نیہا عدالت پیش، این جی اوز نے ملک ، سوشل سیکٹر کو تباہ کردیا: ہائیکورٹ
راولپنڈی (اپنے سٹاف رپورٹر سے) لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے ٹیکسلاکے علاقہ میں مبینہ طور پرہم جنس پرستی کی شادی کرنے والے جوڑے کے خلاف دائر رٹ پر سماعت کے دوران مبینہ دولہا کی مسلسل پانچویں مرتبہ عدالت عالیہ میں عدم حاضری کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے، قومی شناختی کارڈ بلاک کرنے اور ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا حکم دے دیا۔ جبکہ فاضل بنچ نے دلہن نیہا علی کو دارالامان بھجواتے ہوئے اس کے وکیل کی بھی دارالامان میں ملاقات پر پابندی عائد کر دی اور کسی قسم کی ملاقات کو عدالتی اجازت نامے سے مشروط کرتے ہوئے دارالامان کی انچارج غلام زہرہ کو ہدایت کی کہ اس بچی کا خصوصی دھیان رکھا جائے۔ یہ خیال رہے کہ بچی دارالامان سے باہر نہ جائے اور نہ ہی کوئی اس سے ملاقات کرے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس صورتحال سے میری روح کانپ اٹھی ہے اس بچی کے والدین کا کیا حال ہو گا۔ میں اپنے حلف کا پابند ہوں۔ اس ملک اور سوشل سیکٹر کو این جی اوز نے تباہ کر دیا ہے۔ جمعہ کو سماعت کے موقع پر تھانہ ٹیکسلا پولیس نے دلہن نیہا علی کو عدالت میں پیش کیا۔ اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ دولہا علی آکاش کدھر ہے۔ جس پر پولیس نے موقف اختیار کیا کہ دولہا نہیں ملا‘ ہم نے بہت جگہوں پر چھاپے مارے ہیں۔ جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کہاں کہاں چھاپے مارے ہیں اس کی تفصیلات کدھر ہیں۔ جس پر پولیس نے بتایا کہ مفصل رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی ہے۔ سماعت کے دوران عدالت کے استفسار پر نیہا علی نے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ نیہا علی نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہے اور انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لینا چاہتی ہے اور تعلیم حاصل کر کے پائلٹ بننا چاہتی ہے جس پر عدالت عالیہ نے نیہا علی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لڑکی کی تعلیم وتربیت اور اس کی زندگی کو محفوظ بنانا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اس موقع پر نیہا علی کے وکیل نے استدعا کی کہ نیہا علی کو ان کے سپرد کر دیا جائے۔ عدالت نے یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ لڑکی کو آپ کے حوالے کر دیا جائے۔ عدالت نے لڑکی کی دارالامان منتقلی کے لئے دارالامان کی انچارج کو فوری طور پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ دارالامان کی انچارج غلام زہرہ نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے ہاں سکیورٹی کا ویسے بھی سخت انتظام ہے۔ میں عدالتی احکامات کے علاوہ کوئی سفارش نہیں مانتی۔ جس پر عدالت نے ایک بار پھر تاکید کی کہ آپ نے بچی کو وہاں سے نکالنا نہیں۔