کچھ باتیں بندروں کی خوبیوں کے بارے میں
یہ کہانی ہمارے بزرگوں نے ہمیں بچپن میں کئی بار سنائی تھی ۔ یہ کہانی اُن کے اردو قاعدے میں شامل تھی کہ ایک شخص سر پر پہننے والی ٹوپیاں بیچنے کے لئے گائوں گائوں جایا کرتا تھا ۔ کبھی کبھی وہ شہر بھی چلاجاتا اور واپسی پر ٹوپیاں بنانے کا سامان خرید لاتا ۔ ایک روز وہ قریبی گائوں جا رہا تھا تو دوپہر ہو گئی، گرمیوں کا موسم تھا، نہرکنارے پہنچ کر اس نے کھانا کھا کر آرام کرنے کا فیصلہ کیا تو وہاں سے ایک شخص گزرا اور ٹوپیاں پہن کر دیکھیں اور چلا گیا۔ ٹوپیاں بیچنے والا شخص کھانا کھا کر اپنی ٹوپیوں کی پوٹلی ایک طرف رکھ کر سو گیا ۔ جب اٹھا تو اپنی ٹوپیوں کی پوٹلی کھُلی دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس نے دیکھا کہ کچھ بندروں نے ٹوپیاں پہن رکھی تھیں اور درختوں پر بیٹھے ایک دوسرے سے شرارتیں کر رہے تھے ۔ اس شخص نے کئی طریقوں سے کوششیں کیں کہ بندر ٹوپیاں واپس کر دیں مگر ناکام رہا ۔ اس دوران ایک بزرگ وہاں سے گزرا ، جس نے اس شخص کے ساتھ مل کر ٹوپیاں پہنیں اور وہ دونوں بار بار سر سے ٹوپیاں اتار کر زمین پر پھینکتے رہے۔ ان کی دیکھا دیکھی بندروں نے بھی ٹوپیاں زمین پر پھینکی تو وہ شخص ٹوپیاں اکٹھی کر کے آگے روانہ ہو گیا۔ وطن عزیز میں تو بندر عموماًچڑیا گھر میں دکھائی دیتے ہیں، ایک دَور تھا جب مداری حضرات بندر کا تماشا دکھا کر گلی محلوں میں روزی کمایا کرتے تھے، ’’اب بہت جگہ ایسا ہوتا ہے‘‘۔ البتہ ہمسایہ ملک بھارت میں کئی شہر اور جنگل ایسے ہیں، جہاں بہت بڑی تعداد میں بندر رہتے ہیں۔ شہروں میں رہنے والے بندروں کی عیش ہے کہ وہ گھروں دکانوں اور جہاں کہیں انہیں کھانے پینے کی اشیاء نظر آئیں وہ خوب دعوتیں اڑاتے ہیں، ہندوئوں کے خدائوں میں بندر بھی شامل ہیں لہٰذا بندروں کے لئے بہت سے لوگ سڑکوں ، پارکوں اور دیگر مقامات پر کھانے پینے کی مزیدار اشیاء لیکر ان کے مستقل بھوجن کا انتظام کرتے رہتے ہیں۔ بندروں کے لئے بہترین کھانے کا بندوبست کر کے ہندو سمجھتے ہیں کہ انہیں اس زندگی کے علاوہ اگلے جنم میں بھی بہت اچھا انعام اور صلہ ملے گا ۔ گھروں ، ہوٹلوں ، بیکریوں اور فیکٹریوں وغیرہ میں بندروں کے غول ہر وقت حملہ آور ہوتے اور عیش کرتے ہیں۔ انہیں روکا نہیںجاتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مذہبی فریضہ احسن طریق سے ادا ہو گیا ۔ حالت یہ ہوتی ہے کہ جن شہروں اور دیہات میں سیاحوں کی کھانے پینے کی اشیاء پر یہ بندر حملہ آور ہوتے ہیں، وہاں بھی عموماًانہیں روکا نہیں جاتا اگر روکنے کی کوشش کی جائے تو یہ بندر مشتعل ہو کر زخمی بھی کر دیتے ہیں۔ اس لئے سیاح اپنی اشیاء کی قربانی دے کر جان چھڑاتے ہیں۔ وطن ِعزیز میں بھی اسلام آباد کے جنگلوں میں بندروں کی خاصی تعداد رہتی ہے۔ سڑکوں سے گزرنے والی کاروں موٹر سائیکلوں اور ویگنوں وغیرہ پر حملہ آور ہو کر کھانے پینے کی چیزوں کو چھینتے ہیں اور لمحوں میں جنگل کے اندر غائب ہو جاتے ہیں۔ عموماًلوگ بندروں کے لئے اشیاء خود ہی پھینک دیتے ہیں۔ بندروں کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کی حرکات و سکنات کی نقل اتارتے ہیں۔ انسانوں کی طرح کھانے پینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ نقل کیلئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے تو ایسے لگتا ہے کہ بندروں میں عقل ہر طور پر موجود ہے وہ جنگل کے ماحول کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اور بعض اوقات بہت اچھی زندگی گزارنے کا ثبوت دیتے ہیں۔ مثلاً کئی بار بندر اپنے اندر پائے جانے والے جذبہ ہمدردی اور رحم دلی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ اگر ان کی وجہ سے کسی انسان خصوصاًعورتوں اور بچوں میں کسی کو چوٹ لگ جائے یا وہ زخمی ہو جائیںتو وہ انسانوں کی طرح ہمدردی کرتے ہیں پیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ زخم یا چوٹ کوسہلاتے بھی ہیں۔ یہ سب انسانی زندگی سے متاثر ہو کر کرتے ہیں۔