مناسب قیمتوں پر بلا تعطل فراہمی کے لیے دوکانداروں کو کم قیمتوں پر مہیا کریں۔ دوکانداروں پر غیر ضروری پر طاقت استعمال کرنے کے بجائے انہیں کم قیمت پر اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اسی روپے چینی خرید کر دوکاندار ستر روپے فی کلو فروخت نہیں کر سکتا۔ ایسی تمام منڈیوں کو شہروں سے باہر منتقل کر دیا جائے اور پنجاب کو چار یا چھ حصوں میں تقسیم کر دیا جائے تو غیر معیاری خوراک کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے ایک بڑا تجارتی مرکز راولپنڈی سے باہر قائم کیا جائے، ایک لاہور سے باہر اور اسی طرح جنوبی پنجاب کے لیے بھی اسی طرز کے تجارتی شہروں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ منصوبہ ملک کے تمام صوبوں میں پھیلایا جائے۔ اس انداز سے کام کرنے میں کئی شعبوں کے لیے کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔
اگر ہم منڈیوں کو شہر سے باہر منتقل کرنے پر سنجیدگی سے کام شروع کرتے ہیں تو بڑے پیمانے پر بڑے منصوبے شروع کر کے شہر کو رہنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے، ٹریفک کا بوجھ کم ہو گا تو آلودگی کم ہونے سے ہوا صاف ہو گی۔ تاریخی ورثے کو محفوظ بنانے پر کام کر کے سیاحت کے مواقع بڑھائے جا سکتے ہیں، شہر کو سیاحوں کے لیے اور زیادہ پر کشش بنایا جا سکتا ہے۔ سیاحت کے نئے مواقع پیدا ہوں گے شہر میں ثقافتی و سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ ایسے کاموں کے لیے تعمیری اور زرخیز ذہن کے حال افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومتی صفوں یا دیگر اداروں میں تخریبی ذہن والوں کی موجودگی ملک و قوم کے مستقبل کو بہتر بنانے والے منصوبوں میں رکاوٹ پیدا کرنے والوں کو نظام سے باہر کر دینا چاہیے۔ ملک کو درپیش بڑے مسائل سے نکالنے کے لیے روایتی سیاست اور روایتی طریقہ کار سے نکل کر غیر معمولی سوچ اور غیر معمولی انداز میں کام کرنے والے افراد کو آگے لانا ہو گا۔ ایسے منصوبوں میں بڑے پیمانے ہر تاجر شامل ہوتے ہیں۔ سب کے مفادات کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ طاقت کا غیر ضروری استعمال ایسے منصوبوں میں رکاوٹ اور بدمزگی پیدا کرتا ہے۔ نچلی سطح کے مسائل سے واقف اور سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد کو ذمہ داریاں دی جائیں تاکہ دہائیوں تک عوام کا خون چوسنے والی جمہوریت اور پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت میں فرق نظر آئے اور عوام کو نظر آئے کہ ان کے بہتر مستقبل کے لیے سنجیدگی کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے۔
شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف پر فرد جرم عائد ہوئی ہے۔ میاں نواز شریف پہلے سے ہی باہر بیٹھے ہیں۔ شریف خاندان نے حکومت اور اقتدار کے ذریعے خزانے بھرے ہیں، ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے۔ اچھے بھلے صوبے کو مقروض بنا دیا ہے۔ ایسے تمام کیسوں میں میرٹ پر تفتیش اور جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہیے۔ جس شخص نے بھی ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ ویسے سیاست دانوں کو اگر کچھ خوف ہو تو انہیں خود ہی سچ بول دینا چاہیے تاکہ ملک و قوم کا مزید نقصان نہ ہو۔ ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف بھی ضمنی ریفرنس دائر ہو گیا ہے اس کیس کو بھی منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا بہرحال ضروری ہے۔
دس اگست سینما، تھیٹرز، ریسٹورانٹس اور کیفیز کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کرونا میں مسلسل کمی خوش آئند ہے۔ پاکستانیوں نے اس وبا کی وجہ سے نہایت مشکل وقت گذارا ہے۔ اس دوران پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے عام آدمی کے مسائل میں بیپناہ اضافہ ہوا ہے۔ معمول کی زندگی میں واپسی خوش آئند ہے۔ ہمیں احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے واپس آنا ہے۔ جو لوگ کمزور افراد کی مدد کر سکتے ہیں انہیں زندگی معمول پر آنے کے بعد مدد کے اس جذبے کو برقرار رکھنا چاہیے۔ مشکل وقت ختم نہیں ہوا ہمیں مل جل کر عالمی وبا سے ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے کام کرنا ہے۔
یوم استحصال کے موقع پر کراچی میں جماعت اسلامی کی ریلی میں کریکر دھماکے میں زخمی ہونے والے قائد آباد کے ناظم رفیق تنولی انتقال کر گئے۔ جماعت اسلامی سے مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ رفیق تنولی کی شہادت اور ان کا خون کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی ہے۔ انہوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے قیمتی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ان شاء اللہ شہداء کا خون رنگ لائے گا اور کشمیری آزاد فضاؤں میں سانس لیں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن