دریائے جمنا کے کنارے 4 دن بھوکے پیاسے رہے: شریفاں بی بی
ملتان (سماجی رپورٹر) برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کے نام پر اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ ان خیالات کا اظہار ضلع فیروز پور سے پاکستان ہجرت کرنے والی شریفاں نے کیا، بی بی نے ہم نے پاکستان بنتے دیکھا سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت میری عمر 10 سال تھی کبھی کبھار کوئی لڑائی جھگڑے کی اطلاعات ملتی تھیں مگر آزادی کی تحریک جونہی تیز ہوئی تو ہندو اور سکھ بھوکے درندوں کی طرح مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ ادھر مسلمانوں کے اندر آزادی حاصل کرنیکا کا جذبہ اپنے جوبن پر تھا قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز اور بصیرت افروز تقاریر نوجوانوں کا خون گرما کر رکھ دیتیں۔ ایک شام میری والدہ نے تندور میں لکڑیاں ڈالی ہی تھیں کہ 10 سے زائد ہندو فوجی اور 20 سے زائد ہندو سکھ ہاتھوں سے گنڈاسے اور ٹوکے لئے ہمارے نزدیکی گھر میں داخل ہو گئے ان کی آنکھوں کے سانے ان کے 18 سالہ جوان بیٹے علی اکبر کو گنڈاسہ مار کر شدید زخمی کردیا غصہ سے بپھرے ہندو فوجی نے درانتی سے اس کی آنتیں باہر نکال کر پھینک دیں اور والدہ کی آنکھوں کے سامنے جوان بیٹا نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ جبکہ دوسرے نزدیک ہمسائے فیروز کے گھر سے جوان 14 سالہ بچی کو اٹھا لیا جس نے اپنی عزت کو بچانے کیلئے ہاتھوں سے اپنا گلا خود دبا کر موت قبول کر لی اور یوں گاؤں کے لوگوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا کوئی 1000 سے زائد کا قافلہ خالی ہاتھ گھروں سے روانہ ہوا۔ راستہ میں سکھوں حملہ آوروں نے حملہ کر کے قافلہ کے 10 سے زائد جوانوں اور بزرگوں کو شہید کردیا اور اس دوران دریائے جمنا قافلہ پہنچا جہاں 4 دن بھوکے پیاسے خیموں میں رہے اور بذریعہ ٹرین واہگہ باڈر پہنچے بارڈر پر پہنچتے ہی مسلمان پاکستانی سرزمین پر قدم رکھتے ہی سجدہ ریز ہو گئے اور وطن کی مٹی کو بوسے دیئے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ جس کلمہ کی بنیاد پر آزادی حاصل کی گئی تھی اس کی لاج نہیں رکھی گئی آج ہم مسلمان ذات پات اور فرقوں میں بٹ چکے جس کا بہت زیادہ نقصان اسلام کو ہو رہا ہے۔