نواز شریف کورٹ کو بھی عزت دیں، سارے چور اکٹھے ہو جائیں تو سمجھو ایماندار تھانیدار آگیا
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی‘ نیوز رپورٹر‘ نامہ نگار) وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے اداروں سے نواز شریف کی تقریر کا از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی دارالحکومت کا ماحول نارمل رہا، صرف ایف 8 کی ایک گلی میں کچھ سیاسی رہنما اکٹھے ہوئے، نواز شریف نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ نواز شریف 2018 میں کیوں نکالا کی مہم میں بھی ایسی باتیں کر چکے ہیں۔ ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ قومی اداروں کے خلاف بیانیہ انہیں کون دے رہا ہے، فیٹف بل کی مخالفت اور اداروں کے خلاف مہم نواز شریف کی تقریر میں ظاہر تھا۔ اس پر بحث ہونی چاہیے کہ نواز شریف کو بیانیہ کس کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔ شبلی فراز کا کہنا تھا نواز شریف نے کہا انتخابات کو مینج کیا جاتا رہا ہے، نواز شریف بھول گئے کہ وہ خود 3 بار وزیر اعظم رہے، عمران خان تو پہلی بار وزیر اعظم بنے ہیں، اقتدار میں ہوں تو سب ٹھیک، اپوزیشن میں ہو تو جمہوریت خطرے میں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف پہلے سے صحت مند اور ہشاش بشاش لگ رہے تھے اور باہر بیٹھ کر ہمارے ملک کے قانون کا منہ چڑا رہے تھے، وہ پاکستان کے خیر خواہ ہیں تو اربوں کی جائیدادیں بیچ کر پاکستان آئیں، منی ٹریل مانگنے کی بجائے خود قانون کے سامنے پیش ہوں۔ سپریم کورٹ نے عمران خان کو صادق اور امین قرار دیا۔ شبلی فراز نے کہا کہ نیب کا چیئرمین اپوزیشن کی دونوں جماعتوں نے مل کر لگایا، جب یہ حکومت میں تھے تب نہ نیب کو ختم کیا نہ نیب قوانین تبدیل کیے، اپنے خلاف کیسز بنتے ہی شور شرابا شروع کر دیا، سارا واویلا کرپشن کو پر پردہ ڈالنے کے لیے کیا جا رہا ہے، اپوزیشن نے ملک کے ساتھ جو کھلواڑ کیا اس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے خود کہا نواز شریف کی تقریر نشر ہونے دیں، میڈیا آزاد ہے، ہمیں بھی کیا کیا کچھ نہیں کہا جاتا، وزیر اعظم نے واضح ہدایات دیں میڈیا کے خلاف اقدام نہ کریں، نواز شریف کی تقریر براہ راست نشر ہونے سے یہ خود بے نقاب ہوئے، قوم کو پتا چلا ان کی باتوں میں کتنی منافقت ہے۔ اس سے قبل ایک ٹویٹ میں شبلی فراز نے کہا ہے کہ اے پی سی حکومت پر دبا ڈالنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔ قوم جانتی ہے کہ اپوزیشن سیاست کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتی ہے، اپوزیشن نے پارلیمان کو ذاتی اثاثوں کے تحفظ کے لئے ڈھال بنایا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کرپشن کے خلاف اپنے پختہ عزم پر سمجھوتہ نہیں کریں گے اور اپوزیشن کوکوئی این آر او نہیں ملے گا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے کہا ہے کہ حزب اختلاف جتنی مرضی اے پی سی کر لے انہیں این آر او نہیں ملے گا، جب سارے چور اکٹھے ہوجائیں تو سمجھ لیں کہ ایماندار تھانیدار آگیا ۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز گل نے کہا کہ لوٹ مار ایسوسی ایشن کا نظریہ صرف جھوٹ پر مبنی ہے، اے پی سی کا اجتماع لوٹی رقم بچانے کے لیے ہے ۔ اے پی سی کا مطلب آل پاکستان لوٹ مار کمیٹی ہے اور جب ان سے حساب مانگا جائے تو کہتے ہیں سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے، جھوٹ میں شریف خاندان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا، دبئی ٹاور سے لیکر لندن فلیٹس سب ان کے ہیں، جھوٹے خط دینے پر قطری شہزادے نے بھی پناہ مانگی، ڈاکہ زنی پر کسی کو انعام ملا تو آصف زرداری بلامقابلہ منتخب ہوں گے۔ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ نہ ہونے سے حزب اختلاف کی پیاس بجھ نہیں رہی، یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے ساتھ اپنے کھانے اور برتن ساتھ لے کر جاتے تھے، ان کے پتیلے بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے مری جاتے تھے۔ نوزائیدہ لیڈر بلاول زرداری کی چند سیٹیں بھی پنجاب میں نہیں۔ یہ کرپٹ اشرافیہ کا گٹھ جوڑ ہے جبکہ شریف فیملی خود کو کسی زمانے میں خطے کا فرعون سمجھتی تھی تاہم اب شریف فیملی بلاول بھٹو کی بارگاہ میں حاضر ہوئی۔ شہباز گل نے کہا کہ ہم نواز شریف کی تقریر پر ایکشن لینا چاہتے تھے۔ وزیراعظم نے روک دیا۔ وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے کہ سارے گندے انڈے ایک ہی ٹوکری میں جمع ہو گئے۔ یہ سب ملکر بھی عمران خان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ان سب کا مقدر جیل ہے۔ یہ جیلوں میں سڑیں گے۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو میں انہیں کہتا ہوں کورٹ کو بھی عزت دو۔ ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں اسد عمر نے استفسار کیا کہ 2018ء کے الیکشن میں ووٹ کو عزت ملی کافی نہیں یا مزید عزت افزائی کی ضرورت ہے؟ انہوں نے میاں محمد نواز شریف کے اے پی سی سے خطاب پر کہا کہ میاں صاحب کو کوئی سمجھائے کہ عوام نے 2018ء کے الیکشن میں واقعی ووٹ کو عزت دی اور سمجھ بوجھ کر ووٹ کا استعمال کیا ۔ وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ سمجھ بوجھ کر ووٹ کے استعمال کا نتیجہ یہ نکلا کہ میاں صاحب اقتدار سے فارغ ہوئے اور انہیں جعلسازی کرکے ملک سے بھاگنا پڑا۔ مشیر داخلہ برائے احتساب مرزا شہباز اکبر نے اپنے بیان میں کہا کہ کہتے ہیں پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں۔ قوم نے قوانین کے برعکس ایک سزا یافتہ اشتہاری مجرم کا لائیو بھاشن سنا۔ کہتے ہیں ووٹ کو عزت دو اور ہمیشہ کی طرح گرم ہوا چلتے ہی ووٹر کو چھوڑ کر لندن بھاگ جاتے ہیں۔ میاں صاحب بضد ہیں کہ صرف وہ جج قبول ہے جو انہیں ثبوتوں کے باوجود بری کرے۔وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ابو بچاؤ مہم کی اور قسط فلاپ ہو گئی، میڈیا کی آزادی کا اس سے بڑہ کر کیا ثبوت ہو گا کہ نواز شریف کی تقریر براہ راست دکھائی گئی، وہ کہتے ہیں 33 سال ملک میں آمریت رہی، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ پندرہ سال وہ خود اس سسٹم کا حصہ رہ کر کٹھ پتلی کے طور پر خدمات سرانجام دیں، ان کی تقریر کا نکتہ یہ ہے کہ اگر میں حکومت میں ہوں تو سب ٹھیک ہے، اور اگر حکومت میں نہیں ہوں تو ناقابل قبول ہے۔ پی ٹی آئی رہنما سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ جب بھی یہ لوگ اکھٹے ہوتے ہیں تو ہمیں فائدہ ہوتا ہے، نوازشریف کی تقریر سے ثابت ہوا کہ وہ صحتمند ہیں، وہ توانا اور خوبصورت لگ رہے تھے، تاہم انہوں نے بہت بہکی بہکی باتیں کیں، اپوزیشن اینٹی منی لانڈرنگ بل پر نہیں مان رہے تھے، عمران خان نے اپوزیشن سے معاہدے پر نہ کردی، فیٹف بل کی منظوری اور وزیراعظم کے انکار کی ان کو تکلیف ہے۔ فیصل جاوید نے کہا کہ ہیڈاکٹرز نے نوازشریف کو پہلے یہ کہا تھا کہ صبح، دوپہر، شام تین وقت سلفییاں لینی ہیں، اور شاید اب یہ ہدایت دی ہے کہ ویڈیو لنک آزمائیں افاقہ ہوگا، ڈاکٹرز یہ بھی کہہ دیں کہ اب آپ بالکل ٹھیک ہیں اور پاکستان جاکر ہی اے پی سی کرلیں۔ وفاقی وزیر علی زیدی کا کہنا تھا کہ نوازشریف آج بھی پرچی سے دیکھ کر پڑھ رہے تھے، وہ پوچھنا چاہ رہے تھے کہ مجھے کیوں نکالا۔