عدالت عظمیٓ کا حکم نامہ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پیر کے روز تیز ہواں کے دوران بل بورڈزگرنے اوراس کے نتیجہ میں زخمی ہونے اور ہلاکتوں سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پرحکومت سندھ، کراچی کے میئر اور کے الیکٹرک کی زبردست سرزنش کی۔ سپریم کورٹ اس قبل بھی کراچی میں بڑے سائن بورڈاوربل بورڈ ہٹانے کا حکم دے چکی ہے جس پر خاصی حد تک عمل بھی کیا گیا لیکن پیسوں کی لالچ اور اثررسوخ نے ایک بار پھر شہر کو جہازی سائز کے اشتہاری جنگل میںتبدیل کردیا۔ حیرت انگیز طور پر بڑی بڑی دیواریں تعمیر کرنے کے علاوہ بلند عمارتوں کا چناؤکیا گیا۔ ملک کے تمام بڑے شہروں میں اور خاص طور پر کراچی میں بڑی سڑکوں اور شاہراہوں کے ساتھ ساتھ لگائے جانے والے جہازی سائز کے بل بورڈز سے اس سے قبل خطرات سامنے آچکے ہیں۔یہ بل بورڈ نہ صرف ڈرائیونگ کے دوران رکاوٹ بنتے ہیںبلکہ بڑے طوفان یا تیز ہوا کی صورت میں انتہائی خطرناک ہو جاتے ہیں اس سے قبل بھی کئی حادثات میں کئی جانیں جا چکی ہیں اور درجنوں افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود ان بورڈ کو ہٹانے یا ان کی تعداد کو کم کرنے کے لئے بہت کم کارروائی کی گئی ہے۔ ایک شکایت کنندہ نے کراچی کی سڑکوں کے ساتھ لگائے گئے بل بورڈز کے بارے میں ایف آئی آر درج کروائی تھی۔ بارش کے دوران ایک بل بورڈ گرنے سے دو موٹرسائیکل سوار زخمی ہوگئے تھے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ کے روبرو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون اجازت دیتا ہے؟ میٹروپول پر بورڈ گرا تھا یہ کیسے ہوا، اس کاکون ذمہ دار ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے موقف دیا کہ 2 افسران کو معطل کرکے مقدمہ درج ہوگیا ہے۔ایس ایس پی نے بتایا کہ 2 نامزد ملزمان اشرف موتی والا و دیگر کیخلاف مقدمہ درج کرلیا ہے انہیں تلاش کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وہ سمندر کے نیچے چلے گئے ہیں۔ جاؤ اور انکو آدھے گھنٹے میں ڈھونڈھ کر لاؤ۔ کمشنر کراچی نے کہا کہ لوگوں نے پرائیویٹ عمارتوں پر سائن بورڈز لگا رکھے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے عمارت کے چاروں طرف بل بورڈز اور سائن بورڈ لگا دئیے ہیں۔ کمشنر کراچی نے کہا کہ پچھلے 4 سالوں ہم نے سینکڑوں بل بورڈز اور سائن بورڈز ہٹائے۔ ایف ٹی سی پر ساری کھٹارا عمارتوں پر بل بورڈز لگے ہوئے ہیں چیف جسٹس عدالت نے ریمارکس دیئے میونسپل کمشنر صاحب کیسے اجازت دی جارہے ہے؟ عمارتوں پر بل بورڈز لگے ہیں یہ خطر ناک ہے، ان انسانی زندگیوں کو خطرہ ہے۔ ایف ٹی سی کے سامنے اطراف میں کتنے اشتہار لگے ہوئے ہیں۔ لوگ کیسے زندگی گزار رہے ہیں ان کی روشنی اور ہوا تک بند ہوگئی۔ شاہراہ فیصل پر عمارتیں دیکھیں اشتہار ہی اشتہار لگے ہیں۔ حکومت کا کام ہے کہ بلڈنگ پلان پر عمل کرائے۔ وزیر اعلی سندھ صرف ہیلی کاپٹر پر دورہ کرکہ آجاتے ہیں ہوتا کچھ نہیں ہے۔ پورے شہر میں کچرا گندگی ہے۔ لگتا ہے لوکل باڈی اور صوبائی حکومت کی اس شہر سے دشمنی ہے۔ مئیر کراچی کولوگوں نے ووٹ دیا تھا کہ کراچی کے لئے کچھ کرے گا۔ میئر کراچی کہتے ہیں میرے پاس اختیارات نہیں۔ اگر اختیارات نہیں تو گھر جا ئیںکیوں میئر بنے بیٹھے ہیں۔ بچے گٹر کے پانی میں روز ڈوب رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں پوری طرح عملدرآمد کیاجائے۔ سپریم کورٹ نے کراچی میں کئی کئی گھنٹوں کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا نوٹس لے کر اس پر بھی حکم نامہ جاری کیا۔ کرنٹ لگنے کے واقعات کا مقدمہ سی ای او کے الیکٹرک سمیت تمام حکام کیخلاف درج ہوگا۔ لوڈ شیڈنگ برداشت نہیں کی جائے گی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کے الیکٹرک لائسنس کی معطلی کا عندیہ دے دیا۔ چیئرمین نیپرا کا موقف تھاکہ ہمیں قانون نے کے الیکٹرک کے لائسنس کی تجدید نہ کرنے کا اختیار دے دیا ہے، کے الیکٹرک کو 20 کروڑ تک کا جرمانہ بھی کرسکتے ہیں۔ کرنٹ سے مرنے والوں کے تمام مقدمات میں سی ای او کے الیکٹرک کا نام شامل اور ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ کے الیکٹرک کے وکیل نے لوڈشیڈنگ کی وجہ بجلی چوری کو قراردیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب تک بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی، کراچی میں ایک منٹ بھی بجلی بند نہیں ہوگی، ہوگی تو آپ کے گھروں اور دفاتر کی ہوگی۔گذشتہ اور حالیہ بارشوں کے دوران کرنٹ لگنے سے دو درجن سے زائد افراد جاںبحق ہوئے ہیں۔
کے الیکٹرک کے سی ای او کا کہنا تھا کہ جولائی کے دوسرے ہفتے میں کراچی میں بجلی کی طلب میں تیزی آگئی اور یہ طلب 6300میگا واٹ تک پہنچ گئی تھی ۔کے ای صرف کراچی اور ہمسایہ شہروں میں بجلی کی پیداوار ، ترسیل اور فروخت کی ذمہ دارہے۔ نیشنل گرڈ اور بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کے علاوہ اپنے جنریشن پلانٹس اور بجلی کی پیداوارسے کے ای اپنے صارفین کو زیادہ سے زیادہ 3200میگاواٹ تک سپلائی کرسکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے بعد کراچی میں بجلی کی فراہمی، بلدیاتی امور، بل بورڈز کا مسلہء ، گندگی کے ڈھیر، سڑکوں اور گلیوں سے گٹر کی پانی کی نکاسی اور دیگر مسائل پر کس حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔