6ستمبر 1965ء اور ٹی از فنٹاسٹک
بھارتی اداکارہ کنگنار ناوت کی نئی فلم ’’تیجاس‘‘ کا پوسٹر سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا جس میں کنگنا بھارتی فضائیہ کی یونیفارم پہنے جیٹ طیارے کے پاس کھڑی ہیں۔ دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ لاہور چائے پینے کا ارمان بھارتی سورماؤں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ ابھی نندن کو ہی دیکھ لیجئے 2.9ملین ڈالرز کا مگ۔21 طیارے کے بدلے پاکستان کی چائے پینے آگیا اور چشمِ فلک نے ملاحظہ کر لیا کہ ابھی نندن نے نہ صرف پاک فوج کو دنیا کی پروفیشنل ترین فورس کہا اور یہ بھی کہا کہ: ’’ٹی از فنٹاسٹک‘‘! لاہور چائے پینے کا خواب تو 6ستمبر1965ء کو ایک بھارتی جرنیل نے بھی دیکھا تھا کہ ’’ہم 11بجے لاہور کے جم خانہ میں چائے پئیں گے لیکن 1965ء پاک بھارت جنگ میں افواجِ پاکستان نے بہادری اور بہترین جنگی حکمتِ عملی سے دشمن کے ایسے دانت کھٹے کیے کہ انکے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ 6ستمبر کو ریڈیو پاکستان سے جنرل ایوب نے یہ اعلان بلند کیا کہ ’’لا الہ الا اﷲ کو ماننے والوں پر ہندوستان نے حملہ کر دیا ہے۔ لاہور کے زندہ دل بہادر شہریوں! عیار دشمن نے اس جنگی آزمائش کیلئے سب سے پہلے تمہارا انتخاب کیا، مجھے کامل یقین ہے کہ مستقبل کا مؤرخ تمہاری شجاعت کو بے مثال کہے گا، لہٰذا آگے بڑھو اور دشمن کی توپوں کو ہمیشہ کیلئے خاموش کر دو‘‘۔ دشمن 5گنا بڑا تھا، اسلحہ، گولہ بارود اور سپاہی، ٹینک! مگر پاک فوج کے حوصلے اصحابِ بدر کی مانند بلند تھے۔ بھارتی فوج بلا جواز اور اچانک پیش قدمی کرتی ہوئی واہگہ بارڈر سے بی آربی نہر کے پل تک پہنچ گئی۔ …؎
خطہء لاہور تیرے جانثاروں کو سلام
ارضِ شالامار راوی کے کناروں کو سلام
اسی طرح چونڈہ سرحد سے بھارتی فوج ٹینکوں سمیت داخل ہونے لگی تو پاک فوج حتیٰ کہ عوام نے وطنِ عزیز پاکستان کی بقاء و سلامتی کیلئے جسموں کے ساتھ بارود باندھ لیا اور بھارتی ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر اِنکے پرخچے اُڑا دئیے۔ مزید برآں ایم ایم عالم نے 30سیکنڈز میں 5بھارتی جہاز مار دئیے۔
اے وطن اے عالمِ اسلام کی تابندگی تجھ پر سلام
اس جہاں کی تیرگی میں اے نظر کی روشنی تجھ پر سلام
بھارتی فوج پر خوف طاری ہوگیا کیونکہ جو جذبہ بھارتی فوج نے پاکستانی عوام میں دیکھا ایسا کبھی کسی بالی وڈ فلم میں بھی نہیں دیکھا کہ ساری کی ساری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کا روپ اختیار کر گئی ہو۔ اگر کسی کے پاس ہتھیار نہیں تھا تو عوام ڈنڈے پکڑ کر بارڈر کی جانب رواں دواں تھے۔ بچوں نے معوذؓ اور معاذؓ کی مانند ہاتھوں میں پتھر اُٹھائے ہوئے تھے۔ 1965ء کی جنگ کے دوران شاعروں، موسیقاروں، گلوکاروں، بالخصوص میڈیم نور جہاں، مہدی حسن سمیت تمام تر فنکاروں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایسے کارنامے سرانجام دئیے کہ جذبہ حب الوطنی کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔
اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں
سترہ روز جاری جنگ نے دشمن کو اپنے زخم چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ بھارت کی خوش نصیبی کہ عالمی برادری نے ثالثی کردار ادا کیا اور جنگ بندی ہوگئی۔ یوں بھارت مزید رسوائی اور پسپائی سے بچ گیا۔ 1965ء تو کیا 2020ء اور تاقیامت ہم اپنی پاک سرزمین پر بھارتی فوج کے چائے کے خواب کو چکناچور کرتے رہیں گے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مودی کی قیادت میں بھارتی سینا ’’رافیل طیاروں‘‘ کے بل بوتے پر پھر سے جنگی ضبط میں مبتلا ہے۔ کبھی رافیل طیاروں کی لیموں، کوکونٹ سے پوجا کی جاتی ہے تو کبھی کنگنار ناوت کے پیچھے جنگی طیاروں کے پوسٹر آویزاں کیے جا رہے ہیں۔ جس پر عالمی برادری بھارتی فوج کو خاصا طنزومذاق کا نشانہ بنا رہی ہے۔ تو کبھی گوتم گھمبیر کے ’’بڑے پرندے‘‘ کہنے پر آسٹریلوی صحافی کی جانب سے احتیاط کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ دھیان سے!!! اگر غلطی سے پاکستان میں داخل ہوگئے تو اسی وقت کباڑ کا ڈھیر بنا دئیے جائینگے۔ بھارتی میڈیا اب چیلنج کر رہا ہے کہ 1965ء کو چھوڑو اب کی فکر کرو۔ بھارت یہ بات ذہن نشین کرلے کہ 1965ء میں آبادی کم تھی اور اتنا شعور بھی نہیں تھا اگر اب ایسے حالات پیش آئیں تو آرمی اور عوام مل کر ایسا سبق سکھائیں گے کہ بھارت تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائیگا۔