’’عوام کے ارمان‘‘ آنسوؤں میں بہہ گئے
قیام پاکستان سے لیکر اب تک جتنی بھی حکومتیں آئیں ہر کسی نے صرف اپنے مفادات کو سامنے رکھا عوام کے حصہ میں محرومیوں کے سوا کچھ نہ آیا ہر کوئی اپنی اپنی ڈگڈگی اور بانسری بجا کر تماشا گیروں کی طرح تماشائیوں کو بند پٹاری سے سانپ کھول کر دکھانے کا وعدہ کرکے سب کو ایک جگہ پر اکٹھے کرکے کہتا ہے کہ اس میں وہ سانپ بند ہے جو آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ کہتے ہیں اس کا ڈسا ہوا شخص پانی نہیں مانگتا اور موقع پر ہی ہلاک ہو جاتا ہے، بیچارے لوگ اس سانپ کو دیکھنے کیلئے پورا تماشا دیکھتے ہیں مگر وہ پٹاری آج تک نہ ہی یہ تماشا گیر کھول سکے اور نہ ہی اس ملک کے سیاستدان اور حکمران کھول سکے بالآخر تماشا ختم ہو جاتا اور یہ تماشا گیر اپنی روزی روٹی کما کر چلتا بنتا ہے۔ یہ سیاست دان بھی انکی طرح اپنا تماشا لگا کر ہر عام انتخابات میں بیچارے عوام کو بیوقوف بنا کر جھوٹے سبز باغ دکھا کر اس پٹاری کو کھولنے کا وعدہ کرتے ہیں اور پھر اقتدار حاصل کرنے کے بعد یہ لوگ بھی اس تماشا گیر کی طرح اس بند پٹاری کو کھولنے اور لوگوں کو چھپا ہوا سانپ دکھانے کا وعدہ کرتے ہیں مگر افسوس کہ یہ لوگ بھی اس پٹاری کو کھولے بغیر اپنے اقتدار کی ہوس اور اس اقتدار کے نشہ میں اپنا الو سیدھا کر کے چلتے بنتے ہیں اور کہتے کچھ اس طرح سے ہے کہ گھبرائیں مت آنیوالے وقت میں یہ سب ٹھیک ہو جائے گا مگر یہ لوگ بھی اس تماشا گیر کی طرح وقت پورا کرکے چلتے بنتے ہیں سیاستدانوں اور ان تماشا گیروں میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا اور اس طرح یہ دونوں پٹاریاں آج تک عوام کے سامنے کھل نہ سکی ان دونوں دکانداروں کا عوام کو بے وقوف بنانے کا طریقہ ذرا الگ الگ ہے مگر انداز ایک ہی ہے جبکہ سیاستدان اور حکمران جو ہر عام انتخابات میں اس عوام کو خوب بے وقوف بناتے ہوئے کوئی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کرکوئی مدینہ کی ریاست بنانے کا نعرہ لگاتا ہے، کوئی اس ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کا نعرہ لگاتا ہے،کوئی اس ملک کو پیرس بنانے کے خواب دکھاتا ہے اور کوئی اس ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگا کر عوام کو بیوقوف بنا کر اقتدار میں آتا ہے اس طرح یہ وہ پٹاری ہے جس کو آج تک نہ تو وہ تماشا گیر اور نہ ہی یہ لوگ کھول سکے۔ قیام پاکستان سے لیکر اب تک اس ملک کو ان کی طرف سے لگائے گئے نعروں پر ہی یہ بیچارے عوام گزارا کرنے پر مجبور ہے کہ کوئی اس مہنگائی کے ہاتھوں خودکشیاں کرنے اور اپنے بچے فروخت کرنے اور پڑھے لکھے نوجوان بیروزگاری کے ہاتھوں مجبور ہوکر فاقہ کشی اور جرائم کی دنیا میں اضافے کا باعث بننے کو تیار ہو جاتے ہیں، اس بیچارے عوام نے جس سے بھی اپنی امیدیں وابستہ کی اس نے اس عوام کی امیدوں کو پورا کرنے کی بجائے مہنگائی اور کرپشن کا تحفہ دے کر چکنا چور کر کے اس ملک کی عوام کا جینا مشکل کر دیا اور اب موجودہ حکومت کی دو سالہ کارکردگی پر اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اتنا نقصان اس ملک کو کبھی بھی کسی بھی حکومت کے دور میں نہیں ہوا حالانکہ موجودہ حکومت اس ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی اس تبدیلی کا نقصان سب سے زیادہ عوام کو مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مہنگائی پر قابو پانے کی بجائے سابقہ حکومت پر اس کا الزام دیا جا رہا ہے۔ایک واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ سعادت حسن منٹو جب اپنے بیوی بچوں سمیت بحری جہاز سے بمبئی سے کراچی پہنچا نہ جانے کیوں اس کا دل چاہا کہ وہ جلد سے جلد لاہور پہنچ جائے اس سلسلے میں جب اس نے ریلوے ٹکٹ لینے چاہے تو پتہ چلا کہ رش کی وجہ سے بکنگ کئی کئی دن بعد کی مل رہی ہے۔ منٹو لکھتا ہے کہ اس نے بکنگ کلرک کو رشوت دینے کی کوشش کی تو اس نے منٹو سے کہا ''بھائی صاحب پاکستان بن گیا ہے.'' اب یہاں یہ کام نہیں چلے گا۔رہی سہی کسر اس دور حکومت کے اندر کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ہوئی جس میں کاروباری لوگوں کے کاروبار معطل ہو کر رہ گئے اور سرکاری ملازم پیشہ لوگوں کی تنخواہوں میں سے ہر مہینے گریڈ کے لحاظ سے موجودہ حکومت ان ملازمین کی دو دن کی تنخواہ کی کٹوتی کرتی رہی مگر جب اس حکومت کا پیٹ اس سے بھی نہ بھرا تو اس حکومت نے بجٹ پیش کیے تو ان ملازمین کی تنخواہوں میں ایک روپے کا اضافہ نہ کرنا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس تبدیلی سرکار کی حکومت میں ہوا ہے جبکہ اس سے قبل تمام سابقہ حکومتوں کے دور اقتدار میں بجٹ کے دوران ان تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں گریڈ کے لحاظ سے اضافہ کیا جاتا رہا اور اس تبدیلی سرکار کی حکومت میں ان سرکاری ملازمین کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی اور ظلم ہے ایسے حکمرانوں نے اس دیس کا کیا حال کر دیا ہے جہاں پر ہر طرف رشوت کا بازار گرم ہے اور جدھر دیکھو ’’اندھیر نگری چوپٹ راجا‘‘ ۔