تاجر وفد کی ملاقات، کراچی کے مسائل حل کر کے شہر کو 3 سال میں مکمل بدلا جائیگا: آرمی چیف
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) کراچی میں ممتاز بزنس مینز کے وفد نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی، جس میں وفد نے کراچی میں بارشوں کے باعث ہونے والے کاروباری نقصانات، شہری مسائل اور کاروباری مشکلات کے بارے میں آگاہ کیا۔ وفد کا کہنا تھا کہ کراچی کے ایشوز کو حل کرنے کے لئے یکسو ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملاقات کے بعد پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے بیان میں بتایا کہ ا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے نے کہا کہ کراچی کے مسائل کو حل کیا جائے گا اور تین سال کے عرصے میں کراچی کو مکمل تبدیل کیا جائیگا۔ سڑکیں، پانی، بجلی وگیس کے مسائل حل ہوں گے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوںکے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس میں بز نس کمیونٹی کو بھی نمائندگی دی جائے گی اور کراچی کے مسائل کو تیزی سے حل کیا جائے گا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ کراچی میں بارشوں سے جہاں معاشی، تجارتی، صنعتی اور سماجی سرگرمیاں رک گئی ہیں وہیں بندرگاہوں پر بھی کام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ملازمین اور مزدور کام پر نہیں آ پا رہے ہیں جبکہ کارگو لانے اور لے جانے میں بھی مشکلات حائل ہیں۔ اس صورتحال سے ہر قسم کی درآمدات اور برآمدات متاثر ہو رہی ہیں اور اگر صورتحال یہی رہی تو جلد ہی ملک بھر میں ضروری اشیاء کی قلت ہو جائے گی جس سے بحران اور مہنگائی جنم لے گی۔ جب تک کراچی کے انفراسٹرکچر کو بارش اور دیگر مسائل سے نمٹنے کے قابل نہیں بنایا جاتا ملکی ترقی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کراچی جو اس وقت سالانہ 2600ارب روپے قومی خزانے میں بطور ٹیکس جمع کرواتا ہے اگر اس کو ماڈل شہر بنا یا جائے تو یہ شہر قومی خزانے میں 4000 ارب روپے سے زیادہ جمع کرا سکتا ہے۔ کراچی کے زوال سے معیشت، سیاست، روزگار اور سماج پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم ترین شہر کراچی دنیا میں سب سے زیادہ بدانتظامی کا شکار ہے۔ کراچی کی تباہی میں تمام سٹیک ہولڈرز برابر کے شریک ہیں اور کسی ایک کو الزام نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ان تمام مسائل کے حل کیلئے اداروں کے سربراہان کو کراچی کے مسائل جلد حل کرنے کا پابند بنایا جائے۔ کراچی کے حالات کی وجہ سے درآمد و برآمد کنندگان کی کاروباری لاگت بھی بڑھ گئی ہے جو پہلے ہی کمزور انفراسٹرکچر اور لاجسٹکس کی وجہ سے زیادہ ہے۔ برآمد کنندگان کی مشکلات بھی کافی زیادہ ہیں اور گزشتہ 14 روز سے انکا مال پھنسا ہوا ہے اور اگر صورتحال کو بہتر نہ بنایا گیا تو گزشتہ کئی ماہ سے برآمدات میں ہونے والا اضافے کا سلسلہ رک سکتا ہے جس سے معاشی بحالی کی کوششوں کو دھچکا لگے گا جبکہ سب سے زیادہ نقصان ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل برآمد کرنے والے شعبے کو ہو گا جو مغربی ممالک میں وائرس کے بعد لگنے والی پابندیوں کے نرم ہونے کے بعد کاروبار میں بہتری کی توقع کر رہے تھے۔ بارش حکومت اور مرکزی بینک کی جانب سے معاشی بحالی کیلئے کئے گئے اقدامات کو تلپٹ کر رہی ہے جبکہ زرعی شعبے کو بھی زبردست نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس سے الگ مسائل جنم لینگے۔