• news

 ملا عبدالغنی برادر کبھی پاکستان میں قید تھے‘ اب طالبان وفد کے سربراہ بن کر آئے 

اسلام  آباد( سہیل عبدالناصر)ملا عبدالغنی برادر، کبھی،پاکستان میں ایک قیدی کے طور پر موجود تھے لیکن اب طالبان کے مذاکراتی وفد کے سربراہ کی حیثیت سے دفتر خارجہ میں اس پاکستانی وفد کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے جس کی قیادت، وزیر خارجہ  شاہ محمود قریشی نے کی۔مذاکراتی دور کی جاری کردہ سرکاری تصویر میں ڈی جی آئی ایس آئی، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید  بھی نظر آ رہے تھے۔افغان طالبان، جو خود کو امارات اسلامی کہلواتے ہیں ان کے وفد کی  پاکستان آمد کم از کم  اعتبار سے ایک تاریخی واقعہ ہے۔پہلی  وجہ تو یہ ہے کہ طالبان اور پاکستان ، دونوں پر خفیہ تعاون کا الزام لگتا رہا ہے اور پاکستان کو طالبان کا واحد اور مستقل مزاج سر پرست  قرار دیا جاتا رہا ہے۔مغرب نے حقانی نیٹ ورک کا نام ایجاد کیا اور  مرحوم جلال الدین حقانی کے خانوادے اور پیروکاروں کو تو مکمل طور پر پاکستان کا بغل بچہ ہونے کا طعنہ ملتا رہا۔ طالبان وفد کی آمد کو تاریخ ساز بنانے والی دوسری وجہ یہ ہے کہ آج وہی مغرب، امریکہ کی زیر سرکردگی، طالبان کیلئے محبت کے جذبات کا اظہار کر رہا ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ باضابطہ بات چیت کیلئے سازگار فضا کی تشکیل میں کردار بھی ادا کیا۔ یہ سب اس لئے کیا گیا کہ امریکہ  ، افغانستان سے انخلاء کیلئے محفوظ راہداری درکار ہے، اپنی  انا بچانی ہے، شکست خوردہ ہونے کے تاثر سے بچنا ہے اور  انخلاء کے بعد کی افغان حکومت کے ساتھ  اپنے علاقائی مفادات کے تحفظ کیلئے  خوشگوار تعلقات رکھنے ہیں۔ملا برادر کی قیادت میں آنے والا طالبان وفد،  قوی ہیکل، باریش، اور    نفیس شلوار قمیص، واسکٹ اور پگڑی میں ملبوس مذاکرات کاروں پر مشتمل تھا۔ ان میں  نہائت منجھے ہوئے  سفارت کار بھی شامل تھے جنہوں نے دوحہ قطر اور دنیا کے متعدد دیگر مقامات پر ، امریکہ جیسی سپر پاور   کے انتہائی زیرک  وفود کے ساتھ برسوں تک  پیچیدہ  مذاکرات کئے۔  مستند سفارتی ذرائع کا دعوی ہے کہ ذلمے خلیل زاد  کی سفارت کاری میں ایک پہلو یہ بھی پنہاں ہے کہ وہ  امریکی افوج کے انخلاء کے بعد عبوری مدت کیلئے افغانستان کا سربراہ بننا چاہتے ہیں۔ان ذرائع کے مطابق ذلمے کی دلی خواہش تو یہ ہے کہ امن معاہدہ طے پانے کی اتنی بڑی کامیابی  کے بعد ، ڈونلد ٹرمپ کو انہیں امریکہ کا وزیر خارجہ نامزد کرنا چاہیئے  لیکن  انہیں اندیشہ ہے کہ  ٹرمپ ، دوسری بار الیکشن جیتتے بھی ہیں یا نہیں، اور جیت بھی گئے تو شائد سفید فام  نسل پرست ، ایک رنگدار ایشیائی کو امریکی وزیر خارجہ نامزد نہ ہونے دیں۔ اس کے برعکس،  اپنے آبائی ملک افغانستان کا سربراہ بننا ان کیلئے قدرے آسان منزل ہو سکتی ہے لیکن اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ طالبان ہیں جو  واضح کرتے رہتے ہیں کہ امریکی انخلاء کے بعد امارات اسلامی ،افغان دھڑوں کے ساتھ مشاورت کے بعد خود حکومت تشکیل دے گی۔ اسی رکاوٹ کے بارے میں  خلیل زاد،پاکستان سمیت ، اہم  ملکوں کے ساتھ دل کی بات کرتے رہتے ہیں۔  

ای پیپر-دی نیشن