بچیوں کی تعداد میں کمی کیلئے بھارتی جنس کا پتہ لگتے ہی ابارشن کرانے لگے
اسلام آباد ( عبداللہ شاد - خبر نگار خصوصی) بھارت میں 2030 تک بچیوں کی پیدائش کی تعداد میں 68 لاکھ تک کمی آئے گی۔ بھارت کی 29 ریاستوں اور یونین ٹیرٹریز میں کی گئی ریسرچ کے مطابق بھارت میں خواتین کی پیدائش انتہائی تیزی سے گر رہی ہے کیونکہ والدین جنس کا پتہ چلتے ہی ناجائز طور پر ابارشن کرا لیتے ہیں۔ 17 شمالی بھارتی ریاستوں میں ’’بیٹے کی پیدائش‘‘ کی خواہش کو بہت زیادہ بتایا گیا ہے، خصوصاً کٹر انتہا پسند ہندو رہنما یوگی ادتیہ ناتھ کی قیادت میں اترپردیش میں خواتین کی پیدائش میں انتہائی تیزی سے گراوٹ آ رہی ہے۔ ریسرچرز کے مطابق محض اترپردیش میں ہی 2017 اور 2030 کے مابین 20 لاکھ بچیاں کم پیدا ہوں گی۔ محض یہی نہیں بلکہ ہندوستان میں 1970 کے موازنہ میں بچیوں کی پیدائش کی تعداد میں 6 کروڑ تیس لاکھ کی کمی آئی۔ اس تیزی سے کم ہوتی تعداد کے باعث ہی 1994 میں پری کنسیپشن اینڈ پری نیٹل ڈائیگناسٹ ٹیکنیک ایکٹ میں کانگرس کی نرسمہا رائو سرکار نے بچے کی جنس قبل از پیدائش افشاں کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی، مگر اس کے باوجود صورتحال میں کوئی سدھار نہیں آیا۔ بھارت میں فی الحال 1000 لڑکوں کے مقابلے میں 900 لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں، لڑکوں کو وی آئی پی ٹریٹمنٹ کیساتھ پروان چڑھایا جاتا ہے جبکہ لڑکیوں کو عموماً ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ راجستھان میں تو 1000 لڑکوں کے مقابلے 880 لڑکیاں پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح 27 فیصد لڑکیوں کو 18 سال کی عمر سے پہلے زبردستی بیاہ دیا جاتا ہے حالانکہ مودی کا کہنا ہے کہ وہ لڑکیوںکی شادی کی عمر کو 18 سے بڑھا کر 21 برس کریں گے۔