بھارتی فوجی محاصرے کا سال مکمل‘ کروڑ پتی کشمیری تاجر ریڑھی لگانے پر مجبور
سرینگر (بی بی سی) خوبصورت ڈل جھیل کے کنارے ایک پسماندہ بستی میں پلے بڑھے اعجاز احمد نے اپنے کزن کے ہمراہ کئی سال کی محنت کے بعد کشمیری دستکاریوں کی برآمد کا کاروبار شروع کیا تھا اور گذشتہ برس تک ان کا یہ بزنس ترقی کی نئی منازل چھو رہا تھا۔ انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالا میں ان کے شوروم کا نام ’یوفوریا آرٹس‘ رکھا گیا جہاں سوزن کاری، کشیدہ کاری، قالین اور دستکاری کے دیگر نمونے کشمیر سے تیار ہو کر کیرلا پہنچائے جاتے، جہاں اعجاز اور ان کے ساتھی یہ مال مقامی اور بین الاقوامی سطح پر فروخت کرتے۔ تاہم 5 اگست 2019 کی صبح، جب کشمیر کی بتدریج کمزور ہوتی خودمختاری کے خاتمے کا باضابطہ اعلان ہوا تو عوامی ردعمل کو دبانے کے لئے طویل قدغنوں اور بے مثال پابندیوں نے کئی ماہ کے لیے کشمیر میں ہر طرح کی تجارتی سرگرمی کو ٹھپ کر دیا اور اعجاز کا کاروبار بھی انہی بندشوں کے باعث متاثر ہوگیا۔ یوں پچھلے سال تک اپنا ایکسپورٹ کا بزنس چلانے والے اعجاز آج ڈل جھیل کے کنارے اپنے ہی گھر کے صحن میں اگائی سبزیاں بیچ کر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔’میں چھابڑی فروش نہیں ہوں، ہمارا سالانہ ٹرن اوور تین کروڑ روپے تھا!۔ لیکن اب شوروم اور فیکٹریاں بند ہیں اور لوگ گھروں میں بیٹھے فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں نے بھی سوچا کہ ایک شروعات کی جائے۔‘ تاجروں کی سب سے پرانی انجمن کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (کے سی سی آئی) نے گذشتہ ایک سال کے دوران کشمیر کی معیشت کو ہونے والے نقصان کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق کشمیریوں کو مجموعی طور پر 400 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ کے سی سی آئی کے صدر شیخ عاشق نے بی بی سی کو بتایا ’سیاحت سے جڑے 70 ہزار افراد بے روزگار ہوگئے اور یہی حال سبھی شعبوں کا ہے۔ ہم نے رپورٹ میں مستند اور محتاط اعدادوشمار شائع کئے ہیں جن کے مطابق کل ملا کر پانچ لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔‘ کشمیر میں بے روزگاری کے مسئلے کو روایتی معنوں میں نہیں لینا چاہیے۔ ’پڑھے لکھے نوجوانوں کے پاس سرکاری مواقع نہیں یا ان کے پاس تجارت کے وسائل نہیں، یہ الگ مسئلہ ہے، اس کو فی الحال رہنے دیجیے۔ ہمارے یہاں اس وقت سنگین مسئلہ یہ ہے کہ جس کے پاس نوکری تھی وہ چلی گئی، جس کی دکان ہے وہ بند ہے، کارخانہ اور فیکٹری ہے تو اس پر بھی تالا ہے۔ فوراً کچھ نہ کیا گیا تو لوگ سڑکوں پر آ جائیں گے۔‘