ڈیفالٹ کا خدشہ تھا، اچھا وقت شروع، بہتری نظر آئیگی: وفاقی وزرا
اسلام آ باد (وقائع نگار خصوصی) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز، وفاقی وزیر اقتصادیات حماد اظہر، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر، مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور معاون خصوصی برائے تخفیف غربت ثانیہ نشتر نے پی ٹی آئی حکومت کے 2 سال مکمل ہونے پر کارکردگی کی رپورٹ جاری کر دی ہے اور کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کو ختم کرکے درست اور غلط کی سیاست شروع کی ہے۔ سیاست کا مقصد فلاحی ریاست کا قیام ہے۔ انہوں نے پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کی بھارت کی پالیسی کو ناکام بنایا۔ کشمیر کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا پاکستان، اسے عمران خان کی حکومت میں بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا گیا۔ ایک سال میں 3 مرتبہ سلامتی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ زیر بحث لانا ہماری بڑی کامیابی ہے۔ دو سال قبل ہمیں مختلف چیلنجز کا سامنا رہا اور معیشت کی بہتری ہماری اولین ترجیح تھی۔ حکومت کی کوشش تھی دیہاڑی دار اور مستحق افراد کوریلیف دیا جائے۔ دو سال میں 28 قوانین بنائے گئے جب کہ 39 صدارتی آرڈیننس جاری ہوئے۔ وزیراعظم آفس سے کوئی ریڈ لیٹر وزارت کو موصول نہیں ہوا۔ وزارت قانون نے وفاقی حکومت سے متعلقہ9ہزار 450 مقدمات کی مختلف عدالتوں میں پیروی کی، 814سپریم کورٹ، 6 ہزار 79 ہائیکورٹس اور دیگر کیسز دوسری عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ وزیراعظم نے 2سال میں بالاکوٹ، بھارت، کرونا اورکمزور معیشت جیسے چیلنجز کا سامنا کیا۔ احساس کفالت پروگرام کے تحت 70لاکھ مستحقین کو ماہانہ وظیفہ دیا جا رہا ہے۔ بلاسود قرضے دینے کا منصوبہ متعارف کرایا گیا۔ احساس لنگر خانوں پرتوجہ دی گئی۔ انہوں نے یہ بات منگل کو پی ٹی آئی کی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وفاقی وزرا، مشیر خزانہ اور معاون خصوصی نے کہا ہے کہ ہم نے’’اسلامو فوبیا ‘‘کے حوالے سے مسلمان ملکوں میں انڈرسٹینڈنگ کی کوشش کی ہے۔ دنیا نے افغانستان کا فوجی حل تلاش کرنے کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کر ڈالے، ساری دنیا نے ہمارے نقطہ نظر کو تسلیم کیا ہے اور افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی معترف ہے۔ حکومت آئی تو کمزور معیشت کو سہارا دینا تھا اور ہم نے مشکل حالات میں بڑے فیصلے کیے، ہمیں ماضی کے قرضوں کا بوجھ بھی ہلکا کرنا پڑا ۔اس موڑ تک پہنچ گئے جہاں سے ہمارا اچھا وقت شروع ہوگیا ہے۔ اپنی کامیابیوں کو دیکھنے کے لیے دائمی حریف کے اغراض و مقاصد اور اپنی کوششوں کو دیکھنا ہوگا۔ چین ہمارا آزمایا ہوا دوست ہے جس کے ساتھ ہمارے سٹرٹیجک شراکت داری رہی ہے، ہمیں دیکھنا ہے کہ پاکستان اور چین کے دیرینہ تعلقات کو مزید مستحکم کس طرح کیا جائے، اس کی ایک زندہ مثال سی پیک ٹو ہے، یورپی یونین بھی پاکستان کا ایک بہت بڑا تجارتی شراکت دار ہے جس کے ساتھ نیا سٹرٹیجک منصوبہ طے پایا۔ حکومت نے ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے مراعات دیں، اڑھائی سو ارب روپے کرونا متاثرین میں تقسیم کئے گئے، ملک سے سمگل شدہ فون ختم کیے گئے، دو سال میں سیمنٹ کی سیل 41فیصد بڑھی ہے، حکومت نے امپورٹ کو کم اور ایکسپورٹ پر زیادہ توجہ دی، دو سال قبل ہمیں مختلف چیلنجز کا سامنا رہا اور معیشت کی بہتری ہماری اولین ترجیح تھی۔ حکومت کی کوشش تھی دیہاڑی دار اور مستحق افراد کو ریلیف دیا جائے، بل گیٹس نے پاکستان اور بھارت کا کرونا کیسز سے متعلق موازنہ کیا۔ کرونا سے نمٹنے کیلیے پاکستان کی حکمت عملی کی تعریف کی گئی۔ ایران میں کرونا سے پاکستان کی نسبت 20فیصد زائد اموات ہوئیں۔ وفاقی وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز کہا کہ عمران خان نے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کو ختم کرکے درست اور غلط کی سیاست شروع کی یہی بیانیہ ہم لے کر چل رہے ہیں کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست کا مقصد فلاحی ریاست کا قیام ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے بنیادی مقاصد کو اپنا ہدف بنائیں، ہم وہ ریاست بنائیں جس میں عوام کی خدمت پہلی ترجیح ہو۔ عمران خان ایک غریب پرور شخص ہیں جن کی یہ سوچ ہے کہ ملک کو کس طرح آگے لے جایا جائے اور کس طرح ملک کو فلاحی ریاست بنایا جاسکے اور 2018 میں ہماری حکومت بننے کے بعد ان اہداف کا حصول ممکن ہوا جبکہ ہماری تمام پالیسیاں بھی اسی سوچ کے گرد گھومتی ہیں۔ عوام کے مفادات پر اپنے مفاد کو ترجیح دے کر سیاست کو پیشہ بنادیا گیا تھا جسے عوام نے مسترد کردیا ہے۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ وزارت اطلاعات کے تناظر میں ہمارا چیلنج صرف یہ نہیں کہ حکومت کی کامیابیوں کی تشہیر کی جائے بلکہ ہمیں اندرونی اور بیرونی محاذ پر لڑنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ففتھ جنریشن وار چل رہی ہے دشمن ہمیں ہر طرح کا نقصان پہنچانا چاہے ہیں، ہماری معیشت تباہ کرنا، ملک میں ناامیدی پھیلانا چاہتا ہے جس سے نمٹنے کے لیے وزارت اطلاعات عمران خان کی قیادت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ یہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے جس میں ہر پاکستانی صحافی بن گیا ہے اب ہمیں یہ جنگ پورے ملک کی سطح پر لڑنی ہے جس میں ہر پاکستانی شریک ہوگا جس میں ہم کامیاب ہوں گے۔ فاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ اپوزیشن کے دوستوں کے لیے بری خبر یہ ہے کہ کپتان کریز پر سیٹل ہوگئے ہیں، اب ایک لمبی اور پروڈکٹو اننگز کھیلنے کے لیے تیار ہیں اور پاکستان کو آگے مزید بہتری کے دن نظر آئیں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے کہا کہ اپنی کامیابیوں کو دیکھنے کے لیے دائمی حریف کے اغراض و مقاصد اور اپنی کوششوں کو دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی پالیسی رہی ہے کہ پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار کیا جائے اور ہماری کوشش یہ تھی کہ پاکستان کی مثر نمائندگی کریں کیوں کہ گزشتہ ادواروں کے دوران ایک عرصے وزیر خارجہ ہی موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے نبہت سے فورم پر ہمارا نقطہ نظر پیش ہی نہیں ہوپا تھا۔ لہذا ہماری کوشش تھی کہ ہمارے دیرینہ تعلقات اور دوستیوں کو نئی جہت دی جائے اور نئے سمجھوتوں کو فروغ دیں جس کی وجہ سے بھارت کی پاکستان کو تنہا کرنے کی پالیسی میں ناکامی ہوئی اور پاکستان کامیاب رہا اور جنوبی ایشیا کی تمام رکن ممالک بھارت کے توسیع پسندانہ ڈیزائنز پر معترض ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تو کہتا ہی تھا لیکن آج چین بھارت کے توسیع پسندانہ منصوبوں پر سوال اٹھارہا ہے اور لداخ میں جو ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے، اسی طرح نیپال کی پارلیمان سے منظور ہونے والی قراردادیں آپ کے سامنے ہیں، بنگلہ دیش جسے بھارتی کیمپ کا تصور کیا جاتا تھا لیکن جب سے شہریت قانون آیا وہاں ایک سرد مہری دکھائی دے رہی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ چین ہمارا آزمایا ہوا دوست ہے جس کے ساتھ ہمارے سٹرٹیجک شراکت داری رہی ہے لیکن ہم نے کوشش کی کہ ان سٹرٹیجک شراکت داری کو معاشی شراکت داری میں تبدیل کیا جائے کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں ہمارا مشترکہ مقصد ہے انہوں نے کہا کہ دنیا بدل رہی ہے جس میں ہمیں دیکھنا ہے کہ پاکستان اور چین کے دیرینہ تعلقات کو مزید مستحکم کس طرح کیا جائے اور اس کی ایک زندہ مثال سی پیک 2 ہے جس میں ہم نے واضح اہداف متعین کیے ہیں جس میں صنعتی انقلاب، زرعی پیدوار میں فروغ، تخفیف غربت اور انسانی وسائل کی ترقی شامل ہے۔ اسی طرح ترکی کے ساتھ بھی پاکستان کے بہت اچھے تعلقات ہیں جہاں وزیراعظم کے دورے کے موقع پر نیا معاشی اور مالیاتی فریم ورک تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا جس کے تحت تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے اور وہ اب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپی یونین پاکستان کا ایک بہت بڑا تجارتی شراکت دار ہے جس کے ساتھ نیا اسٹریٹیجک منصوبہ طے پایا، علاوہ ازیں افریقہ پر ہماری توجہ نہیں تھی لیکن تعلقات بہت اچھے تھے چنانچہ ہم نے وہاں تجارت اور معاشی سرگرمیاں بڑھانے کی منصوبہ بندی کی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے پوری ترقی پذیر دنیا کے لیے قرضوں میں ریلیف کا خیال پیش کیا جس پر جی 20 نے کچھ اقدامات کیے اور نیویارک میں ایک پارٹنر شپ تشکیل دی گئی تاکہ ہم مالی سپیس کے لیے سمجھوتوں کو مزید فروغ دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کوشش کی کہ اسلامو فوبیا کے حوالے سے مسلمان ملکوں میں انڈراسٹینڈنگ کی جائے تا کہ تمام مسلمان ممالک ایک ساتھ مل کر اسلامو فوبیا کا مقابلہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا نے افغانستان کا فوجی حل تلاش کرنے کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کر ڈالے لیکن وزیراعظم مسلسل کہتے رہے کہ افغانستان کا صرف سیاسی حل ممکن ہے بالآخر دنیا قائل ہوئی اور آج ساری دنیا ہمارے نقطہ نظر کو تسلیم اور افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی معترف ہے اور ہم پر امید ہیں کہ بین الافغان مذاکرات کا جلد آغاز ہوگا جس سے امن کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا پاکستان لیکن اسے عمران خان کی حکومت میں اسے بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا گیا اور آج کوئی ایسا بین الاقوامی فورم یا موقع نہیں جسے ہم نے کشمیریوں اور پاکستان کے نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال نہ کیا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سال میں 3 مرتبہ سلامتی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ زیر بحث آیا اور اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر نے کشمیر پر 2 رپورٹس شائع کیں جس میں بھارت کو بے نقاب کیا گیا ہے، او آئی سی کے 4 اجلاس ہوئے جس میں کشمیر کے مسئلے پر بات ہوئی۔ مشیز خزانہ حفیظ شیخ نے وزارت خزانہ کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آئی تو کمزور معیشت کوسہارا دینا تھا اور ہم نے مشکل حالات میں بڑے فیصلے کیے۔ ہمیں ماضی کے قرضوں کا بوجھ بھی ہلکا کرنا پڑا۔ حکومت نے ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے مراعات دیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار حکومت نے اخراجات میں کمی کی۔ حکومت رواں سال کوئی سپلمنٹری گرانٹ کسی وزارت کو نہیں دی۔ 20 ارب کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ تھا اورڈیفالٹ کا خدشہ تھا لیکن عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک نے مدد کی۔ بیرونی خسارے کو 20 ارب ڈالر سے کم کر کے 3 ارب ڈالر پر لایا گیا۔ کابینہ کی تنخواہیں کم کی گئی اور فوج نے اخراجات کو منجمد کیا۔ مشیر خزانہ نے بتایا کہ وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات کو کم کیا گیا۔ حکومت نے ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے مراعات دیں۔ ٹیکس نظام میں بہتری کے لیے حکومت نے بہترین کام کیے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈھائی سو ارب روپے کورونامتاثرین میں تقسیم ہوئے۔ حکومت نے بلاتعصب ایک کروڑ 60لاکھ پاکستانیوں کوامداد دی۔ دو سال کے دوران حکومت نے 5ہزار ارب روپے کے قرضے واپس کیے اور زراعت کیلیے 280ارب روپے کا پیکج دیا۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے بتایا کہ حکومت نے کورونا صورتحال میں بھی ادویات کی ترسیل کا سلسلہ جاری رکھا، ٹیکسز کی شرح کوکم کیاگیا۔ تعمیراتی شعبے کے لیے پیکج دیا، کفایت شعار پالیسی کے تحت کچھ اداروں کو مختلف اداروں میں ضم کیاگیا، ہم نے پاکستان اسٹیل مل سے متعلق اقدام کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ملک سے اسمگل شدہ فون ختم کیے گئے، دو سال میں سیمنٹ کی سیل 41فیصد بڑھی ہے اور اس وقت ایکسپورٹ گروتھ 6فیصد ہے۔ حکومت نے امپورٹ کو کم اور ایکسپورٹ پر زیادہ توجہ دی۔ کورونا وائرس کے دوران کاروباری شعبے کو حکومت نے ریلیف دیا اور چھوٹے کاروباروں کے 3 ماہ کے بجلی کے بل معاف کیے گئے۔ ود ہولڈنگ ٹیکس میں کمی لائی گئی۔ الیکٹرک وہیکل اور موبائل مینوفیکچرنگ کی پالیسی بنائی گئی۔ وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے بتایا کہ دو سال قبل ہمیں مختلف چیلنجز کا سامنا رہا اور معیشت کی بہتری ہماری اولین ترجیح تھی۔ حکومت کی کوشش تھی دیہاڑی دار اورمستحق افراد کوریلیف دیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے معیشت کودھچکہ لگا۔ بل گیٹس نے پاکستان اور بھارت کا کورونا کیسز سے متعلق موازنہ کیا۔ کورونا سے نمٹنے کیلیے پاکستان کی حکمت عملی کی تعریف کی گئی۔ اسمارٹ لاک ڈاون کی حکمت عملی کی دنیابھرمیں تعریف کی گئی، ایران میں کورونا سے پاکستان کی نسبت 20فیصد اموات ہوئیں۔ اسد عمر نے کہا کہ پاکستان کی کامیاب پالیسیوں کے باعث کرونا پرقابو پایا گیا۔ ہم نے کرونا سے نمٹنے کیلیے بروقت فیصلے کیے۔ حکومت کی کوشش تھی دیہاڑی دار اورمستحق افراد کوریلیف دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ملکی مفاد کیلیے ساتھ چلنے کی بات کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے 2سال میں بالاکوٹ، بھارت، کرونا اورکمزور معیشت جیسے چیلنجزکا سامنا کیا۔ معاون خصوصی ثانیہ نشتر نے بتایا کہ احساس کفالت پروگرام بہترین منصوبہ تھا جس کی 15 ماہ پہل یمنظوری ہوئی۔ احساس کفالت پروگرام کے تحت شفاف طریقے سے مالی امداد تقسیم کی ہوئی۔ ثانیہ نشتر نے بتایا کہ احساس کفالت پروگرام کے تحت 70لاکھ مستحقین کوماہانہ وظیفہ دیا جا رہا ہے۔ بلاسود قرضے دینے کامنصوبہ متعارف کرایا گیا۔ احساس لنگر خانوں پرتوجہ دی گئی اور احساس اسکالرشپس پروگرام متعارف کرایا گیا۔ احساس ایمرجنسی کیش پروگرام شفاف طریقے سے جاری رہا۔ سندھ کو آبادی کے تناسب سے ترجیح دی گئی۔ کارکردگی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق دو سال میں 28 ایکٹس بنے اور 39 آرڈیننس جاری ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم آفس سے کوئی ریڈ لیٹر وزارت کو موصول نہیں ہوا۔ ای آفس نامی سافٹ ویئر تیار ہے لیکن فنڈزکی عدم دستیابی کے باعث کمپیوٹرز دستیاب نہیں۔ گزشتہ دو سال کے دوران وزارت قانون نے وفاقی حکومت سے متعلقہ9ہزار 450 مقدمات کی مختلف عدالتوں میں پیروی کی۔ 814سپریم کورٹ، 6 ہزار 79 ہائیکورٹس اور دیگر کیسز دوسری عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ انتظامی ٹربیونلز اور خصوصی عدالتوں میں ججز تعینات کیے گئے۔ مختلف وزارتوں اور محکموں کو 600 مختلف امور پر قانونی رائے فراہم کی۔ مختلف اداروں کے رولز کے جائزہ کیلیے 4 ہزار 699 درخواستیں نمٹائی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق ڈرافٹنگ ونگ کو پارلیمان سے 345 پرائیوٹ ممبر بل جائزے کیلیے موصول ہوئے۔ ملک بھر میں نئی خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ دو سال میں 641 بین الاقوامی معاہدے اور یادداشتوں کا جائزہ لیا گیا جب کہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کی توسیع کا کام بھی جاری ہے۔وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ساتھ ہی ہم نے دفتر خارجہ میں کچھ ادارہ جاتی اصلاحات کی ہیں جن میں وزیر خارجہ ایڈوائزری کونسل، اس کا مقصد تھنک ٹیکنکس سے تازہ ان پٹ حاصل کیا جائے اور تجربہ کار سفارتکاروں کو بھی اس سے منسلک کیا جائے۔اس کے ساتھ 24/7 کرائسس منیجمنٹ سیل بنایا گیا جس کے تحت وزارت سمندر پار پاکستانی اور این سی او سی کے تعاون سے 478 پروازوں کے ذریعے 2 لاکھ 14 ہزار پاکستانی جو بیرونِ ملک پھنسے ہوئے تھے انہیں واپس لایا گیا۔علاوہ ازیں پبلک ڈپلومیسی شروع کی گئی جس کے تحت 79 ممالک میں 86 پاکستانیوں کو اعزازات سے نوازا گیا جنہوں نے کووِڈ 19 کے دوران ان معاشروں میں اپنی خدمات پیش کیں اور پاکستان کی ساکھ کو بہتر بنایا، دفتر خارجہ میں اسٹریٹیجک کمیونیکیشن ڈویڑن بھی بنایا گیا ہے تا کہ پاکستان کے بیانیے کی ترویج دی جائے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ دنیا کے غیر جانبدار لوگ ان اقدامات کی تعریف کررہے ہیں، موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ مستحکم کی، آئی ایم ایف کے بورڈ نے اسے سراہا دنیا کے سرمایہ کاروں نے غیر ملکی سرمایہ کاری میں 188 فیصد اضافہ کیا، اسٹاک مارکیٹ میں 4 فیصد اضافہ ہوا اور بلوم برگ نے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کو دنیا کی بہتری سٹاک مارکیٹ میں شامل کیا۔ انہوں نے کہا ہم نے بجٹ میں کوئی ٹیکس نہیں لگایا ہزاروں خام اشیاء پر درآمدی ٹیکس صفر کردیا اور کہا کہ ملک کی معیشت کو عالمی معیشت سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ مشیر خزانہ نے بتایا کہ مالی سال کے پہلے ماہ میں برآمد میں 6 فیصد اضافہ ہوا، سیمنٹ کی فروخت میں 33 فیصد، برآمدات میں 66 فیصد اضافہ ہوا، پیٹرول کی فروخت میں 8 فیصد، ڈیزل 15 فیصد، کھاد 22 فیصد، موٹر سائیکلوں کی فروخت 31، ٹریکٹرز 17 فیصد، گاڑیوں کی فروخت 4 فیصد بڑھی۔اس کے ساتھ جون میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ ترسیلات زر موصول ہوئے جو 2.8 ارب ڈالر تھے، ایف بی آر کی کلیکشن 300 ارب روپے رہی جو ان کے خود کے تخمینے سے 23 گنا زیادہ تھی اور کرونا وائرس کے بعد سٹاک مارکیٹ میں 40 فیصد ہوا۔ مشیر خزانہ نے کہا ان سب اشاریوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں، عمران خان کی حکومت کی سب سے پہلی ترجیح پاکستان کے عوام ہیں اور ہم نے جتنا پیسہ خرچ کیا پاکستان کے عوام پر کیا۔انہوں نے کہا کہ ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو 2 کھرب 50 ارب روپے دیئے گئے، خیبر پی کے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کو ایک کھرب 92 ارب روپے دیے گئے، یوٹیلیٹی اسٹور پر 5 بنیادی اشیائے خورونوش کو سستے داموں میں فراہم کرنے کے لیے 50 ارب روپے دیے، رمضان کے دوران 19 چیزوں کی قیمت کم رکھنے کے لیے 15 ارب روپے دیے گئے، 72 فیصد پاکستانیوں کے لیے حکومت اپنی جیب سے بجلی سستی کر کے دے رہی ہے، 90 فیصد پاکستانیوں کو گیس کم قیمت پر فراہم کی جارہی ہے اسی طرح 100 فیصد ٹیوب ویلز کو سستی بجلی دی جارہی ہے اور جب دنیا میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی تو عوام تک اس کا فائدہ پہنچایا گیا اس کے علاوہ کھاد کی قیمتیں کم رکھنے کے لیے کم قیمت گیس دی جارہی ہے۔ مشیر خزانہ نے کہا ہم سب اگر مل جائیں تو پاکستانی عوام کی امنگیں پوری ہوں گی، یہ ملک ایسے ہی نہیں بنا اس کے لیے بہت سے لوگوں سے قربانیاں دی ہیں، اب ہمارے پاس موقع ہے کہ ایک لیڈر کے ساتھ مل کر وہ اقدامات کریں جس کے عوام منتظر ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کووِڈ کے دوران سپلائی کے سلسلے اور سپلائی کے راستوں کو مکمل طور پر بحال رکھا کسی بھی چیز کی قلت نہیں ہونے دی اس کی وجہ یہ تھی کہ بروقت تعمیراتی شعبے، منڈیوں اور طبی اشیا کی فراہمی کے سلسلے کو کھولا جس سے کووِڈ کے عروج کے موقع پر کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہیں آئی۔انہوں نے بتایا کہ اسی دوران کاروبار کے لیے ریلیف دیا گیا، سٹیٹ بینک کی پیرول فنانسنگ، 30 سے 35 لاکھ چھوٹے کاروباروں کے 3 ماہ کے بجلی کے بل معاف کیے گئے، ٹیکس فری بجٹ پیش کیا گیا اور اس میں ٹیکس کی شرح کو بھی کم کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ2 سال سے ہم صنعتوں کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کم کررہے ہیں اور ہزاروں اشیا پر کسٹم ڈیوٹی صفر کی جاچکی ہے، وِڈ ہولڈنگ ٹیکس میں کمی کی گئی اور سیلز ٹیکس کی اسپیشل رجیم کو بھی ختم کر کے اسٹینڈرڈ رجیم پر لے گئے۔احماد اظہر نے بتایا کہ اخراجات کی بچت اور بہتر انتظامات کے لیے 5 اداروں کو دیگر اداروں میں ضم کردیا گیا جس میں پاکستان مشین ٹول فیکٹری، اینار پیٹروٹیک سروسز لمیٹڈ، ڈپارٹمنٹ ا?ف ایکسپلوزیو، انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ فرٹیلائزر اور انسٹیٹیوٹ آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی شامل ہے جبکہ باقی اداروں کے لیے بھی یہ منصوبہ زیر غور ہے۔انہوں نے کہا کہ متعدد اداروں کو کئی سالوں سے سرد خانے میں رکھا ہوا تھا جس میں پاکستان اسٹیل ملز بھی شامل ہے جس کے لیے گزشتہ 5 برسوں میں 35 ارب روپے کی تنخواہیں ادا کردی گئی، 80 ارب روپے کے بیل آؤٹ پیکج دیے گئے، 10 سے 12 سال کے عرصے میں منافع سے نقصان میں چلی گئی اور اب 2 کھرب 36 ارب روپے کے قرضوں پر کھڑی ہے۔اس سلسلے میں نجکاری کمیشن کے ساتھ مل کر کام کیا جارہا ہے تا کہ تیزی سے ایک جوائنٹ اسٹیک ہولڈر کو لایا جائے، اس میں ایک جانب حکومت ہوگی اور دوسری جانب پرائیویٹ سیکٹر کا جوائنٹ اسٹیک ہولڈر ہوگا جبکہ اس سے پہلے اس کے انتظامی مسائل کو حل کیا جائے گا۔حماد اظہر نے کہا پاکستان میں پہلی مرتبہ چینی کے کارٹلز کے خلاف نوٹس لیا گیا اور شوگر انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے رپورٹ مرتب کر کے پیش کی اور اب ہم شوگر اصلاحاتی کمیٹی بناچکے ہیں جو تیزی سے کام کرتے ہوئے ایک ماہ میں اپنی سفارشات پیش کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ جولائی 2019 کے مقابلے جولائی 2020 میں سیمنٹ کی فروخت 41 فیصد زیادہ ہے، یوریا کی فروخت 22 فیصد، ڈی اے پی کی فروخت 29 فیصد، آٹو موبائل کی فروخت 27 فیصدزیادہ ہے۔اس کے علاوہ گزشتہ مالی سال میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 2 ہزار 561 ملین ڈالر تھی جو گزشتہ 11 سال کی دوسری بلند ترین سطح ہے جبکہ مارچ میں کووِڈ کے آغاز سے قبل یہ 11 سال کی بلند ترین سطح پر تھی۔انہوں نے بتایا کہ برآمدات کی مد میں فروری میں ڈالر کے حساب سے 14 فیصد اضافہ ہورہا ہے تھا تاہم اس وقت بھارت کی منفی 10.2 فیصد، بنگلہ دیش کی 0.5 فیصد جبکہ پاکستان کی 6 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دور حکومت میں ہمیں گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تو سخت ترین شرائط پر مبنی 27 نکاتی ایکشن پلان ہمیں دے دیا گیا جو دنیا کے کسی بھی ملک کو اتنے کم عرصے میں نہیں دیا گیا لیکن آج ہم 27 میں سے 14 شرائط پوری کرچکے جبکہ بقیہ 13 میں سے 11 جزوی مکمل اور انشاء اللہ اس سال جوائنٹ گروپ کا ایکشن پلان مکمل کرلیں گے اور ایم ای آر کے ایکشن پلان میں بھی بہتری لے کر آئیں گے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ گزشتہ ایک صدر کے دوران صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا کو چیلنجز دیکھنے میں آئے اس میں سب سے زیادہ شدید چیلنج کووِڈ 19 تھا۔انہوں نے کہا یہ واحد صورتحال تھی کہ ایک وقت میں پوری دنیا کے نظام صحت پر بے تحاشہ دباؤ پڑا اور معیشت میں مشکلات آئیں کیوں کہ عموماً طبی مسائل اس نوعیت کے نہیں ہوتے کہ معیشت کو ہی بند کردیا جائے یہ اس لحاظ سے ایک منفرد چیلنج تھا سپینش فلو کے بعد جس کے نتیجے میں صحت اور معاشی پہلو سے جو صورتحال پیدا ہوئی اس کی اس سے قبل مثال نہیں ملتی۔انہوں نے بتایا کہ سال کی دوسری سہ ماہی کے دوران امریکہ کی مجموعی ملکی پیداوار 30 فیصد جبکہ برطانیہ کی جی ڈی پی 20 فیصد سکڑی چنانچہ اس چیلنج کا جہاں دنیا نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی وہیں پاکستان نے بھی کیا اور پاکستان ان ملکوں کی صف میں ہے جنہیں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کامیابی سے اس مشکل کا مقابلہ کیا۔اسد عمر نے کہا کہ بل گیٹس نے اپنی گفتگو میں ان ممالک کہ جنہوں نے کووِڈ 19 کا بہتر مقابلہ کیا اس میں پاکستان بھارت کا موازنہ کیا اور پاکستان کی مثال دی۔اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر نے پاکستان کے دورے پر وزیر خارجہ سے ملاقات کی تو وہاں پر بھی انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ پاکستان سے دنیا سیکھ سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ دوسری جانب وال سٹریٹ جنرل جو عموماً پاکستان کے بارے میں اچھی خبریں نہیں چھاپتا اس نے کہ کورونا بحران کے دوران دنیا میں پاکستان ایک برائٹ اسپاٹ ہے وبا کی صورتحال کے بارے میں اسد عمر نے کہا کہ اس کے 2 مختلف پہلو تھے اس ضمن میں متعدد مفروضے سامنے آئے کسی نے کہا کہ موسم کا اثر ہے، کسی نے کہا کہ اس خطے کے لوگوں میں کوئی خاص مدافعت ہے تو کوئی کہتا ہے کہ بی سی جی کے انجیکشن لگتے ہیں اس سے فرق پڑا۔تاہم اگر آبادی کے تناظر میں دیکھیں تو بنگلہ دیش میں پاکستان سے 4 گنا زیادہ اموات ہورہی ہیں، 5 سے 7 فیصد کا فرق نہیں 4 گنا زیادہ ہیں، بھارت میں گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران 12 گنا زیادہ اموات ہوئیں اور ایران میں پاکستان کے مقابلے 20 گنا زیادہ اموات ہوئی جو اس خطے میں پاکستان اور دیگر ممالک کے درمیان فرق کو واضح کررہی ہیں۔ اسد عمر نے کہا کہ مارچ سے جولائی کے عرصے میں بنگلہ دیش کی برآمدات گزشتہ سال کے مقابلے 31 فیصد کم ہوئی، بھارت کی برآمدات میں 33 فیصد کم ہوئی جبکہ پاکستان میں 20 فیصد کمی ہوئی یعنی ان دونوں ممالک سے ایک تہائی کم نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ معیشت پر بھی کم نقصان ہوا اور صحت کے حالات بھی کافی بہتر رہے، ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ 3 بہت بنیادی چیزیں ہیں۔پہلی وزیراعظم عمران خان کا وڑن ہے کہ حکومت کا کام ملک کے کمزور ترین طبقات کی مدد کرنا ہے، جبکہ پاکستان جیسے ممالک کہ جہاں جمہوری ادارے کمزور ہوتے ہیں وہاں فیصلہ سازی پر اشرافیہ کا کنٹرول ہوتا ہے اور چند لوگوں، چند خاندانوں کی بہتری کے لیے فیصلے کیے جاتے ہیں۔تاہم اس حوالے سے عمران خان بالکل واضح ہیں اور جب پاکستان کے تمام لیڈر کھڑے ہو کر لاک ڈاؤن کا مطالبہ کررہے تھے جہاں کسی کو فکر نہیں تھی کہ جن کا روزگار چھن جائے گا ان کی زندگی کیسے گزرے گی اور میڈیا میں بھی یہی مطالبہ کیا جارہا تھا کیوں کہ ہم جس معاشرتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ صاحب ثروت لوگ ہیں اس لیے ہم زیادہ تر یہ نہیں سوچتے کے کمزور طبقے والوں پر کیا گزر رہی ہوگی لیکن عمران خان نے پہلے دن سے یہی بات کی جس پر بہت تنقید ہوئی۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کبھی ایک مرتبہ یہ بات نہیں کی امدادی رقم کی فنانسنگ کس طرح ہوگی اس کے باوجود وہ مالیاتی خسارہ بھی کم کرنے میں کامیاب ہوئے۔اسد عمر نے کہا پی ٹی آئی پر بہت تنقید ہوتی ہے کہ نا اہل ہیں لیکن شاہ محمود قریشی کیمبرج یونیورسٹی، حماد اظہر لنکنز ان، حفیظ شیخ ہارورڈ سے پڑھے ہوئے ہیں اور دوسرا الزام یہ ہوتا ہے کہ عمران خان دوسروں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتے ہیں تو ہاں عمران خان دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے این آر او دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ کورونا بحران کے دوران ملک اور قوم کے لیے ضروری اقدامات کے لیے وزیراعظم جس طرح صوبائی حکومتوں اور دیگر اداروں کو ساتھ لے کر چلے اس کی بھی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔انہوں نے کہ کووِڈ بحران کے دوران حکومت نے اہلیت بھی دکھائی ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال اور سیاسی اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے کا طریقہ کار بھی دکھایا عمران خان 22 سال کی جدو جہد کے بعد آئے جس کی پاکستان میں کوئی مثال نہیں ملتی، جنہوں نے اقتدار میں آکر سب سے پہلے معاشی بحران کا سامنا کیا، بھارت کے چیلنج کو قبول کیا، بالاکوٹ کے بعد پیش آنے والی صورتحال کا وقار، حوصلے اور باعزت طریقے سے سامنا کیا اور اس کے بعد کووِڈ کے بحران کا سامنا کیا۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے دوستوں کے لیے بری خبر یہ ہے کہ کپتان کریز پر سیٹل ہوگئے ہیں اور اب ایک لمبی اور پروڈکٹیو اننگز کھیلنے کے لیے تیار ہیں اور اب پاکستان کو آگے مزید بہتری کے دن نظر آئیں گے۔ دوسری جانب وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے تخفیف غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے احساس پروگرام کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے ریاست مدینہ کے وژن کے تحت احساس پروگرام کو تشکیل دیا گیا جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سماجی تحفظ کا پروگرام ہے جسے بین الاقوامی سطح پر بہت پذیرائی مل رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس پروگرام میں 144 سے زائد اقدامات ہیں جو 34 وزارتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں، تاہم تحفیف غربت کے تحت آنے والے اقدامات کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ احساس کفالت کے تحت 70 لاکھ خاندانوں ماہانہ وظیفے اور بچت بینک اکاؤنٹ کی صورت میں دیے جاتی ہے۔احساس بلا سود قرض ان کے لیے ہے جو چھوٹے کاروبار کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے ملک کے 100 پسماندہ اضلاع میں 29 ارب روپے مالیت کے 8 لاکھ 44 ہزار قرضے دیے گئے جس میں سے 45 فیصد قرضے خواتین کو دیے گئے۔اسی سے منسلک پروگرام احساس ا?مدن ہے جو پاکستان کے 23 پسماندہ ترین اضلاع میں جاری ہے جس میں ایک ارب 50 کروڑ روپے کے چھوٹے کاروباری اثاثے دیے جاتے ہیں جس میں مال مویشی، دکان کا سامان وغیرہ شامل ہیں جس میں 60 فیصد خواتین کو دیے گئے۔ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بتایا کہ احساس اسکالر شپ پروگرام پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکالر شپ پروگرام ہے جو 4 سال پر محیط اور 20 ارب روپے مالیت کا ہے جس کے تحت 2 لاکھ طلبا کو اسکالر شپ دی جائیں گی جس میں گزشتہ برس 4 ارب 90 کروڑ روپے کی 50 ہزار 500 اسکالر شپ دی گئیں جس میں ملک کی 177 یونیورسٹیز میں 38 فیصد خواتین کو یہ اسکالر شپ دی گئیں۔احساس نشونما گزشتہ ہفتے ہی جاری کیا گیا ہے جس کے تحت 9 اضلاع میں 33 سینٹر اسی ماہ مکمل فعال ہوجائیں گے اور پہلے مرحلے میں 2 لاکھ 21 ہزار خاندان اس سے مستفید ہوں گے۔اسی طرح پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مزدوروں کے لیے احساس لنگر قائم کیے گئے جس میں 12 لنگر قائم کیے جاچکے ہیں جبکہ مزید کام کیا جائے گا جبکہ 100 سے زائد پناگاہیں بنائیں گئیں جن کا معیار بلند کرنے کے لیے کام تیزی سے جاری ہے۔