گالم گلوچ کی سیاست اور سرکاری گاڑی میں گھومنے والوں کی غلط فہمی!!!!
قومی اسمبلی اجلاس کے اجلاس میں جو شور شرابہ ہوا ہے اور جو زبان استعمال کی گئی ہے یہ نہایت خطرناک ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو یہاں تک کہہ دیا کہ شرم کریں۔ ان الفاظ کے بعد اسد قیصر کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ اپنی کارکردگی اور رویے پر غور کریں کیونکہ حالات جو بھی ہو جائیں اسپیکر کی بہرحال ذمہ داری ہوتی ہے کہ انہوں نے ہاؤس کی کارروائی کو پرامن اور غیر جانبدار ہو کر چلانا ہے اگر اسپیکر اس بنیادی ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام رہتے ہیں تو اس کے بعد وہی کچھ ہوتا ہے جو آج قومی اسمبلی میں ہوا ہے۔ ہم اس سے پہلے متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے وزراء خود اس سوچ کے ساتھ اسمبلی آتے ہیں کہ انہوں نے منفی بیانات یا جارحانہ طرز عمل سے اسمبلی کی کارروائی کا بیڑہ غرق کرنا ہے وہ خود ہی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہیں۔ عمومی طور پر اسمبلی کے اجلاس کو سیاسی مخالفت میں سبوتاژ اپوزیشن کرتی ہے لیکن یہاں حکومت کے وزراء خود یہ کام کرتے دکھائی دیتے ہیں اور دو سال کا عرصہ گذرنے کے بعد بھی ان کے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکی۔ شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم ہیں اگر وہ اس طرح سخت زبان استعمال کریں گے تو اس کی وجوہات تلاش کرنا اور حالات کو معمول پر لانا اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی ذمہ داری ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پہلا سال اسپیکر نے ہاؤس کو احسن انداز میں چلایا ہے لیکن اب ان پر شاید کہیں نہ کہیں سے کوئی دباؤ یا وہ آزادانہ فیصلے نہیں کر پا رہے ہیں یا پھر ان کے سیاسی ساتھی ہی ان کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ ایک غیر منتخب شخص کو بلاکر ایوان کی توہین کی گئی یہ ایوان میں نہیں آسکتا۔ اس پر اسپیکر کا جواب ہے کہ رولز اجازت دیتے ہیں مشیر آسکتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی جواب دیتے ہیں کہ اس غیر منتخب شخص نے اپوزیشن لیڈر کا نام لیکر توہین کی۔ اس پر حکومتی بنچوں سے آواز آتی ہے وہ اپوزیشن لیڈر چور ہے۔ شاہد خاقان عباسی جواب دیتے ہیں۔چور تیرا باپ ہوگا۔ شاہد خاقان عباسی نے نیب قوانین پر بھی کھل کر اظہار کیا ہے۔ انہوں نے جو گفتگو کی ہے وہ ملک کے سیاسی منظر نامے کو سمجھنے والوں کے لیے کافی ہے۔ اگر اب بھی حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو سرکاری گاڑیوں میں گھومنے والے یاد رکھیں وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ آپ کچھ اور منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں اور حالات کسی اور طرف چلے جاتے ہیں۔ شاہد خاقان غیر منتخب اور کرائے کے مشیر کو بلا کر ایوان کی توہین کی ہے۔اسپیکر صاحب آپ اس ایوان کے کسٹوڈین ہیں۔ہم سب کا تحفظ آپ کی ذمہ داری ہے۔ ان باتوں کی وجہ سے ایوان میں وزیراعظم موجود نہیں۔ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ وزیراعظم کی نشست خالی ہو لیکن یہ سب ان کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
وزیراعظم کو ایوان میں ہونا چاہیے ہر اجلاس اہم ہوتا ہے انہیں یہاں ضرور آنا چاہیے جمہوری رویے تقاضا کرتے ہیں کہ وزیراعظم اپنی نشست پر موجود ہوں انہوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر ہفتے سوالات کے جوابات دیا کریں گے۔ اسمبلی میں نظر آنے والا جارحانہ رویہ اور شدت پسندی کی وجہ حکومتی وزراء کے غیر ضروری بیانات اور نامناسب زبان کا استعمال ہے۔ حکومت کا یہ رویہ اپوزیشن کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور اگر اس اپوزیشن کی قیادت مولانا فضل الرحمن کو مل گئی تو یاد رکھیں ملک میں پھیلنے والا انتشار اور تشدد سنبھالنا حکومت کے بس میں نہ ہو گا بدقسمتی سے حکومت خود حالات کو اس طرف لے کر جا رہی ہے جہاں نفرت اور انتشار نظر آ رہا ہے۔
اسی اجلاس میں خواجہ سعد رفیق نے نام لیے بغیر کہا کہا کہ جب میں ریلوے پر بات کرتا ہوں تو ایک آدمی مجھے دوبارہ گرفتار کرانے کی دھمکیاں دیتا ہے۔اگر مجھے دوبارہ گرفتار ہوا تو آپ ذمہ دار ہونگے۔ خواجہ سعد رفیق کا اشارہ وزیر ریلوے شیخ رشید کی طرف ہے اور یہ وہ رویہ جس کا ہم متعدد بار اظہار کر چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کے وزراء اپنے کاموں کے بجائے دیگر کاموں میں ٹانگ اڑانے سے باز نہیں آتے۔ اگر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ بجلی ایل این جی کے بجائے ڈیزل کے ذریعے پیدا کی جا رہی ہے اور یہ کام وزرائ کے آئی پی پیز کر رہے ہیں تو یہ نہایت سنجیدہ الزام ہے اس کی فوری تحقیقات کی ضرورت ہے اور وزیر اعظم عمران کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ خواجہ آصف بھی برہم رہے ہیں۔ قانون سازی کے حوالے سے طویل عرصہ سے آپ کے ذریعے مشاورت ہوئی۔اس ایوان میں اتفاق رائے تھا پھر بھی یہاں ہنگامہ آرائی ہوگئی۔تمام اداروں کا ان پٹ شامل تھا کیونکہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔اس معاملے پر محکمہ زراعت کہنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ اب جس نے محمکہ زراعت کہا ہے اس سے کون پوچھے گا یہ حکومت کے وزرا کا کمال ہے وہ ہر گذرتے تنازعے کو اپنے سر لیتے ہیں۔ خواجہ آصف کہتے ہیں خود حکومتی جماعت کہتی ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم کی جائے۔ کیا نیب متوازن استعمال ہورہا ہے؟ کیا چینی چوروں کو پکڑا گیا۔ خواجہ آصف کے اس سوال کا جواب تو دینا چاہیئے یہ ایوان کا حسن ہے کہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور جوابات دیے جاتے ہیں۔ خواجہ آصف پھر بولے ایک چینی چور باہر بھاگ گیا، دیگر چور کابینہ میں بیٹھے ہیں۔ حکومت اس کا کیا جواب دے سکتی ہے۔ تحریک انصاف کو اب تو یہ سمجھ جانا چاہیے کہ کنٹینر اننگز ختم ہو چکی ہے۔ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ
ہم اتفاق رائے اعتماد کے ساتھ چاہتے تھے مگر پہلے ایوان میں ہنگامہ کیا گیا اور کل پھر این آر او کے طعنے دیئے گئے۔ کل سائرن میں اس حوالے سے لکھا گیا تھا اصل میں جو کام شبلی فراز نے نیب قوانین کا مسودہ شیئر کر کے کیا وہ آج اسمبلی میں گالم گلوچ کی بڑی وجہ بنا۔ حکومت نے خود اپوزیشن کو چرھائی اور ایوان کے تقدس کو پامال کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ خواجہ آصف بولتے ہیں کہ معاشی دہشتگردی پر ایک قانون بنایا جارہا تھا جو ہمارے مطالبے پر حکومت نے واپس لیا جو خوش آئند تھا۔یہاں پر جو قانون سازی ہورہی ہے ان کی ان پٹ کے ساتھ انکا کردار ہے۔ یہ حالات سادہ نہیں ہیں نہ ہی انہیں معمولی سمجھنا چاہیے۔ یہ سب آگ پر کھیل رہے ہیں اور حکومتی وزرا اس آگ پر تیل پھینک رہے ہیں۔ اس آگ میں سب جلیں گے۔ عوام کو تو پہلے ہی مہنگائی نے جلا کر راکھ کر دیا ہے۔
میاں شہباز شریف نے حکومت کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے اپنے دور حکومت کا موازنہ کیا ہے۔ وزراء اس کا سنجیدہ جواب دیں۔ غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے کے بجائے دلائل دیں۔ انہیں پارلیمان میں بڑھکیں لگانے یا وقت ضائع کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر حکومت اپوزیشن یا بالخصوص میاں نواز شریف یا شہباز شریف یا دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین پر سوالات اٹھاتی ہے اور جواب مانگتی ہے تو جو سوالات دوسری طرف سے آتے ہیں ان کا جواب بھی دیں۔ زہریلی بیان بازی کے بجائے جمہوری انداز میں آگے بڑھیں برسوں کی محنت کو مہینوں میں ضائع نہ کریں۔
وفاقی وزیر ہوا بازی جب بھی بولتے ہیں انوکھا ہی بولتے ہیں ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ کم سے کم بولیں اور زیادہ سے زیادہ کام کریں اگر کر سکتے ہوں۔ وزیر موصوف کہتے ہیں کہ پینتیس سال تک ملک کو لوٹنے والے واجب القتل ہیں جس دن وہ یہ بیان جاری کر رہے ہیں اسی وزارت خزانہ کی جاری کردہ دستاویزات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں قرض میں پینتالیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اب کوئی غلام سرور خان کو پوچھے کہ ہر معاملے میں کودنے کی ضرورت کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے وزراء کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ انہیں آج تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ کب کیا بولنا ہے الفاظ کا انتخاب کیا ہونا چاہیے۔ وزیر ہوا بازی کسی کو بیٹھے بٹھائے واجب القتل قرار دینے والے کون ہوتے ہیں۔ ایسی گفتگو تو اس وقت ہوتی ہے جب دلائل ختم ہو جائیں اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے مخالف سیاسی جماعتوں پر عائد الزامات کو درست ثابت کرنے میں ناکامی ہو رہی ہے اور حکومتی وزراء نے قتل کے فتوے جاری کرنا شروع کر دیے ہیں۔ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے وزراء کس ایجنڈے پر ہیں یا تو وہ عمران خان کو ناکام بنانے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں یا پھر جان چکے ہیں کہ کارکردگی دکھانے میں ناکام ہو چکے ہیں اور عوام کی توجہ تقسیم کرنے کے لیے ایسی جارحانہ سیاست کا سہارا لے رہے ہیں۔
غلام سرور خان کہتے ہیں ملک میں مافیا کام کر رہی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی ہو رہی ہے۔ یہ بیان اپنی ہی حکومت کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کے مترادف ہے۔ اگر ملک میں مافیا کام کر رہی ہے تو حکومت کیا کر رہی ہے اور کوئی حکومت دو سال تک مافیاز کو قابو نہیں کر سکی تو کیا ضمانت ہے کہ آئندہ دو برسوں میں یہ کام ہو پائے گا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ مافیاز کو تو بدنام کیا جا رہا ہے مہنگائی میں مسلسل اضافہ تو وزراء کی نااہلی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ آٹا کیوں کم ہوا، چینی کیوں نایاب اور مہنگی ہوئی اگر کسی کو سمجھ نہیں آتی تو ہم حاضر ہیں تشریف لائیں سمجھا دیں گے پھر کسی کو مافیاز پر ملبہ ڈالنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔