بارش کی تباہ کاریاں،سپریم کورٹ کی گائیڈلائن
دنیا بھر میں کرونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ پاکستان بھی لپیٹ میں آیاہو ا ہے تاہم حکومت نے پوری توجہ، احتیاط اور ایس او پیز پرعمل کرانے پر مبذول کررکھی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرح وسائل نہ ہونے کے باعث کرفیو جیسے لاک ڈاؤن کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ محض سمارٹ لاک ڈاؤن پر اکتفا کیا جس کے خاطر خواہ نتائج بر آمد ہوئے۔ ملک میں سخت لاک ڈاؤن کے لیے حکومت پر بڑا دباؤ تھا اور اندر کی طرح باہر سے کرونا کاخوف باور کرایا جا رہا تھا۔ ایک رپورٹ میں تواگست کے ماہ میں لاکھوں افراد کے لقمہ اجل بن جانے کی منحوس افواہ بھی چھوڑی گئی۔ یہ شاید کسی کی خواہش ہوگی جو رپورٹ، پیش گوئی یا خدشے کے طور پرمیڈیا میں لا کر اڑائی گئی۔ آج اللہ کا شکر ہے کہ کرونا سے نجات مل رہی ہے۔ عید الفطر پر تھوڑی بے احتیاطی سے کرونا کے پھیلاؤ کا سلسلہ تیز ہو گیا مگر عیدالالضحیٰ پر حکومت نے سختی کے ساتھ ایسی بے احتیاطی ہونے نہیں دی تو صورتِ حال قابو میں رہی۔ آج پڑوسی ملک بھارت میں کرونا بے قابو ہو چکا ہے جبکہ پاکستان میں دنیا بھر کے اکثر ممالک کے مقابلے میں صورتِ حال بہت بہتر ہے۔بھارت میں گزشتہ روز ایک دن میں ستر ہزار لوگ کرونا میں مبتلا ہوئے وہاں ہلاکتیں ساٹھ ہزار سے متجاوز ہوچکی ہیں۔کسی ملک میں کرونا کا گراف نیچے اور کہیں نیچے جا کے اوپر آرہا ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں کرونا کے پھیلائو کا سلسلہ تقریباً رُک گیا ہے۔ کرونا سے جہاں تیزی سے نجات مل رہی ہے وہیں ہم اس چُنگل سے نکل کر بارشوں کے جنجال میں پھنس گئے ہیں۔کرونا آفت سماوی کے زمرے میں آتی ہے مگر بارشیں تو رحمت خداوندی ہیں۔بارشوں کو اگر زحمت اور عذاب بنایا گیا ہے تو یہ ہمارا اپنا قصور ہے۔بر وقت اقدام اور حکمت عملی سے بارشوں کے پانی کو سوہانِ روح بننے سے روک کر اسے حیات آفریں بنایا جاسکتاہے جبکہ لاپروائی سے یہی پانی شہروں اور بستیوں کو سیلاب کی صورت میں بہا کر تاراج کردیتا ہے جس کا ہم پاکستانیوں کوتلخ تجربہ ہے۔ جس سے ہر دوسرے نہیں توتیسرے چوتھے سال دوچار ہونا پڑتا ہے۔کسی نے یہ درست کہا ہے۔
"A stitch in time saves nine"
بارشوں سے کراچی بُری طرح متاثر ہوا ہے۔گلیوں، بازاروں میں پانی دریاؤں اور ندیوں کی صورت بہتارہا ۔ منچلے کشتی چلاتے اور کئی توچھتوںسے چھلانگیں لگاتے نظر آئے۔ یہ کچھ لوگوں کے لیے شاید تفریح ہو مگر کراچی کے اکثرباسیوں کی زندگی عذاب بن گئی۔پوش علاقوں سمیت ہر جگہ پانی کھڑا ہے۔ جس میں مچھروں، مکھیوں کی افزائش ہو رہی ہے اور پانی کی سڑاندسے لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔کراچی سے میری اُنسیت کی ایک وجہ اس سے خاص نسبت ہے۔ تقسیم کے موقع پر ہمارا پہلا مسکن بٹالہ سے کراچی تھا۔ یہ کم سنی سے اور لڑکپن کی دہلیزپر قدم رکھنے کا دورتھا۔ سفر اور ہجرت کی کلفت چند روز میں کافور ہو گئی۔ ان دنوں کراچی روشن اور اجلا ہوا کرتا تھا۔ بارشیں ہوتی تھیں مگر انسانی زندگی کبھی عذاب نہ بنتی۔ نشیبی بستیوں میں پانی ضرور جمع ہو جاتا مگر شاہراہیں اور بازار اس طرح نہ ڈوبتے جیسے اب ڈوبے ہیں۔
عروس البلاد کا انتظام و انصرام آسان نہیں مگر ارتقا اپنے راستے خود کھوج لیتا ہے۔زمانے کی رفتار کے ساتھ ہم قدم رہنے سے مسائل سامنے آنے سے قبل حل بھی ہوچکے ہوتے ہیں۔بشرطیکہ دیہات کے کچے گھروں کی طرز پر لیپا پوتی ہوتی رہے۔ ان گھروں کو دو تین سال لاوارث چھوڑنے والوں پر چھت اور دیواریں گر پڑتی ہیں۔ کراچی کو ایک عرصہ سے نہ صرف لاوارث چھوڑ دیا گیا تھا بلکہ جس کے ہاتھ اس عمارت کی اینٹ یا شہتیر بالاآیا وہ لے اُڑا۔ایسے میں پُر شکوہ محلات بھی کھنڈر بن جاتے ہیں۔ کراچی کے ڈوبنے سے قبل کراچی کے مسائل کے حل، نکاسئی آب اور نالوں کی صفائی،تجاوزات کے خاتمے اور دیگر اس سے جڑے معاملات کو درست کرنے کے لیے چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد ہر ممکن کوشش کرتے نظر آئے اس سے اصلاحِ شہر میں بڑی مدد بھی ملی مگر وہ سب کچھ نہیں ہو سکا جو ہو جاتا تو آج کراچی والوں کو قیامت صغریٰ کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
آج کی مخدوش صورت حال کا کسی قدر اطمینان بخش پہلو یہ ضرور ہے کہ کراچی کو ان مسائل سے مستقلاً نجات دلانے کے لیے مرکزی اور سندھ حکومت نہ صرف ایک پیج پر ہیں بلکہ اس ایشو پر سیاست سے بھی گریز کیا جا رہاہے اور پھر سپریم کورٹ بھی اس صورت حال کو مانیٹر کر رہی ہے۔ لہٰذا بہتری کی یقین کی حد تک امید ہے۔کراچی دہشتگردی کے باعث تاریکیوںکی نذرہوا اورایک عرصہ اندھیروںمیںڈوبارہا، دہشتگردی کے بادل چھٹنے سے کراچی کی روشنیاں لوٹ رہی ہیں۔ کراچی کو روشن صاف اور خوبصورت بنانے کے لیے ہر شہری کو بھی کردار ادا کرنا ہے ۔ایک تحریر نظر سے گزری جس میں بیروت جو خانہ جنگی کی وجہ سے اُجڑے دیار کی عکاسی کرنے لگا تھا وہاں شہریوں نے اس کے تحفظ کی تحریک چلائی جو ثمر بار ثابت ہورہی ہے،ایسی تحریک کراچی کی شان وشوکت کی بحالی کیلئے کیوں نہیں چل سکتی۔سردست کراچی کو بنیادی مسائل سے نجات دلانے کی ضرورت ہے ۔اس حوالے سے برادرم قیوم نظامی کا حالیہ نوائے وقت میں شائع ہونے والا کالم حکومت،سیاسی پارٹیوں اور کراچیئنز "karachiens" کیلئے چشم کشا ہے۔کراچی کو بارشوں کی ستم گری سے بچانا دیگر شہروں کی نسبت اس کے سمندر سے متصل ہونے کے باعث آسان ہے۔
بہتر پلاننگ نہ ہونے سے بارشوں کا پانی عذاب بن جاتا ہے۔جس سے اس کے ساتھ جڑے کئی مسائل اس عذاب میں طوفانِ بلا خیز کا کام کرتے ہیں۔ایسے میں کہیں بجلی کی بدترین قلت اور کہیں کرنٹ سے اموات ہوتی ہیں۔راستے مسدود ہونے سے دیگر ضرویاتِ زندگی کے ساتھ خوراک کی منڈیوں تک اور پھر گھروں میں ترسیل مشکل ہوجاتی ہے۔
کراچی میں آج بجلی کی لوڈشیڈنگ ایک عفریت بن چکی ہے۔اس پر سپریم کورٹ بھی برہم دکھائی دیتی ہے۔گزشتہ روزچیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سندھ میں غیراعلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ سے متعلق اپیل پر سماعت کی، جہاں عدالت نے کے-الیکٹرک اور پاور ڈویژن پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔عدالت نے سماعت کے بعد تفصیلی حکم نامہ جاری کیا، جس کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ 'پاور ڈویژن کی جانب سے جواب داخل کرایا گیا اور عدالت نے اس کی جانچ کی جو ناقابل قبول تھا'۔وہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ کرنٹ سے ہلاکتوں کے مقدمے میں سی ای او کے الیکٹرک کا نام شامل کیا جائے۔تفصیلی حکم نامے میں کہا گیا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاورڈویژن اور نیپرا کے ساتھ ساتھ این ٹی ڈی سی کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔چیف جسٹس نے تحریر کیا کہ وزارت توانائی کو تمام متعلقہ اداروں سے مکمل رابطے کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور کے-الیکٹر کے ساتھ ون ونڈو آپریشن ہونا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ نے لکھا کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان 13 اگست کو کے-الیکٹرک سے متعلق سماعت میں پیش ہوئے تھے اور اب کراچی کے حالات بد سے بدتر ہوچکے ہیں اور مزید خراب ہوتے جارہے ہیں۔ کراچی میں بجلی کی صورت حال پر حکم نامے میں انہوں نے کہا کہ تقریباً آدھے کراچی میں بجلی نہیں ہے۔ آنے والے سالوں میں پانی کے مسئلے کی ایک اہم جہت آب و ہوا کی تبدیلی کا رجحان ہے ، جو بحران کو ایک نازک سطح پر لے جاسکتاہے ۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات کی وجہ سے مستقبل میں پانی کی قلت کا مسئلہ اور زیادہ سنگین ہو جائے گا۔
سپریم کورٹ نے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میںکراچی کو مسائل سے نجات دلانے کیلئے گائیڈ لائن دیدی ہے۔جو حالیہ دنوں ہفتوں اور مہینوں میں کیسز کی مختلف سماعتوں کے دوران دی گئی اس پر عمل سے کراچی کی رونقیں پھر سے بحال ہونگی اور کراچی کو گونا گو مسائل سے نجات مل سکے گی۔