برطانوی کرنسی پر گاندھی کی متوقع تصویر…
مؤقر برطانوی روزنامہ The Times کے معروف فری لانس صحافی‘ سابق پروڈیوسر‘ بی بی سی ورلڈ سروس اور بی بی سی نیوز کے سابق سینئر ایڈیٹر جواد اقبال نے حال ہی میں شاہی سکہ بنانے والی کمپنی Royal Mints کے حوالہ سے برطانوی کرنسی پر لگائی جانے والی آنجہانی مہاتما گاندھی کی متوقع تصویر کے بارے میں لکھے اپنے تاریخی آرٹیکل میں گاندھی کے مذہبی عقائد اور ان کے متعصبانہ اور نسل پرستانہ رویے پر جاندار تبصرہ کیا ہے۔ جس سے یہاں پروان چڑھنے والی نئی اور پرانی ایشیائی نسل کی تاریخی معلومات میں جہاں بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہاں عالمی سطح پر پھیلائی بھارتی لابیوں کی بھارت نواز پالیسیوں کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔ برطانوی کرنسی پر گاندھی کی متوقع تصویر لگانے کی بنیادی وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے جواد اقبال نے یہ واضح کیا کہ مہاتما گاندھی کی نسل پرستانہ پالیسیوں کی بناء پر برطانوی کرنسی پر ان کی تصویر دکھائی جانا اس لئے بھی باعث حیرت ہے کہ خود کو ہندوستان کا خود مختار لیڈر کہلوانے اور اپنی متنازعہ مذہبی پالیسی کو بظاہر امن پسندی کا مظہر قرار دیتے ہوئے کالے افریقی لوگوں کو گندے اور حیوانوں کی سی حرکات کا مرتکب قرار دینے والے ایسے متنازعہ شخص کی برطانوی کرنسی پر تصویر لگانے کو ’’رائل منٹس‘‘ نے آخر کیوں ضروری تصور کیا؟؟ جبکہ وہ اس خصوصی اعزاز کے قطعی حقدار نہیں۔ جواد نے اپنے مضمون میں مزید لکھا کہ برطانوی کرنسی پر لگائی جانیوالی متوقع تصویر کے انتخاب کیلئے 2 ایسی خواتین اور بھی امیدوار ہو سکتی تھیں جن کی اعلیٰ قومی خدمات پر انہیں اس اعزاز کیلئے منتخب کیا جا سکتا۔ Mary Seagole نامی نرس جو جمیکا میں پیدا ہوئی اور جس نے ایک سمندری جزیرے میں اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر زخمی اور مرنے والے برطانوی فوجیوں کی بر وقت غیر معمولی مدد کی اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے دوران جاسوسی کرنیوالی برطانوی مسلم خاتون نور عنایت خان تھی جسے نازیوں نے Dachau کے نظربند کیمپ میں گرفتار کرنے کے بعد سزائے موت دی۔ اس اعزاز کی مستحق ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ عہد شباب میں گاندھی جب وکیل تھے انکے نسل پرستانہ خیالات انتہا کو چھو رہے تھے۔ افریقی لوگوں اور انکے طرز معاشرت کو وہ انتہائی حقیرانہ نظروں سے دیکھتے تھے۔ انکے یہ خیالات آج بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔’’برطانوی کرنسی‘‘ پر تصویر لگانے کے مقابلے میں مزید کئی دیگر رنگدار شخصیات کا انتخاب بھی کیا جاسکتا تھا؟ 1875ء میں لندن میں پیدا ہو کر کرائیڈن میں پروان چڑھنے والے ’’سیموئیل کولرج‘‘ جنہوں نے ایک ممتاز کلاسیکل میوزک کمپوزر کے حوالے سے شہرت حاصل کی ایک اور تاریخی شخصیت ’’والٹرئل‘‘ جنہوں نے پہلی جنگ عظیم میں برطانوی افواج میں بصور پہلے رنگدار کمیشنڈ آفیسر شامل ہونے کا غیر معمولی اعزاز حاصل کیا۔ اسی طرح رنگدار Claudia Jones کو جنہوں نے نسلی تعصب کے خاتمہ کیلئے ایک بھرپور مہم چلاتے ہوئے ’’ناٹنگ ہل کارنویل‘‘ کو روشنی دکھائی منتخب کیا جا سکتا تھا مگر غیر سفید فام شخصیت کی تصویر کے حوالہ سے مہاتما گاندھی کا متوقع انتخاب دیگر اہم رنگدار اقلیتی طبقے کیلئے سوالیہ نشان ضرور ہو گا۔ جواد اقبال نے ’’رائل منٹس ایڈوائزری کمیٹی‘‘ کو یہ مخلصانہ مشورہ بھی دیا ہے کہ مہاتما گاندھی کی تصویر کے بارے میں اپنے فیصلے سے قبل وہ دوبارہ اس پر غور ضرور کرے۔جواد اقبال کے مذکورہ آرٹیکل پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات سمیت روزنامہ ٹائمز اور سنڈے ٹائمز کے قارئین کی ایک بڑی تعداد نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے مگر میرے ذہن میں سوال اب یہ اٹھ رہا ہے کہ آخر وہ کون سے ایسے عوامل ہیں جن پر فوری عمل پیرا ہو کر Mints کی ایڈوائزری کونسل کے معزز ارکان کو گاندھی کی کرنسی پر تصویر لگانا ناگزیر ہے۔ ملکہ عظمیٰ کی تصویر کئی سو دہائیوں سے جاری برطانوی پائونڈز‘ برطانوی کائینز اور برطانوی پاسپورٹ کا دنیا بھر میں آج بھی اپنا کیا منفرد اور غیر معمولی مقام ہے۔ مستقبل قریب میں گاندھی کی تصویر سے جاری برطانوی نوٹ اور برطانوی کائنز برطانوی مارکیٹ سمیت دنیا بھر میں اگر پھیلا دیئے جاتے ہیں تو برطانیہ کی ملٹی کلچرل سوسائٹی میں اس حوالے سے سوالات ضرور اٹھائے جائینگے۔ سب سے بڑا سوال مودی سرکار کا بے گناہ اور نہتے کشمیریوں پر سلسلہ وار جاری رکھے مظالم اور جارحیت کے بارے میں گاندھی کی تصویر کے حوالہ سے اٹھایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی عدم سیکولر پالیسیوں کے اصل روح رواں تو گاندھی تھے ’’جنکی تصویر‘‘ دیکھنے سے بھارت میں اقلیتوں اور مسلمانوں کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے بھارتی مناظر کی یاد ہر وقت تازہ ہوتی رہے گی۔ اس لئے Royal Mints کی ایڈوائزری کمیٹی کو ہم بھی یہ مخلصانہ اور صائب مشورہ دیں گے کہ شاہی سکوں پر کسی انتہائی اہم اور تاریخی رنگدار شخصیت کی تصویر اگر لگانا ہی ہے تو برطانوی تاریخ کے اوراق میں سمائی برطانوی اداروں سے وابستہ ان شخصیات کا کھوج لگائیں جنہوں نے ’’برٹن‘‘ کو ’’گریٹ‘‘ بنانے میں اپنا خون‘ محنت‘ وفاداری‘ علم و تربیت اور دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے اپنی زندگیاں تک وقف کر دیں۔