فردوس شمیم کی معذرت، سیاسی جماعتوں کا متنازع اجتماع اور ناکام ہاکی فیڈریشن!!!!!!
فردوس شمیم نقوی اس لیے بھی اچھے لگتے ہیں کہ عوام کیلئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ایسے سیاسی نظام کے خلاف رہتے ہیں جہاں عام آدمی کے مسائل حل نہ ہو سکیں۔ ایسے افراد اپنی جماعت کو عوامی سطح پر مقبول تو بنا سکتے ہیں لیکن اختلاف رائے کی وجہ سے یا پھر عوامی بات کرنے کی وجہ سے اپنی جماعت میں مقبول نہیں ہو سکتے نہ ہی ترقی کر سکتے ہیں کیونکہ اقتدار میں آنے والی کوئی بھی جماعت کبھی اختلافی نوٹ لکھنے والوں یا پھر بڑے صاحب کے پالیسیوں اور فیصلوں پر تنقید کرنے والوں کو کبھی اہم عہدوں پر نہیں لایا جاتا۔ ایسے افراد کا راستہ روکا جاتا ہے اور انہیں ان فٹ قرار دے کر نظام سے باہر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔
فردوس شمیم نقوی کی کراچی کے مسائل پر گفتگو عوام کی آواز ہے۔ ہر پارلیمینٹیرین کو ایسا ہونا چاہیے۔ کیونکہ سیاست دان صوبائی یا قومی اسمبلی میں اپنی سیاسی جماعت نہیں بلکہ عوام کی خدمت کے لیے جاتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ عوام مشکل میں ہوں اور سیاست دان اپنی لڑائیاں لڑتے رہیں۔ اصولی اور اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو فردوس شمیم نقوی نے حقیقی جمہوریت کا علم بلند کیا ہے انہوں نے ملک بھر کے سیاست دانوں کو نیا راستہ اور طرز سیاست سکھانے کی کوشش کی ہے۔ انکی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ ہمیں ایسے ہی جمہوری رویوں کی ضرورت ہے۔ ایسے سیاست دانوں کی ضرورت ہے جن کے لیے اقتدار اور اختیار معنی نہ رکھتا ہو بلکہ وہ کھلے انداز میں عوامی مسائل کو بیان کریں۔ کاش کہ فردوس شمیم نقوی اپنے بیان پر معذرت نہ کرتے کیونکہ انہوں نے کسی کی دل آزاری نہیں کی، نہ اپنی ذمہ داریوں کو بھولے انہوں نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں معذرت کرنا پڑی کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح پاکستان تحریک انصاف میں عوامی بات کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ایسے خیالات رکھنے والوں کو پہلی فرصت میں نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔
اگر فردوس شمیم نقوی نے کراچی میں گیس بحران پر سوئی سدرن گیس کمپنی کے دفتر کے باہر احتجاج کیا اور یہ کہا کہ پاکستان میں چاہے حکومت ن لیگ کی ہو یا تحریک انصاف کی۔اس شہرمیں گیس کی ڈیلیوری کبھی درست نہیں ہو سکی۔ اگر انہوں نے یہ کہا ہے کہ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کس کی حکومت ہے۔ لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ کراچی کے شہریوں کو گیس نہیں مل رہی۔ ان باتوں میں ایسی کیا خرابی یا برائی ہے کہ معذرت کرنا پڑے۔ یہ تو کراچی کا ہر شہری کہہ رہا ہے۔ تو کیا کراچی کا ہر شہری اپنے بیان پر معذرت کرے۔ یہ تو عوام کی آواز ہے اسی کام کے لیے منتخب نمائندے اسمبلیوں میں موجود ہیں اگر عوام کے لیے بات کرنے کے بعد معذرت ہی کرنی ہے تو پھر ایسی اسمبلیوں کا کیا فائدہ ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ سندھ میں جب کبھی پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو فردوس شمیم نقوی کہیں نظر نہیں آئیں گے اس مرتبہ بھی وہ رکن صوبائی اسمبلی ہونے کی وجہ سے بچ گئے ورنہ کب کا گھر بھیج دیا گیا ہوتا۔ گیس کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے رکن سندھ اسمبلی قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ اس مسئلے پر شور مچائوں گا اور شرم بھی دلائوں گا۔ وزیر اعظم عمران خان، وزیر توانائی عمر ایوب اور معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر بھی سنیں۔میں شور بھی مچائوں گا اور انہیں شرم بھی دلائوں گا۔ قارئین ہمیں ضرور بتائیں کہ ان الفاظ کہاں انہوں نے حد پار کی ہے یا پھر سخت الفاظ استعمال کیے ہیں یا پھر غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کیے ہیں ایسے الفاظ روزانہ پاکستان میں سینکڑوں افراد حکومت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کیا تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے سب افراد ایسے الفاظ استعمال کرنے والوں سے بولنے کا حق چھین لیں گے۔ کراچی کے مسائل اور وفاقی حکو
مت کی عدم توجہی پر پی ٹی آئی کے نظریاتی و بانی کارکن نجیب ہارون نے بھی قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیا تھا۔ اب فردوس شمیم بولے ہیں اس کا مطلب یہ ہے وفاق کراچی کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اصولی طور پر معذرت تو حکومت کو کرنی چاہیے لیکن الٹی گنگا بہہ رہی ہے فردوس کو معذرت کرنا پڑ رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی خوش قسمتی ہے کہ اس جماعت میں ایسے افراد موجود ہیں جو نظام میں رہتے ہوئے اپنی جماعت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں ایسے افراد کو مثال بنانا چاہیے کیونکہ ایسے افراد کی موجودگی میں حکومت کی سمت درست کرنے کے لیے کسی اپوزیشن کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ اس کے اپنے لوگ ہی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے انہیں معذرت کرنا پڑی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا سانس لینا مشکل ہو جائے گا لیکن یاد رکھیں اس معذرت سے کچھ نہیں ہو گا ان کے بارے فیصلہ کیا جا چکا ہو گا۔ پی ٹی آئی کو ایسے مخلص اور حقیقت پسندی سے کام لینے والے افراد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہی حال دیگر سیاسی جماعتوں کا ہے اگر ہماری سیاسی جماعتوں نے ایسے رویوں کو فروغ دیا ہوتا اور جماعتوں کے اندر جمہوری روایات کو فروغ دیا ہوتا تو یقیناً آج ملک کا سیاسی ماحول اور سیاسی کارکنوں کا مزاج بہت مختلف ہوتا لیکن جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کرنے والوں نے روز اول سے عوام کی حقیقی آوازوں کو دبانے کی حکمت عملی پر کام کیا ہے۔ اللہ ہمیں اس غلامی سے نکالے، عوام کو ان کا حق ملے اور سچ بولنے والوں کو کبھی معذرت نہ کرنا پڑے۔
آل پارٹیز کانفرنس میں میاں نواز شریف ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوں گے میاں نواز شریف کے اس فیصلے کے بعد آصف علی زرداری نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اے پی سی میں شرکت کی تصدیق کر دی ہے۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی شرکت سے اے پی سی کی اہمیت میں تو اضافہ ہو گا لیکن اس مشق کا مقصد عوام کی فلاح وبہبود ہرگز نہیں ہے دونوں بڑی جماعتیں اپنا اپنا راستہ صاف کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں دونوں میں سے کسی کو بھی اقتدار کا موقع ملے تو ساری محبت نفرت میں بدل جائے گی۔ راستے جدا ہو جائیں گے اور دونوں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کر دیں گے۔ جہاں تک تعلق میاں نواز شریف کا آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کا ہے ماضی میں وہ یہ کام سعودی عرب سے کرتے رہے ہیں اس وقت اخبارات کے ذریعے بیرون ملک سے محدود یا مشروط اپوزیشن کیا کرتے تھے ٹیکنالوجی کی ترقی کے بعد اب وہ ویڈیو لنک کے ذریعے اپوزیشن کریں گے انہیں اس وقت بھی روکا جاتا تھا روکنے والے اب بھی ہیں کردار بدلے ہیں کام تو وہی ہو رہا ہے۔ اب وزرا انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں یا مفرور کہہ رہے ہیں یہ تو میاں نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ اب وہ اپنے دوسرے ملک بیٹھے ہیں اپنی مرضی سے واپس آئیں گے۔ حکومت کی بدقسمتی ہے کہ اس کے پاس اپنے دفاع میں بیانات کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حکومت عوامی حمایت کھو چکی ہے کیونکہ دو برس میں عام آدمی کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ حکومت اپنے لیے کچھ بھی کہے یا پھر اپوزیشن کو برا بھلا کہے عوام حکومتی اقدامات سے خوش نہیں ہیں۔ حکومت کے پاس اپنے دفاع کے لیے کچھ نہیں یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس کھیلنے کا موقع اور وقت زیادہ ہے۔ کاش کہ اپوزیشن قومی مفاد اور عوام کے بھلے کی سیاست کرے۔ اشیاء خوردونوش کی مسلسل اور تیزی سے بڑھتی قیمتیں اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اپوزیشن اس مسئلے پر عوام کو اکٹھا کرنا چاہے تو حکومت کے پاس اپنے دفاع کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ اگر اپوزیشن ملک و قوم کی بہتری کے لیے سیاست کرے تو سب سے پہلے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں پر عوام کو متحد کیا جاتا، اس شعبے میں حکومتی ناکامی کو بے نقاب کیا جاتا، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کا راستہ روکا جاتا، وزراء سے جواب طلبی کی جاتی تو عام آدمی کی زندگی مشکل نہ ہوتی لیکن بدقسمتی سے ساری اپوزیشن اپنی اگلی باری کے لیے کام کر رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمن بار بار حکومت کو جعلی قرار دیتے ہیں اور کہتے کہ مینڈیٹ چوری ہوا ہے۔ مولانا کو اس مرتبہ مینڈیٹ چوری کا احساس اس لیے ہوا ہے کیونکہ اس مرتبہ ان کی اپنی چوری پکڑی گئی ہے اور ان کے حصے کا حلوہ کوئی اور کھا گیا ہے۔ مولانا تو سیاسی کھیل کے پکے کھلاڑی ہیں انہیں ناتجربہ کار تو کسی صورت نہیں کہا جا سکتا۔ انہیں اپنے حلوے کی فکر ہے لیکن انہیں حقائق بھی تسلیم کرنے چاہئیں کہ دنیا بدل چکی ہے اب نہ ایران پرانا ایران ہے نہ افغانستان میں کوئی کام چل رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن جن کاموں کے لیے اندرونی و بیرونی طور پر اہمیت رکھتے تھے وہ کام ختم ہو چکے ہیں۔ جہاں تک اپنے حصے کے حلوے کی بات ہے مولانا ہر وقت پرانی تنخواہ پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں تو ٹیکس سترہ سے بڑھا کر چالیس فیصد کرنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے وہ تو بس نوکری پر واپسی میں سنجیدہ ہیں لیکن ان کی بات نہیں سنی جا رہی۔ دوسروں کو چوری چوری کا طعنہ دینے والے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ قوم پر احسان کریں اور یہ بھی بتا دیں کہ وہ خود خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دوسروں کا مینڈیٹ چوری کرتے رہے ہیں۔ اگر مولانا فضل الرحمٰن کے الزام پر یقین کر لیا جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ چوری پہلی مرتبہ ہوئی ہو۔ کاش کہ مولانا ماضی میں ہونے والی چوریوں پر بھی ایسے ہی ٹھوس موقف اختیار کرتے۔ بہرحال اب وہ اپنے حصے کے حلوے کی تلاش میں ہیں لیکن حلوائی اپنا سارا حلوہ تقسیم کر چکا ہے۔
جہانگیر ترین نے ایف آئی اے میں پیش ہونے سے معذرت کی ہے۔ وہ انگلینڈ میں ہیں اور کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مکمل صحت عطاء فرمائے۔ جس کیس میں انہیں بلایا جا رہا ہے اس کی حقیقی انکوائری کی ضرورت ہے۔ جو بھی ذمہ دار ہے اسے عوام کے سامنے لائیں لیکن کسی بھی کیس کو سمجھنے کے لیے بنیاد کو سمجھنا ضروری ہے۔ حکومت اگر غلط فیصلے کرتی رہے اور بعد میں کاروباری طبقے کو مورد الزام ٹھہرائے تو یہ مناسب نہیں ہے۔عوامی مفادات کا تحفظ کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ کاروبار کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا بھی حکومتی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ دونوں میں توازن ہی کسی بھی حکومت کی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ پہلے غلط فیصلے کریں اور عوام کو نقصان پہنچائیں پھر عوام کے سامنے صفائیاں دینے کے لیے کاروبارہ طبقے کو نشانہ بنائیں۔ اس کیس میں بھی سچ ضرور سامنے آنا چاہیے لیکن یہ مسئلہ صرف جہانگیر ترین کو نشانہ بنانے سے حل نہیں ہو گا۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن کی انتظامیہ جس کی سربراہی بریگیڈیئر ریٹائرڈ خالد سجاد کھوکھر کر ہیں ان کے سیکرٹری آصف باجوہ ہیں اور ان کے چیف سلیکٹر منظور جونیئر ہیں۔ ہیڈ کوچ خواجہ جنید ہیں اور یہ سب وہ لوگ ہیں جنہیں بار بار آزمایا جا چکا ہے۔ منتظم کی حیثیت سے سب ایک سے بڑھ کر ایک تصدیق شدہ ناکام ہیں۔ چیف سلیکٹر کہتے ہیں کہ آصف باجوہ کے آنے کے بعد بہت کام ہوا ہے اور کھلاڑیوں کا پول بہت بڑھ گیا ہے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ منظور جونیئر سچ بولنا شروع کر دیں۔ چھ ماہ کرونا میں گذر گئے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ بہت کام ہوا ہے۔ رولینٹ آلٹیمنز کو ناکامی کا ذمہ دار قرار دینے والے منظور جونیئر عوام کو بتا سکتے ہیں اس وقت ہاکی فیڈریشن کے صدر کوئی اور نہیں خالد سجاد کھوکھر ہی تھے۔ ساری ذمہ داری آلٹیمنز پر ڈالتے ہوئے تھوڑا حصہ اپنے صدر کا بھی ڈال لیں۔ قومی کھیل کو تباہ کرنے والوں کے ساتھ بیٹھے منظور جونیئر ان کی وکالت کرتے اچھے نہیں لگتے۔ اگر سچ نہیں بول سکتے تو بہتر ہے خاموش رہیں۔ عمر کے اس حصے میں کسی کی خوشامد، غلط بیانی یا حقائق چھپانے کی ناکام کوشش سے وہ کیا حاصل یا کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ہاکی کے پچاس فیصد مسائل تو غلط بیانی اور جھوٹ ترک سے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔