• news

عوام کا حق حکمرانی تسلیم کیا جائے، نواز شریف: حکومت کو رخصت ، جمہوریت بحال کرینگے، آصف زرداری

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف  نے کہا ہے عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کیا جائے۔ یاد رکھیں پاکستان میں اگر 'ووٹ کو عزت نہ ملی اور قانون کی حکمرانی نہ آئی تو یہ ملک معاشی طور پر مفلوج ہی رہے گا'۔ ساتھ ہی میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ایسے ممالک اپنے دفاع کے قابل بھی نہیں رہتے خاص طور پر اس وقت جب آپ کے دشمن آپ کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا رہے ہوں۔ اگر ہم آج فیصلے نہیں کریں گے تو کب کریں گے۔ میں مولانا فضل الرحمن کی سوچ سے پوری طرح متفق ہوں کہ ہمیں رسمی اور روایتی طریقوں سے ہٹ کر اس کانفرنس کو بامقصد بنانا ہوگا ورنہ قوم کو بہت مایوسی ہوگی'۔ انہوں  نے  ویڈیو لنک کے ذریعے  آل پارٹیز کانفرنس  سے خطاب کرتے ہوئے کہا ایک روز قبل میری بلاول بھٹو سے بات ہوئی اور انہوں نے جس پیار، محبت سے مجھ سے بات کی، میں اسے کبھی نہیں بھلا پاؤں گا۔ میں وطن سے دور ہوتے ہوئے بھی اچھی طرح جانتا ہوں کہ وطن عزیز کن حالات سے گزر رہا ہے اور عوام کن مشکلات کا شکار ہیں۔ میں تو اسے ایک فیصلہ کن موڑ سمجھتا ہوں کیونکہ پاکستان کی خوشحالی اور صحیح جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر طرح کی مصلحت چھوڑ کر اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں اور بے باک فیصلے کریں۔ آصف زرداری نے جو ٹرینڈ سیٹ کیا ہے اسی کو آگے لیکر چلنا ہے، آپ سب جانتے ہیں 73 برس سے پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہے اور اس کی وجہ صرف ایک ہے۔ آئین کے مطابق ہمارے جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے پر ہے لیکن جب جمہوریت کی اس بنیاد پر ضرب لگتی ہے تو سارا جمہوری عمل بالکل بے معنی اور جعلی ہوکر رہ جاتا ہے۔ جب عوام کی مقدس امانت میں خیانت کی جاتی اور انتخابی عمل سے پہلے یہ طے کرلیا جاتا کہ کسے جتانا اور کسے ہرانا ہے اور انتخابات میں دھاندلی سے مطلوبہ نتائج حاصل کرلیے جاتے ہیں۔ جبکہ رہی سہی کسر حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ میں نکال دی جاتی ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے اور عوام کا مینڈیٹ کس طرح چوری کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کو اس طرح کے تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیاگیا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب وزیراعظم کو اوسطاً 2سال سے بھی زیادہ کا عرصہ شاید ہی ملا ہو۔ سیاست دانوں کو دیکھvے جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے، تو اس میں کوئی قتل ہوگیا، کوئی پھانسی چڑھ گیا، کوئی ہائی جیکر بن گیا، کسی کو چور اور غدار قرار دیا گیا۔ کوئی عمر بھر کے لئے نااہل ہوگیا، ان کے گناہ اور سزائیں ختم ہونے میں آ ہی نہیں رہیں۔  'وہ جھوٹے مقدمات میں اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ دراصل یہ سلوک پاکستان کے عوام کے ساتھ کیا جارہا ہے۔  سابق وزیراعظم  نے کہا کہ 'عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم نہ کرنے اور نتیجاً متوازی حکومت کا مرض ہی ہماری مشکلات اور مسائل کی اصل جڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری میں ہماری ساکھ ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ 2018 کے انتخابات کے بعد متعدد ملکی اور غیر ملکی اداروں کی طرف سے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے۔ میں جیل میں تھا لیکن مجھے سب خبریں ملتی رہیں۔ انہوں نے کہا وہ حلقے جہاں نتائج تبدیل کیے گئے ان کی تعداد اتنی ہے کہ اگر وہاں نتائج نہ تبدیل ہوتے تو بیساکھیوں پر کھڑی یہ حکومت کبھی وجود میں نہیں آسکتی تھی۔ اس پر سابق چیف الیکشن کمشنر اور سیکرٹری الیکشن کمشنر کو بھی جواب دینا ہوگا اور جو لوگ بھی دھاندلی کے ذمہ دار ہیں ان سب کو حساب دینا ہوگا۔ نواز شریف نے کہا کہ اس نااہل حکومت نے 2 برسوں میں ملک کو کہاں سے کہاں پہنچادیا ہے، اس کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے، پاکستان کی معیشت بالکل تباہ ہوچکی ہے، پاکستانی روپیہ بھارت اور بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ افغانستان اور نیپال سے بھی زیادہ نیچے گرچکا ہے، جس مہنگائی پر ہم نے مکمل قابو پا لیا تھا وہ آج کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسہ دینے والے ایک کروڑ 20 لاکھ لوگوں کا روزگار چھین چکے ہیں۔ 'اس نالائق حکومت نے ہر معاملے پر یوٹرن لیا ہے، آج سرمایہ کاری بالکل ختم ہوچکی ہے، سی پیک سخت الجھن کا شکار ہے، قرضے ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والوں نے 2 سال کی قلیل مدت میں قرضوں میں اتنا اضافہ کردیا ہے جس سے گزشتہ سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ موٹروے پر  قوم کی بیٹی کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ دل دہلا دیتا ہے، اس سانحے کے بعد مزید تکلیف کا باعث اس 'سنگ دل' پولیس افسر کا بیان ہے جو بنیادی انسانی اقدار سے بھی محروم ہے، اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حکومت کی ہمدردیاں قومی کی بیٹی کے بجائے چہیتے پولیس افسر کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کھربوں روپے کے نقصان اور ہزاروں جانیں قربان کرنے کے باوجود ہم کبھی ایف اے ٹی ایف اور کبھی کسی اور کٹہرے میں کھڑے شرمناک صفائیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ کشمیر سے متعلق انہوں نے کہا کہ کشمیر کا نام جب سامنے آتا ہے تو 73 سال سے دی جانے والی قربانیاں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں، کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ کئی سال سے جاری ہے لیکن اسے ہڑپنے کا سلسلہ کبھی نہیں ہوا۔ لیکن اب بھارت نے غیرنمائندہ، غیرمقبول  پاکستانی حکومت دیکھ کر کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا اور ہم احتجاج بھی نہیں کرسکے۔ دنیا تو کیا ہم اپنے دوستوں کی حمایت بھی حاصل نہ کرسکے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیوں ہم عالمی تنہائی کا شکار ہوگئے، کیوں دنیا ہماری بات سننے کو تیار نہیں ہے، کیوں ہمارے دیرینہ اور شانہ بشانہ کھڑے ہونے والے ممالک دور ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے ہے، جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے تو جمہوری عمل بے معنی ہو جاتا ہے، انتخابی عمل سے قبل یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا کس کو جتانا ہے۔ نواز شریف نے سوال کیا کہ 2018ء کے عام انتخابات میں گھنٹوں آر ٹی ایس کیوں بند رہا؟۔ انتخابات میں دھاندلی کس کے کہنے پر کی گئی؟۔  ملک بے امنی اور افراتفری کا گڑھ بن چکا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے کا اختیار عوامی نمائندے کے پاس ہونا چاہیے۔ ہم کبھی ایف اے ٹی ایف کبھی کسی اور فورم میں کھڑے جواب دے رہے ہوتے ہیں۔ جو ایف آئی اے سے بچ جاتا ہے اسے اینٹی نارکوٹکس پکڑ لیتی ہے اور جو وہاں سے بچ جائے اسے کسی اور کیس میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ عمران خان کے پاس زمان پارک گھر کے لئے پیسے کہاں سے آئے، کیا کوئی پوچھے گا؟۔ سابق وزیراعظم نے الزام عائد کیا کہ چینی کی قیمت بڑھانے میں عمران خان کی ذات ملوث ہے، کیا نیب اسے گرفتار نہیں کرے گا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا نیب علیمہ خان کے اثاثوں کی چھان بین کرے گا؟۔ بنی گالہ گھر غیر قانونی تعمیر کیا گیا، کیا اس کی فائل ایسے ہی بند رہے گی؟۔ انہوں نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن غیر ملکی فنڈنگ پر فیصلہ نہیں کرے گا؟۔ کیا ان سب پر کوئی فوجداری مقدمہ قائم نہیں ہوگا؟۔ نواز شریف نے کہا کہ بنی گالہ کی اتنی بڑی جائیداد کیسے بنی؟۔ کوئی جے آئی ٹی نہیں بنے گی؟۔ انہوں نے کہا کہ اے پی سی روایت سے ہٹ کر حقیقی تبدیلی کیلئے اقدامات تجویز کرے۔ بلاول کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھے گزارشات پیش کرنے کا موقع دیا۔ سی پیک کو ناکام بنانے کا سلسلہ 2014ء میں اس وقت شروع ہوا جب دھرنوں  کے ذریعے چین کے صدر کا دورہ ملتوی کرادیا گیا۔ سی پیک کے ساتھ پشاور کی بی آر ٹی جیسا سلوک ہورہا ہے۔ انصاف کا نعرہ لگانے اور این آر او نہ دینے کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے عمران خان نے بھی اثاثوں کے ذرائع پوچھنے کی جرات نہ کی  بلکہ ایک پل میں انہیں ایمانداری کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا گیا۔  میثاق جمہوریت کی بنیاد پر کسی نئے  میثاق  تشکیل دینے کی ضرورت ہو تو اس پر غور کرنا چاہئے۔  نواز شریف نے کہا کہ ہم نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا ہے۔ ہماری قومی سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ اپنی معیشت کے ساتھ ساتھ اپنی مسلح افواج کو بھی مضبوط سے مضبوط تر بنائیں۔ ہم نے اس کام میں ماضی میں بھی کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، کوئی کوتاہی نہیں کی اور آئندہ بھی ہماری یہ ترجیح رہے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی  کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی  زرداری نے  کہا کہ ہم صرف حکومت گرانے کیلئے نہیں مل بیٹھ رہے بلکہ موجودہ  حکومت  کو نکال  باہر کرکے  جمہوریت بحال کرکے رہیں گے۔  ہم نے کوشش کی دو سال میں جمہوریت بچے، ناسمجھ سیاسی بونے سمجھتے ہیں وہ زیادہ ہوشیار ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس تقریر کے بعد جیل جانے والا پہلا بندہ میں ہی ہوں گا۔  کل جماعتی کانفرنس  میں  ابتدائی نوٹ سے خطاب کرتے ہوئے سارے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صحت کے لیے دعا کرنے کے ساتھ کہا کہ میرے خیال میں یہ اے پی سی بہت پہلے ہونی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب سے ہم سیاست میں ہیں میڈیا پر اس طرح کی پابندیاں نہیں دیکھیں۔ حکومت اے پی سی کے خلاف ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ یہی ہماری کامیابی ہے۔ 18 ویں ترمیم  آئین کے گرد ایک دیوار ہے جس سے کوئی بھی آئین کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ ہم نے پاکستان بچانا ہے اور ہم ضرور جیتیں گے۔  مجھ سے پہلے تخت نشین پوچھتا تھا آپ نے فارن آفس کو بتا دیا ہے۔ انہوں نے کہا  کہ ہم نے دیکھا مریم بی بی نے کیا تکلیفیں برداشت کیں، بی بی کو سلام کرتا ہوں، ہم آپکے ساتھ ہیں۔ مولانا نے اگر مجھے جیلوں میں نہ بھیجا ہوتا تو شاید میں پہلے آجاتا، مولانا کا کام ہی یہی ہے کہ کسی کو آسرا دے کر کہنا کہ چل میں آرہا۔ آصف زرداری  نے کہا کہ اے پی سی کے خلاف حکومت جو ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے وہی آپ کی کامیابی ہے۔ یہ کیا ہے کہ نواز شریف کو براہ راست نہیں دکھا سکتے۔ لوگوں کو پتہ ہے وہ ہمیں سن رہے ہیں اور سنتے رہیں گے۔ آج کل کی میڈیا کو بند کرنا یا رکھنا تقریباً نامکمن ہے۔ کیونکہ آج کل ہر کوئی انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے۔ آصف زرداری نے کہ یہ ہماری کوئی پہلی کثیر الجماعتی کانفرنس نہیں ہے۔ اس سے قبل بینظیر بھٹو نے سعودی عرب جا کر نواز شریف کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی کیا جس سے ہم نے ایک ہم آہنگی بنائی تھی۔ 18ویں ترمیم بھی پاس کی تھی۔ سمجھتے ہیں کہ 1973 سے ذوالفقار علی بھٹو، ولی خان، مولانا مودودی اور اس زمانے کے لیڈروں سے زیادہ ہوشیار ہیں جبکہ ان سب نے مل کر 1973 کا آئین بنایا تھا اور ہم نے انہیں کہ نقش قدم پر چل کر 18ویں ترمیم بنائی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے اس 'اے پی سی کے بعد پہلا بندہ میں ہی جیل میں ہوں گا۔ لیکن مولانا فضل الرحمن سے درخواست ہے کہ آپ ملنے آئیے گا، اس ملاقات کا مجھے انتظار رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ بلاول پہلا چیئرمین تھا جس نے پہلے دن کہا کہ یہ سلیکٹڈ وزیراعظم ہے، ہم نے پہلے دن سے چاہا کہ جمہوریت بچے لیکن ہمیں نہیں لگتا کہ حکومت کا جمہوری اداروں کو بحال کرنے کا کوئی ارادہ ہے۔ اس طرح ملک نہیں چلتے، ہم بلوچوں کی کاز کے لئے بھی آواز بلند کرتے ہیں۔ ہم نے اس آفت، بہروپیوں سے پاکستان کو بچانا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے  اپنے خطاب میں سب سے پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے بلاول کی دعوت پر اے پی سی میں شرکت کی۔

ای پیپر-دی نیشن