• news
  • image

جماعت اسلامی کا بڑا اعلان، جوتیاں کس کو پڑیں گی؟

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کہتے ہیں کہ کراچی کے معاملے پر اگر بات صرف پریس کانفرنسز اور سیاست تک رہی تو پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی دونوں کو عوام سے جوتیاں پڑیں گی۔ اسد عمر نے سچ بولا ہے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے لیکن وفاقی وزیر شاید بھول چکے ہیں دونوں جماعتوں کو اس وقت بھی جوتیاں ہی پڑ رہی ہیں لیکن یہ سمجھ نہیں رہے کیونکہ اقتدار اور طاقت کے نشے میں عوام کی جوتیاں اثر نہیں دکھاتیں حکمرانوں کو اللہ کی پکڑ ہی سیدھا راستہ دکھاتی ہے۔ اگر بات جوتیوں سے بنتی ہو یا عوام کی جوتیاں اثر دکھاتی ہوں یا ان میں اتنی طاقت ہو تو انیس سو پچاسی دو ہزار اٹھارہ تک جو کچھ ہوا ہے وہ نہ ہوتا اور جو بالخصوص گذشتہ ایک سال میں عوام کے ساتھ ہوا ہے وہ تو بالکل نہ ہوتا۔ اسد عمر کو اگر کوئی شک ہے کہ پاکستان کے عوام پی ٹی آئی کی قیادت کو پھولوں کے ہار پہناتے ہیں تو وہ عوام میں جائیں کسی مارکیٹ میں جائیں انہیں خوب اندازہ ہو جائے گا کہ عام آدمی کے جذبات کیا ہیں۔ ایک ووٹر پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت بارے کیا رائے رکھتا ہے، کیا سوچتا ہے اور کیا کہتا ہے یہ جاننا مشکل نہیں ہے۔ اسد عمر ووٹ لے کر آئے ہیں انہیں دوبارہ بھی عوام کے پاس جانا ہے خیالی مڈٹرم الیکشن مہم کا خاکہ بنائیں اور عوام کے پاس جائیں حقیقت واضح ہو جائے گی۔ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ویڈ یوبیان جاری کرنا، کابینہ کے اجلاسوں میں بڑی بڑی باتیں کرنا غلط اعدادوشمار وزیراعظم عمران خان کے سامنے رکھنا بہت آسان ہے لیکن حقیقت کا سامنا کرنا مشکل ہے۔ جس کے پاس کھانے کو آٹا، بچوں کو پلانے کے لیے دودھ، بیمار والدین یابہن بھائیوں کے لیے ادویات، بچوں کی سکول فیس کے لیے پیسے، پھل اور سبزی خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوں گے اسے نام نہاد تبدیلی سے کچھ غرض نہیں ہے۔ عوام نے ووٹ اس لیے نہیں دیا تھا کہ وہ دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ اسد عمر کس کراچی کی بات کر رہے ہیں اور انہیں کن منصوبوں کی فکر کھا رہی ہے یہ منصوبے کبھی ہوتے ہیں کبھی نہیں ہوتے لیکن زندگی کے لیے کھانا پینا سب سے اہم ہے آپ کی پالیسیوں اور غلط فیصلوں کی وجہ سے پورے ملک میں بھوک، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے لوگ اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے انتہائی معمولی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر کوئی سمجھے تو مظلوموں کی بددعائیں جوتیوں سے بھی زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہیں لیکن ان جوتیوں کو پھولوں کے ہار بنا کر پیش کرنے والے حکومتی ایوانوں میں بہت جادوگر موجود ہوتے ہیں۔ اشیاء  خوردونوش کی قیمتوں میں خطرناک حد تک ہونے والا اضافہ اسد عمر اور ان کی ٹیم کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بڑے شہروں میں بھی آٹے کی قلت ہو چکی ہے۔ چالیس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت میں کم از کم بارہ سو روپے کا اضافہ ہوا ہے اور چینی کی فی کلو قیمت میں پینتیس سے چالیس روپے کا اضافہ ہو چکا ہے عدم دستیابی کا مسئلہ الگ ہے اس کے باوجود بھی حکومت کے وزراء کو اگر یہ خوش فہمی ہے ان کی مقبولیت برقرار ہے تو اسی خوش فہمی میں زندہ رہیں قانون فطرت حرکت میں آیا تو کسی کو معافی نہیں ملے گی۔
جہاں تک تعلق کراچی کا ہے خود پی ٹی آئی حکومت کی ساری کارکردگی بیانات اور پریس کانفرنسز کے گرد گھومتی ہے ان کا اپنا کردار صرف بیانات کی حد تک محدود ہے پھر دوسروں کو یہ الزام دینا مناسب نہیں ہے۔ کئی اہم معاملات میں تو وفاق نے اب تک اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی رہی بات پیپلز پارٹی کی تو اس کے بارے میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہے۔ لوگ ان سے تنگ تھے تو پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دئیے تھے جو کام وہ کرتے رہے پی ٹی ائی والے بھی وہی کریں گے تو دونوں میں کیا فرق رہ جائے گا۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا اقتصادی مرکز ہے اس کے مسائل حل کرنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا اور سازگار ماحول بنانا وفاق کی ذمہ داری ہے۔ پی ٹی آئی کے وزراء  دیگر سیاسی جماعتوں کے بارے جتنی سخت زبان استعمال کرتے آئے ہیں اور کرتے رہتے ہیں ان کے ساتھ کون کام کرنے کے لیے راضی ہو گا۔ برداشت کا امتحان تو کراچی کا ہے شہر قائد کب تک مفاد پرست اور نالائق حکمرانوں کو برداشت کرتا ہے۔ ظالم سیاست دانوں کی رسی کب کھینچی جاتی ہے اس سے پہلے اچھی امید نہیں کی جا سکتی۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کہتے ہیں کہ "آئی جی پنجاب کی تبدیلی کوئی انہونی بات نہیں ماضی میں بھی حکومتیں آئی  جیز اور افسران کو تبدیل کرتی رہی ہیں یہ حکومت کا استحقاق ہے"۔ یقیناً یہ حکومت کا حق ہے کہ وہ جسے چاہے تعینات کر دے، تبدیلی کوئی انہونی بات نہیں لیکن دو سال میں ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پانچ آئی جیز کا بدلنا ضرور انہونی بات ہے۔ ایک افسر کی چند ماہ پہلے ترقی روکنے کے بعد اسے اعلیٰ عہدے پر فائز کرنا ضرور انہونی بات ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے تمام وزراء  کو یہ بات ضرور سمجھ لینی چاہیے کہ وہ تبدیلی کے نام پر آئے تھے انہیں اپنا موازنہ ماضی کی حکومتوں سے کرنا ہی نہیں چاہیے کیونکہ پی ٹی آئی ماضی میں حکومت کرنے والی سیاسی جماعتوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اقتدار میں آئی ہے اس لیے ان کا حوالہ دینا اخلاقی طور پر درست نہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا پی ٹی آئی قیادت نے انتخابی جلسوں میں عوام سے کیے گئے وعدے نبھاتی اور اپنے منشور کے مطابق اقتدار میںعام انصاف اور احتساب سرعام پر عمل کرتی۔ اگر ایسا ہوتا تو کبھی ن لیگ یا پیپلز پارٹی کا حوالہ نہ دینا پڑتا۔ اگر حکومت مسلسل آئی جیز بدلتی رہے گی تو کوئی بھی افسر اعتماد کے ساتھ کام نہیں کر پائے گا ہر وقت تبدیلی کا خوف رہے گا اور بداعتمادی کی فضا میں بہترین کام مشکل ہوتا ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پولیس کو غیر سیاسی کرنے کے وعدے کو نبھائے، پولیس کو غیر سیاسی نہ کیا گیا تو ن لیگ اور پی ٹی آئی میں کیا فرق رہ جائے گا اس لیے حکومت ایسی صورت حال سے بچے کہ اسے ہر فیصلے کا دفاع کرنے کے لیے کمزور دلیلوں کا سہارا لینا پڑے۔ کامیابی حاصل کرنے یا کم بیک کرنے کے لیے بنیاد پر واپسی ضروری ہوتی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو بھی کامیابی کے لیے بنیاد یعنی منشور اور نظریاتی و بانی کارکنوں کے پاس واپس جانا پڑے گا۔
اچھی خبر ہے کہ جماعت اسلامی نے حقوق کراچی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی کا فعال ہونا اور مضبوط سیاسی قوت کے طور پر سامنے آنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عمومی طور پر پورے ملک میں اور بالخصوص کراچی میں جماعت اسلامی کا دوبارہ طاقت میں آنا نہایت اہم ہے۔ اس جماعت نے کراچی کی بہتری کے لیے صحیح معنوں میں کام کیا ہے۔ مثبت اپوزیشن کی ہے اور ملک میں سیاسی جماعتوں میں اگر جمہوریت کی بات کی جائے تو جماعت اسلامی اس میں سب سے نمایاں ہے۔ مضبوط مذہبی و سیاسی پس منظر کو دیکھتے ہوئے جماعت کا ملکی سیاست میں کردار اہم ہے لیکن اس کے جماعت کے اکابرین کو یہ فیصلہ ضرور کرنا ہو گا کہ مصلحتوں سے آزاد ہو کر عوام کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا، عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لیے بیانات سے آگے بڑھ کر متحرک اپوزیشن کا کردار نبھانا ہو گا۔ حقوق کراچی تحریک کو اس کا نقطہ آغاز بنایا جائے اور پھر اسے ہر بڑے شہر تک پھیلایا جائے۔ کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کہتے ہیں کہ گیارہ سو ارب روپے کا پیکج سیاسی شعبدہ بازی اور پوائنٹ اسکورنگ ہے، وفاق کا تو کْل ترقیاتی بجٹ ہی چھ سو پچاس ارب کا ہے جس میں کراچی کے لیے اٹھارہ ارب رکھے گئے ہیں۔ کے ایم سی کے چار سال میں ایک سو چار ارب روپے کے بجٹ میں باون ارب کا ترقیاتی بجٹ تھا، ڈی ایم سیز کو چار سال میں باسٹھ ارب روپے ملے تو  ان کا حساب کون دے گا۔ اس بجٹ کے بارے تو سابق میئر کراچی وسیم اختر سے پوچھنا چاہیے کہ روتے ہوئے پریس کانفرنس کرتے رہے چار سال تک عہدے سے چمٹے رہے، انکوائریوں سے بچتے رہے اور فخریہ انداز میں بتاتے رہے کہ جیل سے الیکشن جیتا ہوں حالانکہ یہ باعث شرم ہے کہ وہ جیل سے الیکشن جیت گئے ان کی جماعت کا ماضی تو ایسا ہے کہ وہ قبر میں سے بھی الیکشن جیت سکتے تھے جیل تو بہت معمولی بات ہے۔ ایم کیو ایم کو بھی اپنا قبلہ درست کرنا ہو گا ان کی ہر وقت کی لوٹ مار نے کراچی کو تباہ کر دیا ہے گذشتہ چار برس میں بھی ایم کیو ایم نے کوئی کام نہیں کیا۔ جماعت اسلامی کو اب مسلسل سڑکوں پر رہنا ہو گا کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن اس تحریک کے ذریعے شہر قائد کے رہنے والوں کو روایتی سیاست دانوں کے چنگل سے نکالنے اور ملک کے سب سے بڑے اقتصادی مرکز کو اس کا جائز حق اور مقام دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ حکمرانوں کو جگائیں، دہائیوں تک کراچی ہر حکومت کرنے والے کی کارروائیوں کو تفصیل کے ساتھ عوام کے سامنے رکھیں یہ وقت مصلحت کی سیاست کا نہیں ہے ہم امید کرتے ہیں کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی واضح پالیسی اپناتے ہوئے ظالم سیاست دانوں کے خلاف تحریک چلائیں گے ملک میں ایک مرتبہ پھر جماعت اسلامی کی مزاحمتی سیاست کی گونج ہو گی اور نعرے لگیں گے ظالمو سراج الحق آ رہا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن