ڈرائیونگ سیٹ اور ایف اے ٹی ایف
سابق وزیر اعظم میا ں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے عید الاضحیٰ کے بعد ’’چپ کا روزہ ‘‘ توڑ دیا ،دیکھیں اب یہ روزہ کب تک ٹوٹا رہے گا۔ میاں نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں ۔اگر وہ کہیں بیٹھ کر کافی سے لطف اندوز ہولیں اور تصویر شائع ہوجائے تو میڈیا میں چند دنوں رونق لگ جاتی ہے ، اس بات پر تمام سنجیدہ مبصرین یک زبان ہیں کہ یہ تصویر ہرگز ’’لیک نہیں ہوتی ‘‘بلکہ کی جاتی ہے ، اور اب ’’اللہ جانے کون بشر ہے ‘‘والی بات ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت اپنے دور اقتدار میں چند دن بھی سکھ کا سانس نہیں لے سکی ، مگر ایمانداری سے دیکھا جائے کہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں جو چند سال سیاست دانوںکو ملے ، جسے جمہوریت کا نام دیا گیا کبھی بھی کوئی سیاسی حکومت سکھ کا سانس نہ لے سکی ، اس میں بیرونی عوامل کے علاوہ انکی اپنی محنت بھی شامل ہے جو وہ جمہوریت کے نام پر برسراقتدار آکر تمام غیر جمہوری اقدامات کو عوام پر لاگوکرتی ہے جس سے عوام میں جمہوریت کے خلاف راہ ہموار ہونے میں مدد ملتی ہے ۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں گھسیٹنا اس خطے میں جس شدت سے ہمارے ہاںہے اتنی کشاکش دنیا میں کہیں نہ ہوگی ۔ جس سے جمہوریت پروان ہی نہیں چڑھتی،اور وہ نعرہ دم توڑ دیتا ہے کہ ’’ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے ‘‘ اس نعرے کو لگا کر سیاست دان ایک دوسرے سے انتقام لینے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں اسوقت جو کساد بازاری ہے، بھوک افلاس ، بے روزگاری ہے اس پر کبھی ستر سالوں میں اسمبلیوںکے بائیکاٹ کی خبر نہیں آئی، اس پر کوئی مظاہرہ نہ ہوسکا، کوئی دھرنا نہ ہوسکا ، جو حکومت اقتدار چھوڑکر جاتی ہے یا جس سے اقتدار چھڑوایا جاتا ہے آنیوالے دنوںمیںحالات اس سے بدتر ہوجاتے ہیں اور پاکستان ایک بند گلی کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔
بی بی مریم نواز نے چپ کا روزہ ایسا توڑا کہ یہ نوید بھی دے دی کہ بہت جلد میاں نواز شریف پاکستان کی سیاست میں ڈرایئونگ سیٹ پر ہونگے، ہمارا خیال تھا کہ بیٹی ہونے کے ناطے بی بی مریم اپنے والد سے جو بیمار ہیں ان سے بے پناہ محبت کرتی ہونگی مگر اس کانٹوں سے آراستہ ڈرائیونگ سیٹ پر انکے آنے کا معاملہ سمجھ سے بالا تر ہے۔حکومت جو میاں نواز شریف کو بھیجنے میں ساجھے دار نہ تھی ، اور نہ ہی وہ انہیں لا سکتی ہے صحت کے معاملات تو پاکستان کے معصوم عوام کیلئے ہیں یہ تماشہ تو عوام کئی سالوںسے دیکھ رہے ہیں ، جیسے مشرف کو پاکستان میں عدالت نے طلب کیا ، وہ عدالت کے راستے سے ہی ہسپتال پہنچا دیئے گئے چونکہ یہ انکی توہین تھی کہ وہ عدالت میں پیش ہوں، توہین عدالت تو ہوسکتی ہے مگر مشرف کی توہین نہیں ہوسکتی کہ وہ عدالت آئیں ، وہ مفرور قرار دے دئیے گئے ، مگر تاحال لندن اور دوبئی کی یا ترا کررہے ہیں ، میاںنواز شریف پر بظاہر کرپشن کے الزامات ہیں ، جنہیں ہر دو ماہ بعد حکومت دعویٰ کرتی ہے انکی واپسی کا ،جبکہ دوسری جانب وطن عزیز کی بہادر افواج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے ، ہندوستان کو مدد کیلئے آوازدینے سمیت اسطرح کے بے شمار سنگین اوقبیح الزمات والے لانے والے ایم کیو ایم کے بانی کو الطاف حسین کو واپس لانے کی بات نہیں ہوتی ۔ جبکہ انکی جماعت اور انکے ساتھیوں کو ’’نہلا دھلا ‘‘ کر ایم کیو ، ایم پاکستان کا نام دے دیا گیا۔
نواز شریف حکومت کو زیادہ خطر ناک لگتا ہے۔ اسلئے اسے لا سکو یا نہ لاسکو واپسی لانے کا شور ضرور مچائو۔۔۔کہتے ہیں کہ جب تک بھیجنے والے از خود یہ طے نہ کرلیں( چاہے سیاسی لوگ ہوںیا غیر سیاسی ) جس دن طے ہوگیا کہ میاںنواز شریف کو آنا ہے وہ پیدل لندن سے پاکستان کیلئے روانہ ہوجائینگے ، یہ پاکستان کی تاریخ میں ہوچکا ہے ۔بے نظیرشہید نے جب جلاوطنی کاٹی تو پاکستان آنے سے قبل پرویز مشرف اور انکے نمائندوں سے کئی مرتبہ ’’ملاقاتیں‘‘ ہوئیں،یہاںتک کہ لندن تک ’’ہرکارے ‘‘گئے تھے ۔ جب میاں نواز شریف جدہ سے اپنی جلاوطنی ختم کرکے پاکستان روانہ ہوئے تو اس سے قبل انکی جدہ کی رہائش گا ہ پر ’’ہرکاروں ‘‘ کی آمد و رفت تو میںنے اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھی ہے ۔حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے پر بلیک میلنگ کا الزام لگاتی ہے اور اپنا وقت پور ا کرتی ہے جسکے نتیجے میں لوگوں کے مسائل جوںکے توں رہتے ہیں بلکہ مزید شدید ہوجاتے ہیں، کوئی بھی حکومت حزب اختلاف سے بیٹھ کر کم از کم قومی معاملات پر بات کرنے سے گریزاں رہتی ہے ، بعض معاملات جس ملکی سا لمیت کے ہیں ان پر بحث مباحثہ ہوتا ہے ۔ چند دن الزام تراشیاںپھر یک دم کسی ’’غیبی طاقت ‘‘ سے متنازعہ معاملات پر یک جاںن دو قالب ہوجاتے ہیں ۔ آج کاایک گرما گرم موضوع FATF بھی ہے ، جس پر ہمارے میڈیا کی روٹی لگی ہوئی ہے اور لاحاصل مباحثے ہورہے ہیں ۔ ایک صبح پوری اسمبلی اور سیاسی جماعتیںیک زبان ہونگی چونکہ یہ واقعی ہی قومی معاملہ ہے ، پاکستان ایف اے، ٹی ایف کے گرداب میں بھی سیاسی جماعتوں اور، مشرف جیسے آمروں کی وجہ سے آیا جب ہم نے امریکہ کے کہنے پر افغان مسئلے پر جنگجوئوں کی سرپرستی شروع کی ، شدت پسند مذہبی لوگوں نے مدرسوںکو ہتھیار کی مخزن بنایا ، ان سب معاملات کیلئے رقم چاہئے ہوتی ہے جو کسی غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی بالآخر یہ رواج چل نکلا ، اور اس کا خمیازہ پاکستان کی نیک نامی اور عوام کو بھگتنا پڑا ، جب سے پاکستان اس ایف اے ٹی ایف کے ایجنڈے پر آیا ہمارا ازلی دشمن پاکستان کو بدنام کرنے ، نقصان پہنچانے کے ایسے مواقع پر نچلا نہیں بیٹھتا ، پاکستا ن دشمن قوتیں مصروف ہوجاتی ہے ، ہمارے عوام پہلے ہی کوئی تعلیم کی رغبت نہیں رکھتے ، دوسری جانب جس طر ح آج تک عوام کو کالا باغ ڈیم کیا ہے؟ نہیں بتا سکے اور اسے سیاسی مسئلہ بنا دیا ، اسکی حمایت یا مخالفت صوبوںکی بنیاد پر ہوتی ہے ،پتہ کسی کو کچھ نہیں کہ ہے کیا ؟؟اسی طرح ایف اے ٹی ایف بھی عوام کی سمجھ بوجھ سے باہر ہے۔ حزب اختلاف کو پسند کرنیوالے یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف ملک کا سودا کررہی ہے ، جبکہ حکومت کے حامی یہ کہتے ہیں حزب اختلاف ملک دشمن ہے۔ ایف اے ٹی ایف پر سب کو حکومت کا ساتھ دینا چاہئے اور ایف اے ٹی ایف کی جانب سے کہے گئے تمام احکامات کو ماننا چاہئے ، کاش یہ ہوتا کہ حکومت اور حزب اختلاف یک زبان ہوکر یہ کہیں کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے نکات میںکشمیر جیسے معاملات پر نظر ڈالی جائے کہ ہندوستانی دہشت گردی تو وہاںہے ، جب پاکستان کشمیر کی حمائت کرتا ہے تو ہندوستانی الزام کہ پاکستان دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے ، اور دنیا کی نظریںہم پر آکر جم جاتی ہیں ۔ کاش ہماری سفارت کاری ، اور معیشت ایسی ہوتی کہ ایف اے ٹی ایف میں ہم سر اٹھا کر بیٹھتے۔ ہم پر منی لانڈرنگ ، دہشت گردی وغیرہ کے لغو الزامات نہ لگتے ، ذیل میں اس تنظیم کا مختصر تعارف قارئین کیلئے ضروری ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) مالی جرائم سے نمٹنے کیلئے پالیسیاںبناتی ہے۔ ایف اے ٹی ایف 1987 میں جی 7 کے کہنے پر تشکیل دیا گیا تھا اور اس کا صدر دفتر پیرس میں ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس، یا ایف اے ٹی ایف کو اصل میں منی لانڈرنگ سے نمٹنے کیلئے شروع کیا گیا تھا۔ اس میں توسیع کی گئی ہے تاکہ بڑے پیمانے پر تباہی، بدعنوانی، اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو بھی نشانہ بنایا جاسکے۔ ٹاسک فورس کا آغاز 1989 میں پیرس میں کیا گیا تھا تقریبا تمام ترقی یافتہ ممالک ایف اے ٹی ایف کی حمایت کرتے ہیں یا انکے ممبر ہیں۔دراصل عالمی معیشت کے عروج اور بین الاقوامی تجارت نے منی لانڈرنگ جیسے مالیاتی جرائم کو جنم دیا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) مالی جرائم سے نمٹنے کیلئے سفارشات دیتی ہے چونکہ منی لانڈررز اور دیگر افراد کسی بھی خدشے سے بچنے کیلئے اپنی تکنیک میں ردوبدل کرتے ہیں، لہذا ایف اے ٹی ایف کو ہر چند سالوں میں اپنی سفارشات کو اپ ڈیٹ کرنا ہوتا ہے 2001میں دہشت گردوں کی مالی معاونت سے نمٹنے کیلئے سفارشات کی ایک فہرست شامل کی گئی تھی، اور تازہ ترین شرائط ، جو 2012 میں شائع ہوئی تھی، سفارشات میں توسیع کرکے نئے خطرات کو نشانہ بنایا گیا، جس میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی مالی اعانت بھی شامل ہے۔ شفافیت اور بدعنوانی پر واضح ہونے کیلئے سفارشات بھی شامل کی گئیں۔اس تنظیم کے 37 ممبران ہیں ۔