احتساب نہیں انتقام سے گزر رہے، شہباز: کب تک ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ قبول کرینگے، بلاول
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہبازشریف نے پاکستان بار کونسل کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شفاف احتساب ہو تو آدھی کابینہ بچ نہیں سکتی۔ جبکہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ہر سیاستدان کو ڈنڈے اور عدالت سے چلانے کی کوشش تو ہوسکتی ہے لیکن یہ کمپنی نہیں چلے گی۔ کانفرنس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، قمر زمان کائرہ، جے یو آئی ف کے مولانا عبدالغفور حیدری ،اے این پی کے امیر حیدر ہوتی، ڈاکٹر جہانزیب بلوچستان نیشنل پارٹی، محسن داوڑ صدر پشتون موومنٹ، ڈاکٹر عبدالمالک، رضا ربانی بھی شریک تھے۔ وکیل رہنما اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور وزیر قانون کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی لیکن شاید ان کو یہ آئیڈیا پسند نہیں آ یا۔ اے پی سی میں پاکستان بار کونسل نے ججز تعیناتی کے طریقہ کار میں تبدیلی کا مطالبہ کر دیا۔ وائس چیئر مین پاکستان بار کونسل عابد ساقی کا کہنا تھا کہ ججز تعیناتی کے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کی جائے۔ کیونکہ جوڈیشل کمشن ججز کنسورشیم بن چکا ہے۔ عدالتوں میں ججز تعیناتی کا اختیار صرف پارلیمان کے پاس ہونا چاہیے۔ عابد ساقی کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمان ججز تعینات کرے گی تو عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ ہوگا نہ تعیناتی کے معیار پر۔ ان کا کہنا تھا کہ احتساب کی تعریف یہاں بیٹھے سب جانتے ہیں۔ پچھلے ستر سال میں صرف سیاسی افراد کا احتساب ہوا غیر جمہوری قوتوں کا نہیں۔ موجودہ احتساب کا قانون پولیٹیکل انجینئرنگ کا آ لہ کار بن گیا ہے۔ طاقتور اداروں کا احتساب نہیں ہو رہا۔ آئین میں شہریوں کے حقوق ہیں لیکن موجودہ نظام استحصال پر مبنی ہے۔ سیاسی، معاشی طور استحصال ہو رہا۔ ملک کے عوام کی حقوق کیلئے توقع ہے سیاسی قیادتیں اپنا کردار ادا کریں گی۔ ملک میں صحافیوں کو خاموش کروایا جا رہا ہے۔ ہر تحصیل ضلع میں صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کروائے جا رہے ہیں۔ ایسی پابندیاں تو ضیاء الحق کے مارشل لا میں بھی نہیں تھیں۔ پاکستان بار کونسل اس قبرستان کی خاموشی میں ستارہ ہے۔ عابد ساقی نے اعلان کیا کہ پورے ملک میں صحافیوں کے مقدمات مفت لڑیں گے۔ عابد ساقی کا کہنا تھاکہ احتساب بھی ایک ہی قانون تمام اداروں کیلئے ہونا چاہیے۔ اے پی سی میں خطاب کرتے ہوئے استقلال پارٹی کے سربراہ منظور گیلانی کا کہنا تھا کہ وکلا نے جو عوامی ایجنڈا دیا ہے، تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا ہو کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ انہوں نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا عمران خان احتساب تمہارا بھی ہوگا اور تمہارے مداریوں کا بھی ہو گا۔ یوسف مستی خیل صدر عوامی ورکرز پارٹی نے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ الیکشن کے فیصلے پہلے ہی کر لئے جاتے ہیں۔ پارلیمان نے اپنا کردار صحیح ادا نہیں کیا۔ چیئرمین سینٹ کے الیکشن دیکھ لیں ابھی تک ہم قوم بن نہیں سکے۔ یوسف مستی خیل نے کہاکہ کس کس عمل کو روئیں۔ انڈسٹریز سے مزدوروں کو نکالا جا رہا ہے۔ احتساب نوازشریف، شہباز شریف آ صف زرداری اور بلاول کا ہی ہوگا۔ سابق وزیراعلی کے پی امیر حیدر ہوتی نے اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ججز کے غیرجانبدار ہونے پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ جب تک ججز آزاد اور دبائو سے باہر نہ ہوں تو انصاف نہیں ہوسکتا۔ ججز تعیناتی میں عدلیہ اور پارلیمان دونوں کا کردار ہونا چاہیے۔ سول بالادستی پر باتیں ہمیشہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ہی کی جاتی ہیں۔ بہتر ہوگا تمام سٹیک ہولڈر مل کر انسداد دہشتگردی قانون میں موثر تبدیلیاں لائیں۔ احتساب کا قانون سیاسی جماعتیں توڑنے اور بنانے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ کوئی انکوائری کی سطح پر گرفتار ہوا کسی کو ریفرنس دائر ہونے کے بعد بھی نہیں پکڑا گیا۔ میثاق جمہوریت میں تبدیلیاں کرکے نیا میثاق جمہوریت بنایا جائے۔ محمود خان اچکزئی نے کہاکہ ملک کے اندر حالات بہت خراب ہو رہے ہیں۔ اگر اس آئین کو نہیں مانیں گے تو پاکستان نہیں چلے گا۔ ہماری اس ملک میں قبریں موجود ہیں یہ آئین غداری کی تعریف کرتا ہے۔ یہ ملک تب چلے گا جب ادارے اپنی حدود میں رہیں گے۔ ڈکٹیٹرشپ کا راستہ روکنا ہوگا۔ ہم نے عرق ریزی سے اٹھارہویں ترمیم کی صورت میں اپنا فیصلہ دے دیا۔ اب زور زبردستی سے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلا گیا تو تباہی آئے گی۔ اگر ایسا کیا گیا تو ہم نئے آئین کا مطالبہ کریں گے۔ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ آج یہاں وہ بھی ہیں جو کہتے تھے بی بی کرپٹ ہے، آج انہیں شہید کہتے ہیں۔ بی بی کو جو کہتے تھے عورت ہے وزیراعظم نہیں بن سکتی آج وہ بھی یہاں موجود ہیں۔ میرے خاندان کو شہید کیا گیا، نانا کو پھانسی چڑھایا گیا۔ مرتضی بھٹو کو کراچی کی سڑکوں پر، شاہنواز بھٹو کو زہر دیا گیا۔ بی بی کو راولپنڈی کی سڑکوں پر بم دھماکے میں شہید کیا گیا۔ شہید بھٹو کو کافر اور غدار کہنے والے آج انہیں شہید کہنے پر رضامند ہیں۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم پر حملے ہوئے لیکن اپنے موقف پر قائم ہیں۔ جو ٹوٹی پھوٹی جمہوریت آج ہے وہ ہماری قربانیوں اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ بتایا جاتا ہے ہم مدینہ کی ریاست میں ہیں۔ مدینہ کی ریاست کے موٹروے پر عورت کیساتھ اجتماعی ذیادتی ہوئی۔ جن کا کام عورتوں کو تحفظ دینا ہے وہ مجرم پر نہیں مظلوم پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دفاع میں وزیراعظم اور وزرا سامنے آ جاتے ہیں۔ سندھ میں پچیس لاکھ لوگ اس وقت سیلاب سے متاثر ہیں۔ میڈیا میں سیلاب متاثرین کی آواز بلند کرنے کیلئے کوئی نہیں ہے۔ اہم ترین قانون سازی بھی آزاد ماحول میں نہیں کی جاتی ہر اہم قانون سازی رولز اور پارلیمان کو بے اختیار کرکے پاس کرائی گئی۔انہوں نے کہاکہ کل سپیکر ووٹ کی دوبارہ گنتی پر بھی ساتھ نہیں دے رہے تھے ہمارا ووٹ نہیں گنا جائے گا تو کب تک پارلیمان کو ربڑ سٹمپ کے طور پر قبول کریں گے۔ اپوزیشن لیڈرز پر مدینہ کی ریاست میں زیادہ پابندیاں ہیں۔ نئے پاکستان میں ہر طبقے کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں ۔ آج سب بار والوں سے شکوہ کرنا ہے افتخار چوہدری کے وقت پیپلزپارٹی نے آپ کے موقف کا ساتھ دیا؟ بار نے آزاد عدلیہ کے نام پر افتخار چوہدری کا ساتھ دیا اینٹ سے اینٹ بجانے نکلے تو کہا گیا اپنی کرپشن بچانے کیلئے بول رہے۔ ہر سیاسی جماعت سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ سب کی اپنی شکایات ہیں۔ میثاق جمہوریت میں تھا کہ ججز کی تعیناتی کیسے ہوگی میثاق جمہوریت پر بہت کام کیا تھا جو رہ گیا وہ عدلیہ سے متعلق ہے۔ انیسویں ترمیم ہم سے زبردستی کروائی گئی، آئین کی بحالی کیلئے بی بی نے جان دی۔ اٹھارہویں ترمیم کی ایک لائن کو عدلیہ نے دھمکی کے طور پر لیا۔ ہمارے جماعت کے ساتھی نے بھی اس لائن کو دھمکی کے طور پر لیا۔ زور زبردستی قانون سازی ہو تو یہ کمپنی نہیں چلے گی۔ اپنے مطالبے میں شامل کریں کہ انیسویں ترمیم کو واپس لیا جائے۔ بلاول بھٹو نے کہاکہ دو سال کا تھا تب سے احتساب کا عمل دیکھ رہا ہوں۔ بی بی کیساتھ عدالتیں اور جیل دیکھتا آ رہا ہوں۔ آج تک کرپشن کیسز بھگت رہے ہیں، بی بی پر کیا کیا کیس بنے وہ ہر کیس سے بری ہوئیں۔ معاشرتی حقوق پر ہم سب کا ایک ہی مطالبہ آنا چاہیے مدینہ کی ریاست میں کوئی کتاب نہیں چھپ سکتی، کوئی ٹویٹ نہیں کر سکتا۔ امید ہے 20 ستمبر کی اے پی سی میں تمام جماعتیں ایک پیج پر ہونگی۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف نے اپنے خطاب میں کہاکہ بلاول بھٹو کی باتوں پر کوئی دو رائے نہیں ہے بلاول کے خاندان نے قربانیاں دی ہیں، ہمارے پشتون، بلوچ بھائیوں نے گراں قدر خدمات اور قربانیاں دیں ہیں۔ آج یہاں سٹار وکلا سیاستدان اور صحافی بیٹھے ہیں۔ اس ملک میں انصاف سے متعلق نشیب و فراز آتے رہے۔ مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس کارنیلیئس نے اختلافی نوٹ لکھا تھا۔ پھر ایک جج صاحب نے نظریہ ضرورت کو متعارف کرایا۔ شہباز شریف نے کہاکہ وہ جج بھی یاد ہونگے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹوکیس کا فیصلہ دبائو میں دیا۔ آج کے دورکا جج ارشد ملک بھی آپ کو یاد ہوگا۔ مختلف ادوار کے آمر نے اپنی مرضی کی ترمیم سے عدلیہ کو کمزور کیا۔ عدلیہ کا ہم سب کو احترام ہے۔ چند منصف کی شکل کے لوگوں نے پرویز مشرف کو وہ دے دیا جو مانگا نہ گیا۔ ماضی پر رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کیخلاف جو مہم چلائی گئی اس سے ماحول آلودہ ہوچکا ہے۔ یقین دلاتا ہوں کہ میڈیا کی آزادی کیلئے پوری طرح سپورٹ کرتے ہیں۔ عدلیہ تحریک میں نوازشریف اللہ کے سہارے ماڈل ٹائون سے نکلے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج حالات پھر مختلف ہوگئے ہیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کا نام لئے بغیر بات مکمل نہیں ہوگی۔ جسٹس فائز عیسی کے معاملے کو سیاسی نہیں بنانا۔ نیب کے حوالے سے جو حکومت نے پراپیگنڈا کیا اس کا ذکر نہیں کرنا چاہتا۔ گوالمنڈی میں بہت عظیم لوگ رہتے ہیں اسے حقارت کی نظر سے دیکھا گیا۔ ایسا وزیراعظم جسے احساس نہ ہو کہ ملک کا ہر علاقہ مقدس ہے۔ پارلیمان میں کھڑے ہوکر وہ باتیں کی گئیں جن کا کوئی تصور نہیں کرسکتا۔ ملک کو آگے لے جانے کیلئے چھوٹے صوبوں کے مسائل حل کرنا ہونگے ۔ چرچل نے کہا تھا عدلیہ آزاد ہے تو ہم جنگ جیت جائیں گے۔ احتساب نہیں انتقام کی چکی سے گزر رہے ہیں۔ اللہ نے سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو ہمت دی ہے جو اس چکی سے گزر رہے ہیں۔ احتساب کے نام پر انتقام کی چکی کا نقصان ملک کو پہنچ سکتا ہے۔ ٹھنڈے دل سے انتقام اور احتساب کے معاملے کو سوچنا ہوگا۔ احتساب انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوا تو ملک قائد کا پاکستان بنے گا۔ اے پی سی کے اختتام پر اعلامیہ جاری کیا گیا۔ پاکستان بار کونسل کے ممبر اخیر حسین نے اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا تھا کہ اجلاسں میں اتفاق کیا گیا ہے کہ ججز کی تقرری، شہریوں کی آ زادی، اور احتساب، ملک میں اعلی عدلیہ میں تقرری کا طریقہ کار غیر تسلی بخش ہے۔ جوڈیشل کمشن کا ادارہ ججز کا کنسورشیم ہے، انیسویں ترمیم ختم کی جائے، ملک میں موجودہ انصاف کا نظام غیر موثر ہوچکا۔ احتساب پولیٹیکل انجینئرنگ کیلئے استعمال ہو رہا ہے، نیا احتساب کا نظام بنایا جائے، ملک کے تمام سرکاری اداروں کیلئے یکساں احتساب کا نظام لایا جائے اور، مقدمے کے آغاز سے قبل قید میں رکھنا غیرقانونی ہوگا۔ اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک میں شہری آ زادیوں و صحافیوں کی حفاظت کیلئے فوری قانون سازی کی جائے۔ تمام لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے یا عدالتوں میں پیش کیا جائے۔