پارلیمانی روایات کو روندا گیا ، سپیکر نے دھاندلی کی، عدم اعتماد لا سکتے ہیں : شہباز شریف ، بلاول بھٹو
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) متحدہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر ایوان میں بلوں میں رائے شماری میں دھاندلی کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے آج ہماری اکثریت تھی، اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا گیا۔ متحدہ اپوزیشن نے سپیکر قومی اسمبلی کے کنڈکٹ پر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا عندیہ دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ سپیکر نے اپنے منصب کو متنازعہ بنادیا ہے۔ حکومت کے نمبرز پورے نہیں تھے، ہم نے ووٹنگ کو چیلنج کیا، ان کو دوبارہ گنتی کا کیا خوف تھا۔ ایوان میں اپوزیشن لیڈر کو بولنے نہیں دیا گیا۔ ان خیالات کا اظہار بدھ کو پارلیمنٹ ہائوس میں اپوزیشن رہنمائوں شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، خواجہ آصف، مولانا اسعد محمود، سینیٹر میر کبیر اور آغا حسن بلوچ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ متحدہ اپوزیشن رہنمائوں نے کہا ہے کہ سپیکر نے سلیکٹڈ وزیر اعظم کی ڈکٹیشن پر اسمبلی کی تمام پارلیمانی روایات کو روند دیا۔ گنتی میں دھاندلی کی گئی۔ شک ہے کہ مشیروں کو گنتی میں شامل کیا گیا۔ ہم اپنے مفاد کی بات نہیں کر رہے، عوام کے مفاد کی بات کر رہے ہیں۔ تاکہ کسی کو بدنیتی سے ہراساں نہ کیا جائے۔ ہم سسٹم کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتے، اے پی سی میں مشاورت کے ساتھ فیصلے ہوںگے۔ ہمیں کسی قسم کے دبائو پر قانون سازی قبول نہیں۔ جمہوری طاقتوں کو کیوں دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ آج جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا ہے۔ احتساب تب ہوتا ہے جب انصاف ہو، شہباز شریف نے کہا کہ آج پارلیمانی جمہوریت کی تاریخ میں یہ سیاہ ترین دن تھا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر کو بھی سپیکر نے بات کرنے کی اجازت نہیں دی۔ بار بار ان سے درخواست کرتا رہا، انہوں نے میری بات نہیں سنی۔ آج جو ہوا یہ پارلیمانی تاریخ کا ایک سانحہ ہے، سیاہ دن ہے۔ ترامیم پر بحث کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سپیکر نے سلیکٹڈ وزیر اعظم کی ڈکٹیشن پر اسمبلی کی تمام پارلیمانی روایات کو روند دیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ یہ کالاقانون پاس کرانا چاہتے تھے۔ ہم اپنے مفاد کی بات نہیں کر رہے عوام کے مفاد کی بات کر رہے ہیں تاکہ کسی کو بدنیتی سے ہراساں نہ کیا جائے۔ ہم نے ساری چیزیں قومی مفاد میں کیں۔ ہم نے مجبور ہو کر بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ پہلا موقع ہے کہ مجھے بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ سپیکر کا غیر پارلیمانی رویہ تھا۔ ہم باہمی مشاورت سے سپیکر کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے ریڈ لائن کو کراس کیا۔ اپوزیشن پہلے ہی نیب کا شکار ہے اپوزیشن جیلیں برداشت کر رہی ہے، خورشید شاہ آج بھی جیل میں ہے، ہمیں کون سا این آر او چاہئے تھا؟۔ ملک میں سرمایہ کاری ختم ہو گئی، غربت پھیل گئی ہے، ہم سسٹم کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتے، اے پی سی میں مشاورت کے ساتھ فیصلے ہوں گے، پتہ کرا رہے ہیں اجلاس میں کون غیر حاضر تھا۔ اس موقع پر بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم سب یہاں آئے ہیں، منتخب نمائندے یہاں آئے ہیں، اہم ترین قانون سازی ہے، ہماری پارٹی نے مشرف اور ضیاء الحق کی پارلیمنٹ دیکھی ہے۔ کبھی اتنا غیر جمہوری رویہ نہیں دیکھا، ایڈوائزر قانون پیش نہیں کر سکتا۔ قانون سازی میں غیر قانونی طریقہ کار اپنایا گیا۔ اپوزیشن لیڈر کو بولنے نہیں دیا گیا۔ اینٹی منی لانڈرنگ بل میں وارنٹ کی ضرورت کے پورشن کو ہٹایا گیا۔ پولیس کو وارنٹ نہیں لینا پڑے گا گرفتار کرنے کے لئے، اس کا عام بزنس مین پر کیا اثر ہو گا؟۔ حکومت نے سیلاب متاثرین کو اکیلا چھوڑا ہے، سارے مسائل اے پی سی کے فورم پر اٹھائیں گے، ہمیں سخت اور مشکل فیصلے لینے پڑیں گے، حکومت کے نمبرز پورے نہیں تھے، ہم نے ووٹنگ کو چیلنج کیا، شک ہے کہ مشیروں کو گنتی میں شامل کیا گیا ہے، ان کو دوبارہ گنتی کا کیا خوف تھا۔ ہم ہر لیول پر چیلنج کریں گے، میرے سامنے ایک ہی راستہ ہے وہ عدم اعتماد ہے، عدم اعتماد کی تحریک لاسکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ گنتی میں دھاندلی کی گئی، دو ایڈوائزرگنتی میں شامل کئے گئے۔ آج ہماری اکثریت تھی۔ جے یو آئی (ف) کے رہنما اسعد محمود نے کہا کہ آج جو صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، دستوری قانونی تقاضے پامال کئے گئے، ہمیں کسی قسم کے دبائو پرقانون سازی قبول نہیں، جمہوری طاقتوں کو کیوں دیوار سے لگایا جارہا ہے، اے پی سی میں تجاویز کو پیش کریں گے، ہمیں مضبوط اور طاقتور فیصلے کرنے چاہئے۔ نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر میر کبیر شاہی نے کہا کہ سپیکر نے اپنے منصب کو متنازعہ بنایا ہے۔ آج اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا گیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما آغا حسن بلوچ نے کہا کہ آج جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا ہے۔