سائبر حملوں سے بچاؤ کی تدابیر
آج سے ایک دہائی پہلے تک جنگوں کا یہی فارمولا تھا کہ جنگیں میدانوں میں جنگی آلات سے لڑی جاتی تھیں پھر معاشی جنگوں کا آغاز ہوا جس میں عام آدمی کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کس ملک نے کس طرح سے اس پر حملہ کر دیا ہے اور کونسا ملک معیشت کے ذریعے اپنے کون کون سے ٹارگٹ پورے کر چکا ہے۔ اب گزشتہ تین برسوں سے ایک اور نئے جنگی فارمولے کا آغاز ہوچکا ہے جسے سائبر حملہ کہا جاتا ہے سائبر حملے کا شکار ملک اور کمپنیوں سے لیکر عام آدمی تک ہوتے ہیں یہ اتنے خاموش اور خطرناک حملے ہیں کہ حملے کا شکار ہونے والے کو بھی خبر تک نہیں ہوتی کہ اس پر سائبر اٹیک ہو چکا ہے۔آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان کے مطابق پاکستان کے مستعد اور فعال سکیورٹی اداروں نے گزشتہ ہفتے انڈیا کی طرف سے پاکستانی سول و عسکری اداروں کے عہدیداروں پر کئے گئے خطرناک سائبر حملے کا نہ صرف بروقت سراغ لگا لیا بلکہ اسے ناکام بنانے میں بھی کامیاب ہوگئے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس ادارے ہر محاذ پر ہر لمحہ نہ صرف چوکس ہیں بلکہ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ اس کے ساتھ ساتھ شدت سے ضرورت اس امر کی ہے کہ دشمن کے سائبر حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے ہمارے سکیورٹی اداروں نے جو ایس او پیز جاری کر رکھے ہیں ان پر سختی سے عمل درآمد کیا جاہے سرکاری اداروں کے پاس قبل ازیں یہ واضح ہدایات موجود تھیں کہ وہ سرکاری دستاویزات کی نقل وحمل بذریعہ واٹس ایپ کرنے سے گریز کریں اور سرکاری کاموں کے لیے واٹس ایپ کا استعمال کم سے کم کریں ان ہدایات کو کہیں پر فراموش کیا جاتا ہے جس سے دشمن کو ہمیں ٹارگٹ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔تمام بنک آئے دن اپنے صارفین کو سائبر کرائم سے محفوظ رکھنے کے لیے ہدایات جاری کرتے رہتے ہیں دوسال قبل بھی خبر آئی تھی کہ کراچی میں کسی اسلامی بنک سے سائبر اٹیک کے ذریعے 80 کڑوڑ روپے کی رقم چوری کر لی گئی ہے اس پر متاثرہ بنک نے تو کوئی بیان جاری نہیں کیا تھا اور اسے تکنیکی خرابی قرار دیا لیکن سٹیٹ بنک آف پاکستان نے اس کے بعد تمام بنکوں کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ اپنی پے منٹ کارڈ کی سکیورٹی کو یقینی بنایں۔مختلف ممالک پر سائبر حملے اب عام ممکنات کی بات ہیں دنیا بھر میں 2018 میں سائبر سکیورٹی پر 96 ارب ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں سعودی عرب میں باقاعدہ سائبر سکیورٹی ادارہ قایم کیا گیا ہے جہاں سرکاری اہلکاروں کو سائبر سکیورٹی کی ٹریننگ کرائی جاتی ہے سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہی ایس ٹی سی کے ایک تربیتی پروگرام میں صحافیوں کو بتایا گیا تھا کہ 2017 میں انٹرنیٹ پر سائبر حملوں میں 600 فی صد تک اضافہ ہوا ہے دنیا بھر میں اب تک انٹرنیٹ کی 54 فیصد کمپنیوں پر سائبر حملے ہو چکے ہیں اسی تربیتی پروگرام میں آگاہ کیا گیا تھا کہ 2021 تک انٹرنیٹ کے سائبر حملوں کے نقصانات کا تخمینہ 6 ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کا خدشہ ہے اور تین برسوں میں سائبر سکیورٹی کے حوالے سے ملازمتیں 3.5 ملین تک پہنچ جائیں گی ابھی سائبر سکیورٹی کی مد میں ملازمین کی فراہمی شدید کمی سے دوچار ہے کیونکہ اس کو سمجھنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے اور آئندہ برسوں کے دوران جی سی سی ممالک میں سائبر سکیورٹی مارکیٹ 8 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ سائبر حملوں میں بظاہر چین ایران برازیل کو ملوث قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ کوئی بین الاقوامی سازش بھی ہو سکتی ہے کیونکہ امریکہ اور انڈیا سے بھی مسلسل سائبر حملوں کے واقعات سامنے آتے ہیں۔مارچ 2018 میں ایک ایرانی کمپنی اور اس کے 10 افراد پر امریکہ نے پابندی عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے دنیا بھر میں 320 یونیورسٹیوں درجنوں کمپنیوں اور امریکی حکومت کی معلومات چرائی ہیں۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد امریکی داخلی سکیورٹی ادارے نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ایران اب سائبر حملے کر سکتا ہے اور گزشتہ برس 29 دسمبر کو سعودیہ پر ہوئے سائبر حملے کو بھی اس سے تشبیہ دی گئی تھی۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ سائبر حملوں کا شکار ملکوں اور کمپنیوں کیساتھ عام آدمی بھی ہو جاتے ہیں انٹرنیٹ کی انسانی زندگیوں پر مکمل گرفت ہوچکی ہے انسان کی ذاتی اور کاروباری زندگیوں سے لیکر اس کی نقل و حرکت تک ہر لمحہ انٹر نیٹ پر موجود اور محفوظ ہے جو اس کی ذرا سی لاپرواہی سے اسے تباہی کے دہانے تک لے جا سکتی ہے لاکھوں موبائل صارفین کو مختلف ایپ کے لالچ اور جال میں الجھا کر ہی ان کی تمام معلومات چوری کر کے لے جاتے ہیں۔ہمیں سرکاری اور عوامی سطح پر اسکی بھرپور آگاہی اور ٹریننگ کی سخت ضرورت ہے اور سرکاری سطح پر تو سکیورٹی اقدامات کے طور پر کسی بھی ایپ کو انسٹال کرنے سے پہلے سرکاری اجازت ضروری ہونی چاہیے کہ سرکاری ویب سائٹ اور ایپ کے علاوہ کسی بھی ایپ کو سرکاری موبائل لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر پر انسٹال کرنے سے مکمل اجتناب کیا جائے۔