• news
  • image

اسلام کے عظیم سپہ سالار جنرل محمد ضیاء الحق شہید

کسی بھی قائد کی سب سے بڑی خوبی اور سب سے بڑا وصف بلکہ اس کی قیادت کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ مردہ سے مردہ قوم میں روح پھونک کر انہیں نئے عزم اور ولولے سے ہمکنار کرکے انہیں قوموں کی برادری میں نمایاں مقام پر لاکھڑا کرتا ہے ۔اس خوبی ،اس کے وصف اور اس کمال کا تاریخ یوں اعتراف کرتی ہے کہ اسے اپنے اوراق میں ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید بنادیتی ہے ۔ایسا شخص ہمیشہ قوم کے حافظے میں زندہ و تابندہ رہتا ہے ۔جنرل محمد ضیاء الحق کا شمار بھی ایسے ہی اسلام کے عظیم سپہ سالاروں میں ہوتا ہے جن کا ذکر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں بڑے احترام سے لیاجاتا ہے ۔ مخالفین انہیں ایک آمر اور جمہوریت کے’’ قاتل ‘‘کی حیثیت سے جانتے ہیں لیکن صرف میرے ہی نہیں کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں میں آج بھی ضیاء الحق پہلے کی طرح کی زندہ و تابندہ ہیں۔جب ضیاء الحق برسراقتدار آئے تو اس وقت سوائے پیپلز پارٹی کے باقی تمام جماعتیں ذوالفقار علی بھٹو کی تاریخ ساز دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج تھیں ۔یہ وہ حالات تھے، جب پیپلز پارٹی کے بانی افراد بھی بھٹو کے ظلم و ستم سے تنگ تھے ،اس کا اندازہ مولانا کوثر نیاز ی کی اس بات سے لگایاجا سکتاہے ۔جنہوں نے بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد کہاتھا "بہت دیر کی مہربان آتے آتے"۔یہ اس بات کا ثبوت تھاکہ بھٹو نے نہ صرف عوام ، مخالف سیاسی جماعتوں کا ناطقہ بند کررکھا تھا بلکہ جے اے رحیم ، مولانا کوثر نیازی افتخار تاری، سمیت کتنے ہی سرکردہ افراد براہ راست بھٹو کے ظلم و ستم کا شکار تھے ۔ ان بدترین حالات میں جب بھٹو کے حکم پر فوج نے عوام پر براہ راست گولیاں چلانے سے یہ کہتے ہوئے انکا ر کردیا کہ پاک فوج عوام کے تحفظ کے لیے ہے ، ان پر گولیاں چلانے کے لیے نہیں ہے۔ اگر جنرل ضیاء الحق بھٹو کا تختہ نہ الٹتے تو کوئی نیچے بھی آسکتا تھا۔بہرکیف جنرل ضیاء الحق نے جب اقتدار سنبھالا توانہیں تین مختلف چیلنجوں کا سامنا تھا۔ بھٹو کے وفادار جیالے بدلہ لینے کے لیے تخریب کاریوں میں مصروف عمل تھے ، دوسری جانب سوویت یونین (جسے اس وقت سفید ریچھ کہاجاتاتھا) نے بحیرہ عرب کے گرم سمند ر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے افغانستان پر فوجی یلغار کردی تھی۔اس کے دماغ میں یہ فتورخاصا مستحکم تھا کہ پاکستان ، سوویت یونین کی فوجی طاقت کے سامنے چند گھنٹے بھی کھڑا نہیں ہوسکتا ۔جنرل ضیاء الحق کے لیے تیسری پریشانی یہ تھی کہ بھارتی فوج پاکستانی سرحدوں پر حملہ کرنے کے لیے اشارے کی منتظر تھی ۔ جبکہ چند ضمیرفروش سیاست دان روسی ٹینکوں کا استقبال کرنے کے لیے بے چین تھے ، یہ وہ لمحات تھے جوجنرل محمد ضیاء الحق اور پاکستانی فوج کا امتحان ثابت ہورہے تھے ۔بے شک قیادت کا امتحان ایسے ہی مشکل ترین حالات میں ہوتا ہے ۔مختصر بتاتا چلوں کہ ایوان صدر میں سوویت یونین کا سفیر ملنے آیا اس نے ضیاء الحق کو دھمکی آمیز لہجے میں کہا آپ ہمارے راستے کی دیوار نہ بنیں ،ورنہ ہم آپ کو یہاں بیٹھے بٹھائے راکھ کا ڈھیر بناسکتے ہیں ۔ضیاء الحق خاموشی سے سنتے رہے جب سفیر کو الوداع کہنے کے لیے دروازے تک آئے تو انہوںنے کہا مسٹر ایمیسیڈرمیں یہی بیٹھا ہوں تم اپنے میزائل چلاؤ۔پھر اس عظمت و استقلال کے پیکر اس سپہ سالار نے پاکستان کے بقا ء کی جنگ افغانستان میں لڑنے کا نہ صرف مشکل ترین فیصلہ کیا بلکہ اپنی بہترین حکمت عملی کے نتیجے میں سوویت یونین کی حکومت اور فوج کو چاروں شانے چت کردیا ۔پھروہ لمحہ بھی آپہنچا جب سوویت فوجیں افغانستان سے بحفاظت نکلنے کے لیے منتیں کررہی تھیں۔ اس شکست کے نتیجے میں چھ آزاد اسلامی ریاستیں وجود میں آئیں ۔ انہی ایام میں بھارت، پیپلز پارٹی اور جی ایم سید کی حمایت سے صوبہ سندھ کو پاکستان سے الگ کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا تھا، اس نازک موقع پر ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے تمام منصوبوں اور چالوں کو ناکام بنادیا۔میں اسے طارق بن زیاد لکھوں یا سلطان صلاح الدین ایوبی ۔مجھے تو ان دونوں عظیم مسلم ہیروز کی خوبیاں ضیا ء الحق میں دکھائی دیتی ہیں ۔یہ وہی ضیاء الحق ہے جن کو بطورخاص روضہ رسول ؐکے اندر لیجایا گیا۔ضیاء الحق واپسی جدہ پہنچنے تک مسلسل آنسو بہارہے تھے۔17اگست1988ء کو تین بج کرپچاس منٹ پر دریائے ستلج کے کنارے بستی لال کمال کے قریب جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنے ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کیا۔گیارہ سال تک صدر پاکستان کے منصب پر فائزرہنے والے شخص کے نام پر نہ تو فرانس میں سینکڑوں ایکڑ کا "سرے محل " نکلا، نہ لندن کے مہنگے علاقے میں قیمتی فلیٹ نظر آیا اور نہ تین کہیں دکھائی دیا ۔شہید کی جیب سے قرآن پاک ملا جس کی وہ اکثر تلاوت کیا کرتاتھا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن