بدھ ‘ 21 ؍ ذوالحج 1441 ھ‘ 12؍ اگست 2020ء
مریم نواز کی نیب میں جلوس کے ساتھ پیشی
ایک وقت تھا لوگ تھانے کچہری میں پیشی کے موقع پر منہ چھپا کر جاتے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چلے ورنہ دوسروں پر کیا اثر پڑے گا۔ لوگ کیا سوچیں گے۔ رشتہ دار کیا کہیں گے مگر اب ایک نیا فیشن چل پڑا ہے۔ جسے دیکھو عدالت میں‘ نیب میں‘ ایف آئی اے یا ایف بی آر میں پیشی کا یوں اہتمام کرتا ہے گویا کوئی استقبالیہ تقریب ہو۔ ملزم ہو یا مجرم‘ ہاتھوں سے وکٹری کا نشان بنائے زندہ باد کے نعروں کی گونج میں اس کی انٹری ہوتی ہے۔ اس کی گاڑی کو پھولوں سے لاد دیا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی بارات چلی آرہی ہے۔ قانون کے خوف کی بجائے قانون کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ پیش ہونے والے افراد کے چہروں پر طنزیہ یا فاتحانہ مسکراہٹ اس بات کا اعلان کر رہی ہوتی ہے کہ ’’یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں‘‘ ۔ شاید یہ جانتے ہیں کہ انکے ہاتھ قانون سے زیادہ لمبے ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر جو صورتحال سامنے آئی بدمزگی ہوئی۔ اس کی وجہ بھی یہی جلوس کی صورت میں پیشی تھی۔ اس قسم کی صورتحال میں مشتعل افراد اور سکیورٹی حکام میں تصادم بھی ہوا جس کی وجہ سے سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں جب ہمیں اندرونی بیرونی سطح پر متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے‘ اس لئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نیب میں پیشی کے موقع پر تنہا جانے کا صائب فیصلہ کیا ہے۔
٭…٭…٭
سعودی عرب میں 66 فیصد نوجوان کنوارے ہیں
یہ ایک ایسے ملک کی حالت ہے جہاں دولت کی ریل پیل ہے مگر نوجوانوں کی بڑی تعداد کے کنوارے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں لڑکے کیلئے شادی بہت مہنگی ہوتی ہے۔ شادی سے پہلے لڑکے کو دلہن کیلئے علیحدہ گھر‘ زیورات‘ کپڑے‘ تحفے تحائف‘ گھریلو سامان اور گاڑی کا بندوبست خود کرنا ہوتا ہے۔اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد اس کے سہرے کے پھول کھلتے ہیں۔ اس لئے نوجوانوں کی جوانی اس تگ و دو میں گزر جاتی ہے۔ گرچہ وہاں حکومت کی طرف سے شادی کے خواہشمند نوجوانوں کو آسان شرائط پر قرضہ بھی دیا جاتا ہے۔ مگر قرضہ بھی تو بالآخر واپس کرنا ہی ہوتا ہے۔ یہ سسٹم ہمارے سماجی طور طریقوں سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارے ہاں تو لڑکی والوں کو سارا عذاب جھیلنا پڑتا ہے۔ کپڑا لتا‘ زیور‘ گھریلو سامان جہیز کی شکل میں لڑکی کو دینا پڑتا ہے۔ یوں لڑکے والوں کی موجیں ہوتی ہیں اور لڑکی والوں کا دیوالیہ ہو جاتا ہے۔ ہاں البتہ پٹھانوں میں بھی عربوں کی طرح شادی کا سارا خرچہ لڑکے کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے اس لئے انہیں بھی جوانی پیسہ جوڑنے پر صرف کرنی پڑتی ہے۔یہ رشتہ آسانی سے جوڑنا چاہئے نہ کہ رسوم و رواج کے نام پر اسے مشکل بنایا جائے۔ یورپ میں شادی کو آسان اور سادہ بنایا جا چکا ہے۔ حالانکہ یہ اسلام کا حکم ہے مگر ہم نے نکاح اور ولیمہ کی جگہ درجنوں مقامی اور غیر اسلامی رسوم و رواج کو لازمی بنا کر شادی جیسا آسان بندھن بھی مشکل بنا دیا ہے جس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں لڑکیاں جوانی کی دہلیز پار کر جاتی ہیں۔
٭…٭…٭
رام کے بعد گوتم بدھ کے بارے میں بھی نیپال اور بھارت میں ٹھن گئی
کوئی مانے یا نہ مانے اسکی مرضی مگر حقیقت یہی ہے کہ رام چندر جی اور گوتم بدھ دونوں کے بارے میں نیپالی مؤقف حقیقت کے قریب ہے۔ گوتم بدھ تو ہر حوالے سے نیپالی ہیں کیونکہ وہ کپل وستوکے شہزادے تھے۔ اب اگر بھارتی وزیر نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی سے انہیں زبردستی بھارتی قرار دینے پر تلے ہیں تو اس پر صرف ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ہاں البتہ گوتم بدھ کی موت گیا کے علاقے میں ہوئی جو بھارت میں ہے۔ شری رام چندر کی ایودھیا میں جائے پیدائش ہمیشہ سے متنازعہ رہی ہے۔ اب بھی جہاں بابری مسجد کو شہید کر کے بھارت حکومت نے رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا ہے وہ جگہ سیتا کی رسوئی یعنی باورچی خانہ کہلاتا تھا۔ اب یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہاں سیتامیا کی شادی سے پہلے ان کے میکے کا کچن تھا یا شادی کے بعد یہاں انہوں نے کچن بنایا۔ ویسے شادی کے بعد رام اور سیتا محل میں رہتے تھے کیونکہ رام جی ایک راجہ کے بیٹے تھے۔ جن دنوں رام اور سیتا، لکشمن کے ساتھ بن باس (جلا وطنی) کے دن گزار رہے تھے اس وقت بھی ان کا ایودھیا سے گزر یا قیام کہیں منقول نہیں۔ اس لیے رام مندر کی کہانی کچھ زیادہ حقیقی نہیں لگتی۔ رام جی کی قومیت پر نیپالی وزیر کے بیان کے بعد جو سوالات اٹھنے لگے ہیں نئے نہیں ہیں۔ خود بھارتی مورخین بھی اس بارے میں تذبذب کا شکار ہیں اور رام جی کی پیدائش کے مقام پر مختلف مؤقف رکھتے ہیں۔ اب دیکھتے رام جی بھارتی ثابت ہوتے ہیں یا نیپالی۔
٭…٭…٭
سینما کھلتے ہی فلم دیکھنے والے ٹکٹ کیلئے قطاروں میں لگ گئے
خدا کا شکر ہے کسی بہانے سے اس قوم کو لائن میں لگنے کی عادت تو پڑ گئی۔اس پر ’’شکریہ کرونا‘‘کہنے کو جی چاہتا ہے۔ چاہے لوگوں کو بُرا ہی کیوں نہ لگے۔ کرونا کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں کچھ اچھی باتیں بھی پنپنے لگی ہیں۔لوگ احتراماً نہیں کرونا کے خوف سے ایک دوسرے سے مودبانہ انداز میں دور کھڑے ہوکر بات کرنے لگے ہیں، اس طرح مکا اور تھپڑ مارنے کے امکانات بھی کم ہوگئے ہیں۔ لوگ باہر نکلتے ہوئے منہ ڈھانپنے لگے ہیں۔ خواتین میں بھی پردے کا یا چہرے ڈھانپنے کا چلن عام ہوا ہے۔ مرد حضرات بھی گردوغبار سے بچنے لگے ہیں۔اب اگر سینماگھروں اور بنکوں میں تسلی کے ساتھ لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرنے کی عادت بھی پختہ ہو جائے تو پوری قوم واقعی لائن میں لگنے کے فیوض و برکات سے مستفید ہو سکتی ہے۔ لائن میں لگنے کی سب سے زیادہ ضرورت ٹکٹوں کے حصول اور مسافروں گاڑیوں پر چڑھتے اترتے وقت محسوس ہوتی ہے۔ اگر ہماری قوم واقعی قطار بنانے کی عادی ہو گئی تو سمجھ لیں قوم نے ترقی کا ایک زینہ طے کر لیا۔ کرونا کو چھوڑیں‘ اگر ہم جانوروں سے ہی قطار بندی کا سبق سیکھ لیتے تو آج یہ جو جگہ جگہ بے ہنگم دھکم پیل دیکھنے کو ملتا ہے‘ اس سے کب کا نجات پا چکے ہوتے۔