• news

سینٹ میں اپوزیشن کی مخالفت ، انسداد منی لانڈرنگ سمیت 2بل مسترد

اسلام آباد (نیوز رپورٹر) ایوان بالا میں قائدین کی تضحیک کرنے پر حکومت اور اپوزیشن میں ٹھن گئی۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ۔ قائد ایوان کی جانب سے معذرت نہ کرنے پر اپوزیشن بھی غصے میں آگئی۔ مفاہمت کی سیاست دم توڑ گئی۔ قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے اینٹی منی لانڈرنگ دوسرا (ترمیمی) بل 2020ء اور اسلام آباد دارالخلافہ وقف املاک بل 2020ء  ایوان بالا نے  کثرت رائے سے مسترد کر دیا۔ بلز کی منظوری کے لئے چئیرمین کی تمام کوششیں بھی رائیگاں گئیں۔ منگل کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے تحریک پیش کی کہ وقف املاک کے مناسب انتظام و انصرام کا بل (اسلام آباد دارالخلافہ وقف املاک بل 2020ئ) قومی اسمبلی کی منظور کردہ صورت میں زیر غور لایا جائے جس کو ایوان نے کثرت رائے سے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے یہ بل منظوری کے لئے ایوان میں پیش کیا جس کو ایوان نے مسترد کر دیا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے تحریک پیش کی کہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء میں مزید ترمیم کرنے کا بل(اینٹی منی لانڈرنگ دوسرا (ترمیمی)بل 2020ء قومی اسمبلی کی منظور کردہ صورت میں زیر غور لانے کی تحریک پیش کی جس کو ایوان نے مسترد کر دیا۔ بعد ازاں وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے اینٹی منی لانڈرنگ 2010میں مزید ترمیم کرنے کا بل اینٹی منی لانڈرنگ دوسرا (ترمیمی) بل 2020پیش کیا جس کو ایوان نے کثرت رائے سے  مسترد کر دیا۔ قبل ازیں وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں یہ قانون سازی کی جا رہی ہے۔ یہ پاکستان تحریک انصاف سمیت کسی سیاسی جماعت یا فرد واحد کا بل نہیں ہے بلکہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ ہمیں اس حوالے سے اتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف بل کی تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت کی ہے۔ اس کے لئے ڈیڈ لائن قریب ہے، عاشورہ کے دن ہیں، اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ایوان کا اجلاس جاری ہے۔ پاکستان بھارتی لابی کے باعث گرے لسٹ میں گیا اور اب وہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کے لئے کوششیں کر رہا ہے۔ پاکستان کے بلیک لسٹ میں جانے سے ملک میں پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ معاشی نقصان ہو سکتا، کرونا کے باعث بحالی کا سفر متاثر ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری چوائس نہیں کہ ایف اے ٹی ایف کیا پوچھے یا نہ پوچھے۔ تاہم ہم متحد ہو کر یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ ہم سیاست کے بجائے ریاست کے مفاد کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس ایوان میں حکومت کی اکثریت نہیں، اپوزیشن کی حمایت کے بغیر قومی سلامتی کا یہ معاملہ حل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس دو آپشن ہیں، ان بلوں کو مسترد کر کے ملک کے لئے مسائل پیدا کریں۔ ان بلوں کو منظور کر لیں۔ وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف سینیٹر فروغ نسیم نے کہا کہ یہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے مخصوص بل ہے اس کا تعلق اپوزیشن کے کسی رکن سے نہیں۔ اس معاملے پر ہم سب کا موقف یکساںہونا چاہیے اور اسے منظور کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ 2008سے ملک کو متعدد چیلنجز درپیش ہیں۔ سینٹ میں قائد ایوان سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ منی لانڈرنگ کا لفظ اپوزیشن کو کیوں چھیڑ لگتا ہے۔ یہ اپنی نوکری بچانے کے لئے ایوان میں شور شرابہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کا ایشو ہمارے حکومت میں آنے سے پہلے کا ہے۔ اپوزیشن نے ایسا کیا کیا کہ جس کے باعث ملک گرے لسٹ میں گیا۔ ایف اے ٹی ایف اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے جو کچھ کہا تھا اس پر قائم ہوں۔  قائد ایوان نے کہا کہ اپوزیشن نے ایوان میں دھمکی دی ہے۔ ان کی نازیبا گفتگو بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اپوزیشن غلط فہمی کا شکار ہے۔ ان کے سب کرتوت ایوان میں سامنے لائوں گا۔ کسی کا کاسہ لیس نہیں ہوں۔ اپوزیشن کا مسئلہ قومی سلامتی نہیں مالی سلامتی ہے۔ اپوزیشن نے فیصلہ کرنا ہے، وہ قومی سلامتی اور ملکی مفاد کے ساتھ کھڑی ہے یا اس کا مقصد ذاتی مفاد ہے۔ قائد ایوان سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم کی تقریر کے دوران سینیٹر اسلام الدین شیخ سمیت دیگر اپوزیشن ارکان نے شور شرابہ جاری رکھا۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید نے کہا ہے کہ یہ اپوزیشن کم اور چھوئی موئی زیادہ ہے۔ یہ ذاتی مفاد کے لئے حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے معاملے پر مختلف اوقات میں بلیک میلنگ کی کوشش کی۔ اپوزیشن بلیک میل کرنے کے لئے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی۔ ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر بھی اپوزیشن بلیک میلنگ کر رہی ہے۔ انہوں نے بلاول بھٹو کو بے بی بلاول بھی کہہ دیا جس سے اپوزیشن مزید غصے میں آگئی۔ ایوان بالا کے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق بلوں کو پیش کرنے کے موقع پر حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے قانونی نکات پر بحث کی گئی۔ حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم اور وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق بلوں پر چیئرمین سینٹ کی جانب سے رولنگ دینے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے سینیٹر میاں رضا ربانی اور سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے ایف اے ٹی ایف کے بلوں کے معاملے پر بحث میں حصہ لیا۔ بحث میں دیگر ارکان میں سینٹ میں قائد ایوان سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر راجہ ظفر الحق، سینیٹر جاوید عباسی، سینیٹر مشتاق احمد خان، سینیٹر محسن عزیز، سینیٹر فیصل جاوید، سینیٹر مولا بخش چانڈیو، سینیٹر اسلام الدین شیخ، سینیٹر بہرہ مند تنگی اور دیگر نے حصہ لیا۔ اپوزیشن ارکان  نے ایوان میں حکومتی رویے پر شدید تنقید کی اور کہا کہ حکومت از خود ایوان کو چلانا نہیں چاہتی۔ قبل ازیںسینٹ اجلاس میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم کے بیان پر اپوزیشن اور حکومتی ارکان ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے اور اپوزیشن ارکان نے بلوں کی منظوری کو قائد ایوان کے معافی مانگنے سے مشروط کردیا۔ تاہم انہوں نے معذرت کرنے اور اپنے الفاظ واپس لینے کی بجائے کہا کہ میں نے کسی کا نام نہیں لیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ ایوان کے اندر پارٹی قیادت پر منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ الفاظ واپس نہیں لیے جاتے بلوں کی منظوری کا معاملہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پاکستان مسلم لیگ(ن)کے مشاہد اللہ خان نے کہا کہ حکومتی ارکان جان بوجھ کرایوان کا ماحول خراب کر رہے ہیں۔ ایوان بالا میں وقفہ سوالات معطل کرنے پر اپوزیشن کا شدید احتجاج  اور  واک آئوٹ، واک آئوٹ کے ساتھ ہی کورم کی نشاندہی کر دی جس کی وجہ سے ایوان بالا کی کارروائی آدھے گھنٹے سے زائد تک معطل رہی۔ چئیرمین کی جانب سے بار بار گھنٹیاں بجانے اور گنتی کرانے کے باوجود بھی سینٹ ارکان کی تعداد 24 سے بڑھ نہ سکی۔ بالآخر اپوزیشن کے ایوان میں آنے سے ہی کورم کا مسئلہ حل ہوا۔ منگل کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران قائد ایوان سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے تحریک پیش کی کہ 25 اگست کے لئے وقفہ سوالات معطل کیا جائے۔  وقفہ سوالات معطل کرنے تحریک  پر اپوزیشن نے  شدید احتجاج کرتے ہوئے احتجاجا واک آٹ کیا۔  ایوان بالا اجلاس میں قائد حزب اختلاف سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ وقفہ سوالات معطل کرنا مناسب نہیں۔ سینیٹر رضا ربانی نے بھی اس کی مخالفت کرتے ہوئے  کہا کہ حکومت کو اپوزیشن کے سوالات کے جواب دینے چاہئیں۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ صرف منگل کو اس کو معطل کر رہے ہیں۔ تاہم اپوزیشن ارکان نے نو نو کرتے ہوئے وقفہ سوالات معطل کرنے پر ایوان سے واک آئوٹ کر گئے۔ اس موقع پر چئیرمین نے سینٹر سجاد طوری کو کہا کہ وہ اپوزیشن کو منا کر لائیں۔ تاہم اس  دوران پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمن نے اپوزیشن ارکان کے واک آٹ کرنے کے بعد ایوان میں آکر کورم کی نشاندہی کر دی۔ ایک طویل عرصے بعد ایوان بالا کا اجلاس 25 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ ایوان بالا کے اجلاس میں چھ قائمہ کمیٹیوں کی رپورٹس پیش کر دی گئیں۔ قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کی چیئرپرسن سینیٹر ستارہ ایاز کی جانب سے سینیٹر فیصل جاوید نے پاکستان ماحولیاتی تحفظ (ترمیمی) بل 2020پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی۔ قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اور کو آرڈینیشن کی چیئرپرسن نے سینیٹر محمد علی خان سیف کی جانب سے اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے حامل نکتہ پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی۔ سینیٹر خوش بخت شجاعت نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان(ترمیمی) بل 2020پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی۔ قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کے چیئرمین سینیٹر محسن عزیز نے سینیٹر شیری رحمن اور سینیٹر سسی پلیجو کی جانب سے پیش کردہ توجہ مبذول نوٹس کے معاملے پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی۔ سینیٹر محسن عزیز نے سینیٹر ڈاکٹر سکندر میندھرو کی جانب سے اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے حامل نکتہ پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی۔ سینیٹر محسن عزیز نے سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی کی جانب سے اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے حامل نکتہ پر کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی۔ ایوان بالا نے قائمہ کمیٹی برائے انسداد منشیات کی دو، قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کی پانچ ،قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اور کو آرڈینیشن کی چھ ،قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کی دو اور قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات اور قائمہ کمیٹی برائے خزانہ، ریونیو اور اقتصادی امور کی ایک ایک رپورٹ پیش کرنے کی معیاد میں تیس یوم کی توسیع کی منظوری دے دی۔
اسلام آباد (محمدرضوان ملک ) منگل کو ایوان بالا میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کی سیاست دم توڑ گئی۔ سینٹ میں اپوزیشن نے سابق صدر آصف زرداری اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے متعلق قائد ایوان کے بیان پر شدید احتجاج کیا اور  ایوان بالا نے قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے اینٹی منی لانڈرنگ دوسرا (ترمیمی) بل 2020ء اور اسلام آباد دارالخلافہ وقف املاک بل 2020ء  کو کثرت رائے سے مسترد کر دیا۔ بلز کی منظوری کے لئے چئیرمین کی تمام کوششیں بھی رائیگاں گئیں۔ چئیرمین بلوں کی منظوری کے حوالے سے ذہن بنا کے آئے تھے۔ وقفہ سوالات کو معطل کیا گیا، کورم کی نشاندہی کے باوجود بار بار گھنٹیاں بھجوا کر کورم پورا کرنے کی کوشش کی، اپوزیشن کو واک آئوٹ سے بلایا گیا۔ چئیرمین جو مذکورہ بلوں کی منظوری کے حوالے سے مکمل ذہن بنا کر آئے تھے  بار بار دونوں جماعتوں کو ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش کرتے رہے لیکن بیل منڈے نہ چڑھ سکی۔ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم، وفاقی وزیر پارلیمانی امور بابر اعوان، رضا ربانی، مصطفی نواز کھوکھر اور جاوید عباسی کے درمیان آئین کا آرٹیکل 220 اور 278 کافی دیر زیر بحث رہے حتیٰ کہ عبدالغفور حیدری کو کہنا پڑا جناب چئیرمین آپ نے تو عدالت  عالیہ لگا رکھی ہے دونوں جانب سے وکلاء دلائل دے رہے ہیں اور ہم سخت مشکل میں پڑے ہیں حالانکہ چند چھوٹی جماعتوں کے علاوہ سب جماعتیں بل پر متفق ہیں جنہوں نے تنقید کی ہے وہ معذرت کریں اور معاملہ آگے بڑھائیں۔ حکومتی رکن سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے بھی معاملہ سلجھانے کی کوشش کی۔ بعد میں شہزاد وسیم نے ڈھیلے ڈھالے انداز میں معذرت بھی کر لی کہ اگر کسی کی دل آزاری ہوئی تو معذرت خواہ ہوں لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی۔  پہلی دفعہ معاملہ وقفہ سوالات معطل کرنے پر بگڑا لیکن چئیرمین نے جلد ہی معاملات پر قابو پالیا ۔ لیکن سینٹ میں قائد ایوان  شہزاد وسیم اور فیصل جاوید نے روائیتی انداز میں اپوزیشن پر تنقید کر کے اسے پھر سے مشتعل کر دیا اور کسی صورت معذرت پر بھی راضی نہ ہوئے۔ انہوں نے وفاقی وزراء  بابر اعوان اور فروغ نسیم کی تمام کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا۔ سینٹ میں قائد ایوان سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے اپوزیشن ہی پر الزام عائد کردیا کہ ملک کو گرے لسٹ میں انہوں نے دھکیلا۔  یہ منی لانڈرنگ میں ملوث، منی لانڈرنگ کا لفظ اپوزیشن کو کیوں چھیڑ لگتا ہے، یہ اپنی نوکری بچانے کے لئے ایوان میں شور شرابہ کرتے ہیں۔  ایف اے ٹی ایف کا ایشو ہمارے حکومت میں آنے سے پہلے کا ہے۔ اپوزیشن نے ایسا کیا کیا کہ جس کے باعث ملک گرے لسٹ میں گیا، ایف اے ٹی ایف اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے جو کچھ کہا تھا اس پر قائم ہوں، ہم ملک کو گرے لسٹ سے نکالنا چاہتے ہیں، ابھی تو بل ایوان میں آیا نہیں پھر بھی یہ شور شرابہ کیوں کر رہے ہیں۔ قائد ایوان نے کہا کہ اپوزیشن نے ایوان میں دھمکی دی ہے، ان کی نازیبا گفتگو بھی ریکارڈ کا حصہ ہے، اپوزیشن غلط فہمی کا شکار ہے، ان کے سب کرتوت ایوان میں سامنے لاں گا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے ضمیر کے سامنے سرخرو ہوں، کسی کا کاسہ لیس نہیں ہوں، اپوزیشن کا مسئلہ قومی سلامتی نہیں مالی سلامتی ہے، ان کے لئے یہ قومی مفاد کا نہیں مالی مفاد کا معاملہ ہے، اپوزیشن شور مچا کر مجھے بولنے سے نہیں روک سکتی، میں نے کسی کا نام نہیں لیا، حقائق پر بات کی ہے، اپوزیشن نے فیصلہ کرنا ہے، وہ قومی سلامتی اور ملکی مفاد کے ساتھ کھڑی ہے یا اس کا مقصد ذاتی مفاد ہے۔  سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید نے کہا ہے کہ یہ اپوزیشن کم اور چھوئی موئی زیادہ ہے، یہ ذاتی مفاد کے لئے حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے پہلے خطاب کے فوری بعد حکومت کو ناکام قرار دے کر بلیک میل کرنے کی کوشش کی، انہوں نے مسئلہ کشمیر کے معاملے پر مختلف اوقات میں بلیک میلنگ کی کوشش کی، اپوزیشن بلیک میل کرنے کے لئے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جس میں انہیں ناکامی ہوئی۔ انہوں نے اپنے خطاب کے دوران بلاول بھٹو کو بے بی بلاول بھی کہ دیا جس سے اپوزیشن مزید غصے میں آگئی۔ مولا بخش چانڈیو، مشاہد اللہ، مصطفٰٰی نواز کھوکھر ،اسلام الدین شیخ نے شدید احتجاج کیا اور کہا ک قائد ایوان  ایوان کو چلانا کی بجائے اسے بلڈوز کرنا چاہتے ہیں۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ آپ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو صبح شام گری ہوئی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جبکہ ہم نے پاکستان کے لیے تعاون کیا تھا۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں کہا  ہے کہ اپوزیشن نے سینٹ میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق 2 ہم بل مسترد کئے،اینٹی منی لانڈرنگ اور اسلام آباد وقف املاک بل مسترد کئے گئے پہلے دن سے کہہ ررہا ہوں اپوزیشن رہنماوں کے مفادات ملکی مفادات سے متصادم ہیں احتساب کا عمل سخت ہو گیا ہے اپوزیشن رہنما اپنی بدعنوانی کے پیسے کو بچانے کیلئے سرگرم ہیں حکومت کی موثر کوویڈ 19 حکمت عملی عالمی سطح پر کامیابی کی پہچان بن چکی ہے اپوزیشن نے حکومت کی کرونا سے متعلق پالیسی پر تنقید کی اپوزیشن نے اب  پاکستان کی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکلنے کی کوشش کو سبوتاژ کیا ہے مشرف نے دو سیاسی رہنماؤں کو این آر او دبا قرضے چار گنا بڑھ گئے جو بھی  ہو جائے اپوزیشن کو این آر او نہیں ملے گا، این آر او دینا قوم کے اعتماد سے غداری کے مترادف  ہوگا،این آر او سے معیشت تباہ ہو رہی اب کوئی این آر او نہیں ہوگا اپوزیشن اپنی لوٹ مار کو جمہوریت کے پیچھے چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اپوزیشن دھمکیاں دیتی رہتی ہے این آر او نہ دیا تو حکومت گرا دیں گے اپوزیشن پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے بلیک لسٹ میں ڈلوانے سنے بھی گریز نہیں کرے گی۔

ای پیپر-دی نیشن