• news
  • image

ایسا کب تک ہوگا؟ 

موٹروے پر ایک المناک واقعہ نے پورے پاکستان کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے۔ کون ملوث ہے، جنسی زیادتی میں دن بدن اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ ذمہ دار ہیں یا غیرت کا عمل دخل ہے۔ ہمارے ملک کے دانشوروں کو یہ سوچنا ہوگا کہ خرابی کہاں ہے؟ عورت گھر کے باہر تو کیا گھر کے اندر بھی محفوظ نہیں ہے۔ حکومت، سماجی تنظیمیں، مذہبی تنظیمیں، سیاسی جماعتیں، عدالتیں یہ سب مذمت تو کرتی ہیں مگر اس کا حل کسی کے پاس نظر نہیں آتا، واضح طور پر مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے مگر اس کی روک تھام کیلئے کوئی ٹھوس حل سامنے نہیں آتا۔ موٹروے کے دل خراش واقعہ پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سمیت تمام پیپلزپارٹی کی قیادت نے مذمت کی اور ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خواتین اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کو عبرتناک سزا دی جائیگی۔شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء میں جو آئین دیا اس میں مرد اور عورت کے حقوق برابر رکھے مگر معاشرتی روایات دیکھئے لوگ کہہ رہے ہیں کہ رات کو خاتون گھر سے کیوں نکلتی ہے۔ میں کہتی ہوں کہ جب قانون اور آئین عورت کو ہر وقت اپنی ضرورت کے تحت گھر سے باہر جانے کی اجازت دیتا ہے تو معاشرہ کو یہ حق نہیں کہ وہ عورت کو روکے کہ مرد جا سکتا ہے عورت نہیں جاسکتی۔ ایسا کوئی قانون 1973ء کے آئین میں موجود نہیں ہے مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس دکھائی دیتی ہے۔ بیشتر انسانی حقوق کی تنظیمیں دنیا بھر میں کی گئی ریسرچ کا حوالہ دیکر مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکانے یا جنسی طور پر ناکارہ بنا دینے کی مخالفت کرتی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 193 میں سے 142 ملکوں میں سزائے موت کے قانون کو ختم کردیا گیا ہے جن میں چند مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ ترکی اور دنیا کے دیگر کئی ممالک جہاں قانون تو موجودہیں لیکن پھانسی کی سزا دینے کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے مگر ابھی کئی ممالک بہت سے جرائم پر سزائے موت دیتے ہیں جن میں چین، سعودی عرب اور ایران سرفہرست ہیں دنیا میں سب سے کم جرائم سعودی عرب میں ہوتے ہیں کیونکہ انکے قاضی کورٹ ایک ہفتہ کے اندر فیصلہ کرتے ہیں اور نماز جمعہ کے بعد سب کے سامنے سزا دی جاتی ہے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو جائے  اس لئے سعودی عرب کم کرائم میں نمبرون ہے ، دوسرے نمبر پر ایران اورچین آتے ہیں مگر افسوس پاکستان میں پولیس تحقیقات کے بہانے کیس کو طویل کر دیتی ہے اور خراب کردیتی ہے ۔ پاکستان میں قانون موجود ہے سزا اور جزا کا تصور نہیں ہے اس لئے ہمارا ایمان ہے گھنائونے جرائم کثرت سے ہو رہے ہیں موٹروے کا واقعہ بالکل نیا نہیں ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جنسی ہراسانی اور زیادتی کے واقعات میں زیادہ تر قریبی رشتہ دار ملوث ہوتے یں جبکہ پاکستان میں اکثر ریپ کیسوں کی شکایت تھانوں میں درج نہیں ہوتی۔ ہمارا جوڈیشل سسٹم اچھا ہے مگر پولیس کی تحقیقاتی صلاحیتوں میں کمی کی وجہ سے ماہرین قانون بھی پریشان ہیں سسٹم کو درست کرنے کیلئے ہمیں اپنے اسلامی قوانین کو بھی سامنے رکھنا پڑیگا۔ دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جن میں سزائے موت نہیں ہوتی مگر ان کا سوشل سسٹم اتنا اچھا ہے کہ کرائم ریٹ صفر ہے۔ ان ممالک میں ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، نیوزی لینڈ جہاں عورت کی حکومت ہے مگر دیگر قوانین سخت ہیں اس لئے ہر شخص جرم کرنے سے قبل سوچتا ہے کہ ان کا انجام کیا ہوگا؟ پاکستان میں پولیس کی ناقص سروس کی وجہ سے تمام سسٹم تباہی کی طرف جا چکا ہے پاکستانی پولیس میں خواتین پولیس بہت بہت کم ہیں جس کی وجہ سے عورتوں کو مشکل کا سامنا ہے ۔ حکومت کو چاہیے پولیس اصلاحات کرے پولیس کو تربیتی کورسز کروائے، رشوت کا خاتمہ کروائے اور عدالتوں کو درست ثبوت دے تاکہ درست فیصلے ہوسکیں اور بروقت فیصلے ہوں۔ معاشرے میں پولیس کا کردار بہت اہم ہے مگر یہ شعبہ نظام کی خرابی کا ذمہ دار ہے اور اعلیٰ معاشرتی اقدار سے ناواقف ہے۔ قانون موجود ہیں مگر پولیس کی وجہ سے سزا نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس شعبہ میں رشوت کا بازار گرم ہے۔ پاکستان میں اعدادوشمار کیمطابق صرف پانچ فیصد کیسز میں سزا ہوتی ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ پولیس، میڈیکل غلط رپورٹ لیکر عدالت کے آگے پیش کرتی ہے، جیل میں ملزمان کو بڑے لوگ سہولیات بھی پولیس کے ذریعے دیتے ہیں۔ پاکستان کی بقاء اس میں ہے کہ خواتین اور بچیوں کے ریپ کیسوں میں انصاف ہو۔
٭…٭…٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن