قیامت کی نشانی
طاہرہ جنوبی پنجاب کے بڑے شہر بہاولپور کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے محنت کش کی بیٹی تھی جسے چند دن قبل بااثر افراد کی جانب سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور جب طاہرہ اور اس کاوالد رپورٹ درج کروانے پولیس چوکی گئے تو پولیس نے روایتی بے حسی اور ڈائیلاگ بازی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ باپ کا سر شرم سے جھک گیا جسے ایک شریف بیٹی برداشت نہ کر سکی اور ایک تحریری پیغام چھوڑ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا کہ ’’ابا !آپ کل سر اٹھا کر جیوگے ‘‘ ۔طاہرہ خود تو چلی گئی مگر ریاست مدینہ کے علمبرداروں ، سیاسی وسماجی ٹھیکیداروں اور انصاف کی بلا تفریق فراہمی کے دعوے داروں کا سر ہمیشہ کے لیے جھکا گئی یہ کوئی پہلی چیخ نہیں جونظام عدل کی کمزوری، پولیس کی ناقص کارکردگی اور ریاستی زوال کے نتیجے میں سنی گئی ہے آپ شاید آمنہ کو بھول گئے جس نے ایسے ہی ناروا رویے کیوجہ سے احتجاجاً عین تھانے کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی ایسی کتنی طاہرہ اور آمنہ ریکارڈ پر موجود ہیں کہ جن کی چیخ فائلوں میں دفن اور پکار فضائوں میں گونجتی ہے مگر ادارے غریب اور متوسط متاثرین و مظلوموں کیلئے حرکت میں نہیں آتے ۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے ٹھیک کہا تھا کہ : ’’حکمران جب اپنی جان کی حفاظت کو ترجیح دینے لگیں تو وہ ملک و قوم کی آبرو کی حفاظت کے قابل نہیں رہتے ‘‘۔صرف حکمرانوں اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی مجرمانہ غفلت ہی نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی رویے ہی سوالیہ نشان ہیں ہمارے معاشرے میں انہی مسائل پر آواز بلند کی جاتی ہیں جو اشرافیہ سے متعلقہ ہوں اور دو چار سنگین واقعات تو ہمیںجھنجھوڑتے بھی نہیں بلکہ ہم سانحات و واقعات کی کثیر تعداد دیکھ کر چونکتے ہیںورنہ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں ۔بہرحال اسی کی دہائی تک ایسا لٹریچر عام نہیں تھا اور معاشرے کی تربیت اسلامی اقدار و روایات کو مدنظر رکھ کر کی جاتی تھی کیونکہ بڑے علمائے کرام سیاسی وابستگیوں سے دور تھے اور ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا یقینا کہیں نہ کہیں برائی تو موجود تھی مگر سزائیں سخت تھیں اس لیے سنگین واقعات کبھی کبھار ہی سامنے آتے تھے تبھی پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ بچیاں اور بچے اکٹھے کھیلتے اور کسی کو کسی کا خوف نہ تھا بلکہ رات دیر تک دروازے بھی کھلے رہتے تھے نیز ٹی وی موبائل نہ ہونے کیوجہ سے اہل علاقہ رات دیر تک گھروں سے باہر مل بیٹھتے اور دکھ سکھ بانٹتے تھے بایں وجہ محلے کی بہو اور بیٹیاں سانجھی تھیں اور کوئی کسی کو غلط نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا پھر ہمیں لبرل مائنڈڈ میڈیائی و سیاسی گمراہ کن عناصر چمٹ گئے جنھوں نے مغربی تہذیب کے ایجنڈے کی وکالت شروع کرتے ہوئے ان کی چکا چوند کو معاشرتی ترقی کے لیے لازم و ملزم قرار دیکر مادر پدر آزادی کو عام کر دیا رفتہ رفتہ سماجی اور شخصی آزادی کے نام پر عریانیت اور بے پردگی کا بازار سجانے والوں نے میڈیا پر ڈیرے جما لئے اور یوں عورت اور اس کی مورت سر عام بکنے لگی ۔ ایسی کونسی چیز ہے جو عورت کی مورت دکھا کر نہیں بیچی جارہی ۔مجھے کہنے دیجیے کہ آپ نے چینل ریٹنگ چکر میںمعصوم بچیوں سے ہو شربا ڈانس کروائے ، وہ ڈرامے جو کبھی ہماری ثقافت اور اقدار کے آئینہ دار ہوا کرتے تھے جنھیں دیکھنے کے لیے پوراخاندان مل بیٹھتا تھا اور اداکار بھی اپنی حدیں پہچانتے تھے جو بھی تھا مگر سر عام کوئی نہ پیتا نہ بہکتا تھا مگر پھر ڈراموں میںشرم و حیا کے پردے سر عام تار تار کئے گئے اور مرد و زن کے اختلاط اور محبت و عاشقی کے قصے یوں عام کئے گئے کہ کچے ذہن بہکتے چلے گئے ،مخلص مذہبی وسماجی حلقے چیختے رہ گئے مگر برائی اس قدر حاوی ہو چکی تھی کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ،سٹیج ڈراموں میں ننگے مجرے ہوتے رہے ،با اثر افراد کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے ہر کسی کو تحفظ حاصل رہاکسی نے سوچا ہی نہیں کہ برائی ایسی دلدل ہے جس میں کوئی ایک بار پائوں رکھ دے تو دھنستاچلا جاتا ہے اور ایسا ہی ہوا کہ عورت ہی نہیں بلکہ بچے بھی غیر محفوظ ہوگئے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی بلکہ جب پارلیمینٹ کے دروازے کو ٹھوکرماری گئی تو مجرمانہ خاموشی نے کھلا پیغام دیا کہ ’’گزر گیااب وہ دور ساقی کہ چھپ کہ پیتے تھے پینے والے ، بنے گا سارا جہاں مہ خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا ‘‘۔المختصر آپ نے عورت کو ایک بار پھر جسم بنا دیا ہے اور ہمیں چودہ سو سال سے بھی پیچھے گمراہی کے دور میں پہنچا دیا ہے جہاں سے واپسی مشکل لگتی ہے کیونکہ ہر کسی کے قول و فعل میں تضاد ہے اور یہی سارا فساد ہے اب صرف ایک ہی حل ہے کہ معاشرہ اپنے طور پر اپنی روحانی تربیت اور حفاظت کا انتظام کرے اور اب بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بیٹوں کی بھی تربیت کریں کیونکہ ہمارے معاشرے کا عام رواج رہا ہے کہ بچی ابھی چھوٹی ہوتی ہے تو نصیحتیں شروع ہو جاتی ہیں کہ دھی رانی ! ’’سیانی بن توں اگلے گھر جاناں اے ‘‘مگر بیٹوں کو کوئی یہ نہیں کہتا کہ : پتر ! ’’انسان بن تیرے گھر کسی نے آنا اے اور دوسروں کی مائوں ۔بہنوں اور بیٹیوں کو اسی نظر سے دیکھنا جس نظر سے تو چاہتا ہے کہ لوگ تیرے گھر کی عورتوں کو دیکھا کریں ۔‘‘ہمیں مجموعی طور پر اپنے رویوں کو بدلنا ہوگا اگر ہم مزید نقصان سے بچنا چاہتے ہیں اور سر اٹھا کر چلنا چاہتے ہیں لیکن یہ بھی طے ہے کہ اگر ہم نے میڈیا پر روحانی اور مقدس کردار دکھانے کی بجائے ، بد کردار ،گمراہ کن ، بے راہ روی کا گستاخانہ اور مادر پدر آزاد ماحول دکھاتے جانا ہے تو پھر یہاں حکومت ،قانون نافذ کرنے والے ادارے ،عدلیہ اور معاشرہ کے پارسا افراد کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے ۔