زیادتی کیس چھاپے جاری، ’’بے گناہ ہوں‘‘برادر نسبتی عباس نے سم استعمال کی:وقار ، گرفتاری دیدی
لاہور، فیروز والا، ہارون آباد ‘شیخوپورہ/ جوئیانوالہ(نامہ نگاران/نمائندہ نوائے وقت، نوائے وقت رپورٹ) لاہور سیالکوٹ موٹروے پر خاتون سے زیادتی میں ملوث مبینہ ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے ماڈل ٹاؤن میں خود پیش ہو کر گرفتاری دے دی جبکہ مرکزی ملزم عابد علی تاحال فرار ہے۔ تفصیلات کے مطابق 9 نومبر کی رات لاہور کے علاقے گجر پورہ میں موٹر وے پر خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا۔ ملزم عابد جبکہ دوسرے مبینہ ملزم وقارالحسن کی شناخت کی گئی تھی۔ گزشتہ روز مبینہ ملزم وقار الحسن نے خود تھانہ سی آئی اے ماڈل ٹاؤن میں پیش ہو کر گرفتاری دے دی جبکہ مرکزی ملزم عابد علی تاحال فرار ہے۔ وقار شیخوپورہ کا رہائشی ہے اور علی ٹاؤن میں ورکشاپ چلاتا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزم وقار نے صحت جرم سے انکار کردیا ہے۔ دوران تفتیش مبینہ ملزم وقار الحسن کا کہنا تھا کہ مرکزی ملزم عابد علی اس کے برادر نسبتی عباس کا دوست ہے۔ جبکہ جیوفینسنگ میں آنے والا نمبر بھی اس کے برادر نسبتی عباس کے زیراستعمال تھا۔ آئی جی پنجاب انعام غنی نے شکوہ کیا ہے کہ معلومات زیادہ عام ہونے کا ملزم کو فائدہ پہنچا ہے۔ آئی جی پنجاب نے کہا ہے کہ سادہ کپڑوں میں پولیس گئی تو عابد علی اور اہلیہ فرار ہوگئے۔ آئی جی پنجاب انعام غنی کا کہنا تھا کہ معلومات زیادہ عام ہونے کا ملزم کو فائدہ پہنچا ہے۔ ہماری ٹیمیں اس وقت ملزمان کے پیچھے ہیں، انٹیلی جنس کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔ پولیس نے وقار الحسن کے دو برادر نسبتی بھی گرفتار کر لئے۔ وقار الحسن کے دونوں برادر نسبتی بوٹا اور سلامت کے ڈی این اے ٹیسٹ کرا لئے گئے۔ ملزم وقار الحسن کے بھائی محمد شبیر نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے کہ تین چار سال پہلے وقار پر کیری چوری کا مقدمہ کیا گیا تھا۔ موٹر وے وقوعہ کے دن وقار بابے جوڑے گاؤں میں تھا جبکہ اس کا موبائل عباس کے پاس تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے وقار الحسن نے پولیس کو بتایا کہ اس کا سالہ عباس اس کا فون استعمال کرتا تھا۔ اس کا سالہ عباس ملزم عابد سے رابطے میں تھا۔ عباس نے میرے ساتھ پولیس کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا لیکن وہ جلد ہی اپنی گرفتاری پیش کرے گا۔ ذرائع کا بتانا ہے وقار الحسن نے کہا کہ اس کا سالہ عباس مرکزی ملزم عابد کے ساتھ وارداتیں کرتا تھا اور وہ مرکزی ملزم عابد کے ساتھ رابطے میں ہے۔ دوسری جانب پولیس حکام نے واٹس ایپ کے ذریعے ملزم وقارالحسن کی ویڈیو متاثرہ خاتون کو بھیجی تو خاتون نے بھی ملزم وقار کی شناخت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقار واقعہ میں شامل نہیں تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مزید حقائق ڈی این ٹیسٹ کے بعد پتہ چلیں گے۔ شیخوپورہ میں رہائش پذیر ملزم وقارالحسن کے بھائی اور والد سے بات چیت کی تو بھائی مشتاق کا کہنا تھا کہ وقار محنت مزدوری کرکے گھر چلا رہا ہے، موٹر سائیکلوں کی دکان پر کام کرتا ہے۔ وقار کے اہل محلہ کا بھی یہی مؤقف ہے کہ وقار 20 سال سے علی ٹائون میں رہ رہا ہے اور محنت مزدوری کر کے پیٹ پالتا ہے، وہ اس طرح کا شخص نہیں ہے، اس پر غلط الزام لگایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق شیخوپورہ کے رہائشی ملزم وقارالحسن نے رشتے داروں کے دباؤ کی وجہ سے سی آئی اے ماڈل ٹاؤن لاہور میں پیش ہو کر اپنی گرفتاری دی ہے۔ پولیس ملزم عابد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے اور آج بھی پولیس نے ڈیرہ ملیاں غازی کوٹ میں ملزم عابد کے گھر کی تلاشی لی تاہم وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق ملزم عابد اشتہاری مجرم ہے اور اس نے 2013ء میں بھی خاتون اور اس کی بیٹی سے زیادتی کے بعد متاثرہ خاندان سے صلح کر لی تھی لیکن جرائم سے باز نہ آیا تو علاقے سے نکال دیا گیا۔ موٹر وے زیادتی کیس کے ملزم عابد کے باپ اور دوسرے بھائی کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ پولیس کے مطابق ملزم عابد کے باپ اور بھائی قاسم کو مانگامنڈی سے حراست میں لیا گیا ہے۔ ملزم عابد کی بیٹی اور ایک بھائی پہلے ہی زیرحراست ہیں۔ ملزمان کے اہل خانہ سے تفتیش جاری ہے۔ دریں اثناء موٹر وے زیادتی کیس میں وقار الحسن کا ڈی این اے سیمپل لے لیا گیا ہے۔ وقار الحسن کا ڈی این اے سیمپل پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی ٹیم نے لے لیا۔ سی آئی اے نے وقار الحسن کو انویسٹی گیشن پولیس کے حوالے کردیا۔ موٹر وے زیادتی کیس میں خود پولیس کو گرفتاری پیش کرنے والے ملزم وقار الحسن کی والدہ کا بیان بھی سامنے آ گیا ہے۔ وقار الحسن کی والدہ کا کہنا تھا کہ میرا ایک بیٹا بیمار ہے، دوسرے بیٹے وقار کو جب واقعے کا پتا چلا تو اس نے کہا کہ میں پیش ہو رہا ہوں۔ والدہ وقار الحسن کا کہنا تھا میرے بیٹے نمازی پرہیزگار ہیں ان کی زندگی بخش دی جائے، اگر میرے بیٹے میں کوئی عیب ہوتا تو وہ پیش ہی نہ ہوتا۔ وقار الحسن کی والدہ نے بتایا کہ ان کے بیٹے کی قلعہ ستار شاہ میں موٹر سائیکل مرمت کی دکان ہے، وقار کی 4 بیٹیاں اور 2 بیٹے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے اپیل کی ہے کہ میرے بیٹے کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ پولیس کی سپیشل ٹیموں نے موٹر وے پر خاتون سے زیادتی کے ملزم عابد کی گرفتار ی کے سلسلہ میں آج بھی قلعہ ستار شاہ تھانہ فیکٹری ایریا کے علاقہ میں چھاپہ مارا۔ ملزم کے گھر کو تالے لگے ہوئے تھے ملزم گرفتار نہ ہو سکا۔ واضح رہے کہ ملزم عابد علی کے خلاف تھانہ فیکٹری ایریا میں ڈکیتی کے دو مقدمات درج ہیں جن میں ملزم گرفتار ہو کر جیل گیا۔ دس روز قبل ضمانت پر رہا ہو کر آیا تھا۔ پولیس نے بتایا ہے کہ ملزم عابد تین مرلہ کے مکان میں رہائش پذیر ہے۔ اس کے مکان کی چار دیواری بھی نامکمل ہے۔ پولیس کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں کہا گیا ہے کہ یہ دونوں ملزمان لاہور سیالکوٹ موٹروے زیادتی کیس میں مطلوب ہیں۔ اگر کسی کے پاس دونوں سے متعلق معلومات ہیں تو پولیس نمبر 15 پر اطلاع دیں۔ سانحہ موٹر وے کے مرکزی ملزم عابد علی کے شناختی کارڈ پر مستقل پتہ تحصیل ہارون آباد کے نواحی گائوں 152ٹو ایل کا درج ہے۔ اس مستقل پتہ کا پس منظر یہ ہے کہ ملزم عابد علی کے والدین بیس پچیس برس قبل گائوں 152ٹو ایل میں رہائش پذیر تھے اور عابد علی کی پیدائش بھی اسی علاقہ میں ہوئی۔ اس کا والد اکبر علی ملہی یہاں کئی سال کاشتکاری کرتا رہا۔ اکبر علی کے خاندان کی شہرت اچھی نہ تھی اور یہ بیس برس قبل گائوں چھوڑ کر تحصیل فورٹ عباس چلا گیا۔ ملزم عابد علی کی پیدائش تحصیل ہارون آباد کے گائوں 152ٹو ایل میں ہوئی اور اس کے والدین کا شناختی کارڈ بھی اسی گائوں کے ایڈریس سے بنا اور یوں عابد علی کے شناختی کارڈ پر مستقل پتہ تحصیل ہارون آباد کے گائوں152ٹو ایل درج ہے جبکہ عابد علی کے کچھ رشتہ دار اب بھی اسی گائوں میں موجود ہیں۔خاتون کے ساتھ زیادتی کے واقعہ میں ملوث ملزم عابد کی گرفتاری کیلئے گزشتہ رات کوٹ پنڈی داس اور غازی کوٹ میں ہونے والا آپریشن اختتام پذیر ہوگیا ہے جس کے بعد علاقہ کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ دوران آپریشن پورے علاقہ کو مکمل طور پر سیل کیا گیا اور گھر گھر تلاشی سے علاقہ کے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سرچ آپریشن کے بعد علاقہ کے لوگوں نے بتایا کہ ملزم عابد علی گزشتہ سال ڈیڑھ سال میں اس علاقہ میں آکر رہائش پذیر ہوا جس کا بظاہر کوئی کاروبار نہ تھا مگر اسکا رہن سہن اہل علاقہ کی نسبت بہت بہتر تھا کبھی کبھار وہ رات کے اوقات میں فائرنگ بھی کرتا جس پر علاقہ کے لوگوں نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔ واضح رہے کہ کوٹ پنڈی داس قلعہ ستار شاہ اور اس کی ملحقہ آبادیوں میں پہلے بھی کئی ریکارڈ یافتہ ملزمان پولیس مقابلوں میں گرفتار اور ہلاک ہوچکے ہیں۔ موٹر وے کی تعمیر کے بعد اس پر ہونے والی پہلی ڈکیتی کے ملزم بھی اسی علاقہ سے گرفتار ہوگئے تھے۔ بعض باخبر افراد نے انعام کی رقم پانے کی خاطر پولیس کو خفیہ طور پر ملزمان کے حوالے سے اطلاعات دی ہیں۔ جن کی روشنی میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تفتیش میں آسانیاں میسر آئی ہیں۔