• news
  • image

آزادیٔ  فلسطین اور قائداعظمؒ کی سیاسی بصیرت 

چھ اکتوبر1973ء کو مصر اور شام نے بیک وقت اسرائیل سے اپنے مقبوضہ علاقے واگزار کرانے کیلئے اس پر حملہ کیا۔ ابتدا میں ان دونوں کو کامیابی ہوئی، مگر امریکہ کی طرف سے ہنگامی بنیادوں پر اسرائیل کو بڑی تعداد میں جدید اسلحہ دیا جس نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ شام کے محاذ پر اسرائیل نے مزید علاقے پر قبضہ کر لیا اور سویز کے محاذ پر اس کی افواج مغربی ساحل پر بھی اتر گئیں۔ فلسطینیوں نے حصول آزادی کیلئے سیاسی اور عسکری تنظیمیں قائم کر لیں ، مگر ان میں سب سے اہم پی ایل او ہے جس کا قیام 1964ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس کے بنیادی چارٹر میں یہ بات شامل تھی کہ سارا فلسطین (بمع اسرائیل) فلسطینیوں کا ہے اور یہودیوں کا اس پر کوئی حق نہیں۔ اس تنظیم کے عسکری بازو کو فلسطین لبریشن آرمی کانام دیا گیا۔ الفتح کی بنیاد 1957ء میں رکھ دی گئی تھی۔ فلسطینی تنظیموں نے اسرائیل کے خلاف بہت سی گوریلا کارروائیاں کیں۔پی ایل او نے بعدازاں اسرائیل کو ختم کرنے کا نقطہ واپس لیکر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو اپنا مقصد بنا لیا۔ پی ایل او کواس اتحاداور ایک متفقہ لیڈر یاسر عرفات چننے کا بڑا سیاسی فائدہ پہنچا۔1974ء میں یاسر عرفات نے فلسطین کے نمائندے کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔اقوام متحدہ نے فلسطین کو ایک قوم تسلیم کیا اور ان کے حق خود ارادیت کے لیے کئی قرار دادیں منظور کیں۔ دسمبر 1987ء میں حماس کے نام سے ایک ایسی مزاحمتی تحریک سامنے آئی ۔ اگلے سال اس تحریک نے انتفاضہ یعنی مزاحمت شروع کی۔ اس کی مزاحمت کا انداز اچھوتا تھا۔ بچوں،خواتین اور نوجوانوں کے پاس چھوٹے چھوٹے پتھر ہوتے جنھیں وہ اسرائیلی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں پر پھینکتے۔ ظاہر ہے اس سے ان ٹینکوں کا تو کچھ نہ بگڑتا ، مگر اس سے اس مزاحمت کی مظلومیت ، اس کا برحق ہونا اور اس کا عزم بھر پور طریقے سے ظاہر ہوجاتا۔ یہ بین الاقوامی طورپر اپنے آپ کو منوانے اور عوام کو متحد،منظم اور پرعزم رکھنے کا نہایت اچھا ذریعہ تھا۔ یہ تحریک اصلاً عدم تشدد کی تحریک تھی۔ اسی لیے ہمیشہ اس تحریک کے لوگ تو شہید ہوتے رہے ، لیکن اس نے کسی اسرائیلی بچے یا خاتون پر تشدد نہیں کیا۔ اس سے اس تحریک کی اخلاقی ساکھ پوری دنیا میں بیٹھ گئی۔یہ مسئلہ تاحال حل طلب ہے۔ پاکستان ایک نظریاتی و اسلامی ریاست کے طور پر ابھی معرض وجود میں آیا نہیں تھا، ابھی متحدہ ہندوستان برطانوی سامراج کے زیرتسلط تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں مسلمان ہند ایک الگ ریاست کی قیام کے لیے جدوجہد میں مصروف عمل تھے جبکہ مسلمانان پاکستان کے دلوں کی دھڑکن محمد علی جناح کی قیادت پر برصغیر کے مسلمانان اپنا تن من دھن قربان کرنے کو تیار تھے۔ قائدِ اعظمؒ اور آل انڈیا مسلم لیگ ہمیشہ فلسطین کی آزادی کے لیے آواز اٹھاتے رہے- فلسطین کی حمایت میں 1933ء سے 1947ء تک اٹھارہ قراردادیں منظور کی گئیں۔ پورے برصغیر میں آل انڈیا مسلم لیگ باقاعدگی کے ساتھ یومِ فلسطین پر سیاسی سرگرمیوں کا انعقاد کرکے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتی رہی۔ 23 مارچ1940ء کو قرار دادِ لاہور منظور کی گئی جو قرار دادِ پاکستان کہلاتی ہے، اس تاریخی موقع پر بھی فلسطین کے ساتھ یکجہتی کی قرار داد منظور کی گئی۔ عہدِ قائد اعظمؒ میں صیہونیت کی پشت پناہی کیلئے چونکہ برطانیہ صف اوّل میں کھڑا تھا اس لیے قائد اعظم محمد علی جناحؒ جہاں برّصغیر پاک و ہند کے مسلمانان کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے وہیں جدوجہدِ آزادی فلسطین کیلئے بھی مسلسل تگ و دو کر رہے تھے کیونکہ ملّت کا پاسبان ہونے کے ناطے پوری امّتِ مسلمہ کا غم آپ کی رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھا۔ آپ نے عالَمِ عرب کی حریت کی خاطر جو جدوجہد کی اس کا اعتراف خود عرب لیڈروں نے بھی کیا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی بابصیرت قیادت اور اور تیز بینی کا اندازہ ان کے کلمات اور بیانات سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے مسئلہ فلسطین پر برطانوی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہی۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے15اکتوبر 1937ء کو لکھنو میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس مسئلے کا تفصیلی ذکر کیا تھا اور برطانوی حکمرانوں کو تنبیہ کی تھی کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کے حقوق پامال نہ کریں۔ قائداعظمؒ نے فرمایا کہ ’’اب میں مسئلہ فلسطین کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اس کا تمام مسلمانانِ ہند پر گہرا اثر پڑا ہے۔ حکومت برطانیہ کی عام پالیسی یہ ہے کہ اس نے شروع سے لے کر آخر تک عربوں کو دھوکہ دیا ہے۔ برطانیہ نے اپنے دعوے کو پورا نہیں کیا۔ جو جنگ عظیم کے دبائو کے تحت کیا گیا تھا‘ اور جس میں یہ کہا گیا تھا کہ عربوں کو مکمل آزادی کی گارنٹی دی جاتی ہے‘ اور ایک بین الاعراب وفاق کی تشکیل کا اعلان کیا جاتا ہے۔ عربوں کی سریع الاعتقادی سے پورا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ عربوں کو جھوٹے دعوے دے کر ان کو استعمال کرنے کے بعد برطانیہ نے بدنام خلائق اعلان بالفورکے ذریعے سے اپنے آپ کو ان پر مسلط کردیا اور یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن بنانے کی پالیسی کے بعد اب برطانیہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے اور اب رائل کمیشن کی سفارشات نے اس المناک داستان کا آخری باب لکھ دیا ہے۔اور اگر اس کو نافذ کردیا گیا تو عربوں کے اپنے وطن میں ان کی تمام تمنائوں اور آرزوئوں کا خون ہوجائے گا اور اب ہمیں یہ کہا جارہا ہے کہ ہم اصل واقعات پر غور کریں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ حالات کس نے پیدا کیے ہیں؟ یہ برطانوی مدبرین کی پیداوار ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جمعیتہ الاقوام رائل کمیشن کی سفارشات کی تائید نہیں کرے گی‘ اور خدا کرے اس کی تائید نہ کی جائے اور اصل حالات کا از سر نو جائزہ لیا جائے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عربوں کو ان کا صلہ دینے کے لیے یہ کوئی دیانتدارانہ کوشش ہے؟
میں حکومت برطانیہ کو یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ اگر اس نے فلسطین کا جرأت‘ دلیری اور انصاف کے ساتھ فیصلہ نہ کیا تو یہ حکومت برطانیہ کی تاریخ میں ایک جدید انقلاب کا دروازہ کھول دے گا۔ میں صرف مسلمانانِ ہند کی نہیں بلکہ اس معاملہ میں مسلمانانِ عالم کی ترجمانی کررہا ہوں اور تمام انصاف پسند اور فکر مند احباب اس بات میں میری تائید کریں گے۔ جب میں یہ کہوں گا کہ برطانیہ نے اپنے مواعید‘عزائم اور اعلانات کو جو زمانہ قبل و بعداز جنگ تمام دنیا کے روبرو غیر مشروط طور پر عربوں کے ساتھ کیے گئے تھے۔ پورا نہ کیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود رہا ہے۔ (جاری)

epaper

ای پیپر-دی نیشن