توشہ خانہ ریفرنس: زرداری چھڑی پکڑ کر عدالت پیش، سابق صدر، یوسف گیلانی پر 9 ستمبر کو فرد جرم لگے گی
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری کو فرد جرم کے لیے 9 ستمبر کو طلب کرلیا۔ عدالت نے کہا آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی پر 9 ستمبر کو فرد جرم عائد ہوگی۔ احتساب عدالت کے جج اصغر علی کی عدالت میں زیر سماعت توشہ خانہ ریفرنس میں فردجرم موخر کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے کارروائی ملتوی کرنے کی استدعا کیلئے دائر درخواست پر سماعت ملتوی کردی اور ملزمان کو 20،20 لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ سابق صدر آصف زرداری عدالت پیش ہوئے۔ اس موقع پر سخت سکیورٹی اقدامات کیے گئے۔ جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف خاردار تار لگا کرآمد ورفت کے راستے بند کردیے گئے اور غیر متعلقہ افراد کے داخلہ پر مکمل ہابندی لگا دی گئی۔ جس سے وکلا، عدالتی عملہ اور ملزمان کے علاوہ میڈیا کو بھی سخت مشکلات کا سامنا کرناپڑا۔ قبل ازیں عدالتی عملہ نے سابق صدر کے وکلا کو آصف زرداری کو بلانے کیلئے کہا، جن کی آمد کے بعد سماعت شروع کی گئی۔ سماعت شروع ہونے سے قبل بلاول نے پارٹی رہنمائوں سے کمرہ عدالت کے باہر جانے اور رش کم کرنے کا بولا جس پر راجہ پرویز اشرف، مصطفی نواز کھوکھر اور دیگر کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے۔ وکلا صفائی نے عدالت آمد کے دوران رکاوٹوں اور ناکوں پر روکنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ ہم 7 ناکوں سے گزر کر پہنچے۔ اسلام آباد انتظامیہ نے وکلا اور ملزموں کو عدالت میں داخلے سے روکا۔ میں سینئر کونسل ہوں مجھے بھی عدالت میں داخل نہیں ہونے دے رہے تھے، یہ ملٹری کورٹ نہیں، نہ ہی ان کیمرا ٹرائل ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ احتساب عدالت میں داخل ہونے سے روکا جارہا ہے۔ بیرسٹر تصدق حنیف نے کہاکہ میں سپریم کورٹ کا سینئر وکیل ہوں اور مجھے پولیس نے شیلڈ سے دھکا دیا گیا۔ ایک ملزم کو بھی عدالت آنے سے روک دیا گیا ہے۔ فاروق نائیک نے کہاکہ آصف زرداری بیمار ہیں عدالت بھری ہوئی ہے اگر انکو کرونا ہوگیا تو کون ذمہ دار ہے؟۔ اس دوران جج کے استفسار پر سابق صدر آصف علی زرداری روسٹرم پر آگئے اور سلام کرکے واپس سیٹ پر بیٹھ گئے۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر نے کہا کہ توشہ خانہ ریفرنس کی کارروائی آگے بڑھائیں۔ نیب ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی اور ملزمان کے وکلا میں سخت تلخ کلامی ہوگئی، نیب پراسیکیوٹر اور وکیل صفائی نے ایک دوسرے کو شٹ اپ کہہ دیا اور سخت تلخ کلامی ہوئی جس پر عدالت اور دیگر وکلا نے معاملہ ٹھنڈا کرایا۔ معاون وکیل نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا کہ یہاں میڈیا کو سنانے کیلئے باتیں نہ کریں، پہلے معافی مانگنی پڑے گی پھر آگے چلا جائے گا۔ بار بار کہا جارہا ہے کیس چلایا جائے کیس چلایا جائے، ہم باہر کھڑے رہیں گے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اگر کیس چلانا چاہتے ہیں تو پہلے اس پر فیصلہ کرنا ہوگا کہ وکلا آپ کی عدالت میں آ سکتے ہیں، جس پر جج نے کہا کہ اس کا بھی کچھ کریں گے پہلے ملزموں کی حاضری لگا لیتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی سمیت 2ملزموں کو حاضری سے استثنی دیا ہوا ہے۔ نواز شریف کے وکیل نے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دیتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت کے حکم نامے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ وکلا صفائی نے ریفرنس کی کاپیاں نہ ملنے کا کہا جس پر عدالت نے کاپیاں فراہم کرنے کی ہدایت کی، فاضل عدالت کے جج اصغر علی نے وکلا صفائی سے کہاکہ مجھے بھی عدالت پہنچنے میں مشکلات پیش آئیں۔ مجھے بھی پولیس چیک پوسٹ پر روکا گیا اور یوٹرن لے کر دوسرے راستے سے آیا۔ چھ جگہوں پر تو ناکے لگائے ہوئے تھے۔ موٹروے پولیس کے آفس کے راستے عقبی راستے سے عدالت پہنچا۔ ہمیں آپ سے ہمدردی ہے۔ میں اس معاملے کو انتظامیہ کے ساتھ اٹھائوں گا تاکہ آئندہ ایسی صورتحال نہ ہو۔
اسلام آباد (قاضی بلال) احتساب عدالت کے جج اصغر علی نے توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کی۔ آصف علی زرداری ہاتھ میں چھڑی لے کر احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔ ان کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے فون کر کے سابق صدر کو پیش ہونے کیلئے بلایا۔ سابق صدر نے کرونا وائرس سے بچنے کیلئے فیس شیلڈ، ماسک اور دستانے پہن رکھے تھے جبکہ ان کی بیٹی آصفہ نے ان کا ہاتھ پکڑ ہوا تھا۔ احتساب عدالت کے اردگرد کے 500 میٹر کے علاقے کو سیل کیا گیا، اسلام آباد پولیس کے ایک ہزار اہلکار سکیورٹی ڈیوٹی پر مامور کئے گئے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو سری نگر ہائی وے پر روکا گیا، جہاں پر پیپلز پارٹی کارکنوں اور پولیس کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ پولیس نے پارٹی رہنما فرحت اللہ بابر، ارکان قومی اسمبلی نوابزادہ افتخار اور فوزیہ سومرو کو نیب آفس جانے سے روک دیا ہے۔ سینیٹر روبینہ خالد، نرگس فیض ملک، شاہین ڈار، ہدایت اللہ خان نیب عدالت کے باہر موجود تھے۔