اے پی سی کے فیصلوں سے کسی کو پریشانی نہیں : عمران خان، نواز شریف کے خطاب پر بھارت میں خوشی منائی گئی: وفاقی وزراء
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں کئے گئے اعلانات کا سیاسی میدان میں جواب دینے کی ہدایت کی ہے۔ اپوزیشن اپنے عزائم کی تکمیل نہیں کر سکے گی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک کے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کر رہے ہیں، اپوزیشن کی اداروں پر تنقید غیر منطقی اور اپنی کرپشن سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ پیر کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پارٹی ترجمانوں کا اجلاس ہوا جس میں اپوزیشن کی اے پی سی میں حکومت مخالف کئے فیصلوں اور ملک گیر تحریک پر تبادلہ خیال کیا۔ اجلاس میں اپوزیشن کی قرارداد کا بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم نے وفاقی وزراء کو اس حوالے سے ٹاسک بھی سونپ دیا ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ حکومت اور اداروں کے خلاف بیان بازی بھارتی لابی کو خوش کرنے کی کوشش تھی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے ترجمانوں اور وزراء کو پارٹی بیانیے کو پورے زور شور سے عوام تک پہنچانے کا کہا۔ وزیراعظم نے پارٹی ترجمانوں اور وزراء سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اے پی سی کے فیصلے سے کسی کو پریشانی نہیں، اے پی سی میں بیٹھے چہروں اور ان کے ذاتی مقاصد سے قوم بخوبی آگاہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جمہوریت میں تمام ادارے حکومت کے تابع رہ کر کام کرتے ہیں۔ذرائع کے مطابق وفاقی وزراء شبلی فراز، اسد عمر اور فواد چوہدری کو آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ کے خلاف حکومتی نکتہ نظر پیش کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر اور وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی کثیر الجماعتی کانفرنس (اے پی سی) میں ایک سازش کے تحت اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان کی ترقی کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے پاکستان کے دشمن اور اپوزیشن نے سیاسی قیادت اور فوج کے درمیان دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اپوزیشن کا اتحاد نظریاتی نہیں، سب کے اپنے اپنے مقاصد ہیں۔ جب یہ مقاصد پورے ہوجائیں گے اپوزیشن کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ نواز شریف کی تقریر پر سب سے زیادہ خوشی بھارت میں منائی گئی اور بھارتی میڈیا نے شہ سرخیاں لگائیں کہ کہ نواز شریف کی سیاسی واپسی ہوگئی۔ نواز شریف کا یہ کوئی نیا کام نہیں ہے، بنیادی طور پر نواز شریف کا طرز عمل بڑا سادہ سا ہے، اگر ادارہ نواز شریف کے مکمل قابو میں نہیں ہے تو ان کی اس سے جنگ ہے۔ عالمی سازش کے تحت قومی اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔ عمران خان بااختیار وزیر اعظم ہیں اور تمام فیصلے خود کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بات پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف سے درخواست ہے کہ قومی اداروں کو سیاست میں مت دھکیلیں اور ملک دشمن قوتوں کا آلہ کار مت بنیں۔ اپوزیشن جب چا ہے استعفوں والا آپشن استعمال کرسکتی ہے۔ فضل الرحمن کی تقریر حکومت نے نہیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے روکی۔ اے پی سی میں نواز شریف نے انتخابی عمل کو مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ پاکستان میں کوئی شفاف انتخابات نہیں ہوئے لیکن یہ 3مرتبہ وزیراعظم بنے تو کیا یہ اقبال جرم کر رہے ہیں۔ ابو بچائو مہم کا لب لباب یہ ہے کہ ادارے ہمارے ساتھ ہیں تو سب ٹھیک ہے، اگر ہمارے ساتھ نہیں تو برے ہیں۔ یہ پہلے لیڈر ہیں جو لندن کے مے فیئر اپارٹمنٹ میں بیٹھ کر کہتے ہیں عوام باہر نکلیں۔ ہمیں اپنی غلطی ماننی چاہیے، نواز شریف کو باہر نہیں بھجوانا چاہیے تھا۔ پی ٹی آئی کی حکومت بدلنے کی اتھارٹی صرف عوام کے پاس ہے۔ اپوزیشن میں جمہوریت کا جو درد دکھائی دے رہا ہے یہ انہیں ملک کا نہیں اپنی ذات کا دکھ ہے۔ قوم کے ووٹوں سے منتخب ہوئے چور دروازے سے نہیں آئے۔ شبلی فراز نے کہا کہ فضل الرحمن کی تقریر ہم نے نہیں روکی بلکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ان کی تقریر نہیں جانے دی۔ نواز شریف نے الیکشن کے عمل کو مشکوک بنانے کی کوشش کی اور ان انتخابات کو دھاندلی زدہ بنانے کی کوشش کی، تاہم حقائق اور تاریخ کچھ اور بتاتی ہے۔ نوازشریف ملک کے 3 مرتبہ وزیراعظم رہے تب تو وہ الیکشن ٹھیک تھے لیکن شاید انہیں صاف اور شفاف انتخابات کی عادت نہیں ہے۔ چیزیں ان کی منشا کے مطابق ہوں تو ٹھیک ہے۔ عدالت ان کے حق میں فیصلہ دے تو ٹھیک ہے ان کے خلاف دے تو ٹھیک نہیں ہے۔ جس انتخابات میں ان کی کامیابی ہو وہ ٹھیک ہے جس میں نہ ہو تو وہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس قسم کی الجھن پھیلانا اور حقائق جانتے ہوئے چیزوں کو متنازع بنانے سے وہ نہ پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں نہ ہی جمہوریت کی۔ اس سے وہ ایک سیاسی نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کو وہ خود اپناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر انہیں اور کوئی اعتراضات تھے تو ان کے اراکین قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی موجود ہیں تو پھر یہ انتخابی اصلاحات کیوں نہیں کرتے، انہیں کی حکومت میں انتخابی اصلاحات ہوئی تھیں اگر انہیں اعتراض تھا تو اس میں شامل کردیتے۔ اس انتخابات اور جمہوریت کو آپ متنازع نہ بنائیں۔ نواز شریف سے متعلق انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز آپ سب نے دیکھا ہوگا کہ نواز شریف بڑے توانا، تندرست، ہشاش بشاش لگ رہے تھے۔ آیا ان کا پاکستان آنے کا ارادہ ہے یا نہیں۔ آیا وہ ابھی بھی اس بات پر قائم ہیں کہ وہ بیمار ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات انہیں دینے ہوں گے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی صحت کی بات کریں تو وہ کل فواد چوہدری سے کم صحت مند نہیں لگ رہے تھے، اللہ انہیں اسی طرح تندرست رکھے۔ وزیراعظم نے حکومت بننے کے بعد پہلی یا دوسری تقریر میں کہا تھا کہ اس اپوزیشن کی صرف سیاست داو پر نہیں لگی ہوئی بلکہ گزشتہ 20 سے 30 سال میں کرپشن کے پیسوں سے بنائی ہوئی جائیدادیں داو پر لگی ہوئی ہیں اور جب احتساب کا عمل آگے بڑھے گا تو انہوں نے مل جانا ہے اور کل سب نے وہ مناظر دیکھے۔ کچھ تو لندن سے بھاگے بھاگے واپس بھی آگئے اس امید کے تحت کہ پاکستان میں تباہی آئے گی تو اس کو بنیاد بنا کر ہم حکومت کو ختم کریں گے۔ اپوزیشن کے ہاتھ سے یہ موقع بھی جب نکل گیا تو اس کے بعد ایف اے ٹی ایف کے قوانین کا معاملہ آیا۔ تاہم اس سے زیادہ شرمندگی کی کیا بات ہوگی اور ان کی بے چینی کس حد تک پہنچ گئی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے قوانین جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں بلکہ صرف پاکستان کو بلیک لسٹ سے بچانے کے لیے ہیں ان قوانین پر بھی انہوں نے بھرپور مخالفت کی۔ اپوزیشن سے سوچا کہ اس سے بہتر این آر او کا موقع نہیں ہوسکتا۔ اپوزیشن جو کہتی تھی این آر او نہیں مانگیں گے اور کونسا این آر او۔ دوسرا یہ کہ جو انسداد منی لانڈرنگ قانون پاس ہوا اس سے ان کو اپنی منی لانڈرنگ کی گئی جائیدادوں کو خطرہ ہے جبھی یہ اتنے ہیجانی صورتحال میں ہیں اور چاروں طرف ہاتھ مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ ساتھ دنیا کی وہ قوتیں جو پاکستان کے خلاف ہیں اور اس سے دشمنی رکھتی ہیں ان کے لیے بھی ایک خطرناک صورتحال پیدا ہوتی جارہی ہے کیونکہ بھارت اور ایسے دیگر ممالک جو پاکستان سے مخاصمت رکھتے ہیں انہوں نے کہاں پریشانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا وہ علاقہ ہے جہاں پریشانی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ کراچی جسے 20 سے 25 برسوں سے استعمال کیا گیا، تاہم وہاں کی سیاسی و سیکیورٹی صورتحال بہتر ہوئی اور عالمی قوتوں اور ہمارے دشمنوں کو بھی نظر آرہا ہے کہ پاکستان اس راستے پر نکل گیا ہے کہ اگر اسے روکا نہیں گیا یا اس کے لیے رکاوٹیں نہیں پیدا کی گئیں تو پاکستان کو پکڑنا مشکل ہوجائے گا۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز ہونے والی تقاریر خاص طور پر نواز شریف کی تقاریر پر سب سے زیادہ خوشی بھارت میں دکھائی دی اور وہاں کا میڈیا کہہ رہا ہے کہ نواز شریف کی سیاسی واپسی ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جن کامیابیوں کو حاصل کرنے کی بات کی وہ اس طرح ہورہی ہیں کہ پاکستان میں اس وقت ایک حکومت اور جمہوری نظام کام کر رہا ہے جہاں فوج اور سول قیادت مل کر ملک کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے نیب پر حملے کئے جبکہ اس کا چیئرمین انہوں نے خود لگایا تھا۔ انہوں نے کسی ادارے کو نہیں چھوڑا، جو قانون نواز شریف کے آڑے آتا ہے اسے ختم کردیا جائے جبکہ جو ادارہ قانون اور آئین کی بنیاد پر کام کیا جائے اسے تباہ کردیا جائے۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کہاکہ کل کے اجلاس سے مجھے ان کے اندر شدید مایوسی دکھائی دی۔ کل کا اجلاس تضادات کا مجموعہ تھا۔ جس پر سب سے زیادہ شادیانے بھارت میں بج رہے ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ حکومت کو ایف اے ٹی ایف بل پاس کروانے کیلئے اکثریت حاصل نہ ہو سکے گی کیونکہ یہ پر اعتماد تھے۔ انہیں اپنی صفوں کو ٹٹولنا چاہیے ۔ یہ نیب کے حوالے سے این آر او چاہتے ہیں۔ ابھی جو ان کا جوش و خروش تھا وہ اسی مایوسی کی وجہ سے تھا۔ کل کے اجلاس میں انہوں نے ان کروڑوں ووٹروں کی توہین کی جنہوں نے ہمیں اپنے ووٹوں کے ذریعے منتخب کیا۔ ان کا الائنس نظریاتی یا اصولی نہیں ہے یہ مفادات کی بنیاد پر ہے۔ یہ عمران خان کے ساتھ خصوصی محبت اور خوف رکھنے والوں کا اکٹھ تھا۔ ان کے عمل اور گفتگو میں بہت بڑا تضاد ہے۔ مجھے بتائیے کل انہوں نے کس ادارے کو بخشا؟ ہمارے اختلافات اپنی جگہ لیکن میں ایک دفعہ پھر ان سے گذارش کروں گا کہ آپ اداروں کو بیچ میں مت گھسیٹیں۔ اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا کر آپ کوئی قومی فریضہ سر انجام نہیں دے رہے بلکہ آپ کسی اور کا ایجنڈا لیکر آگے چل رہے ہیں۔ استعفوں کا اختیار ان کے پاس کل بھی تھا اور آج بھی ہے لیکن آپ نے سنا ہو گا کہ ہاتھی کے دانت نکال کھانے کے اور اور دکھانے کے اور۔ ان پر جتنے مقدمات ہیں ان میں سے ایک بھی پی ٹی آئی نے نہیں بنایا۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ ابو بچائو مہم کا لب لباب یہ ہے کہ فوج، ادارے ہمارے ساتھ ہیں تو سب ٹھیک ہے، اگر ہمارے ساتھ نہیں تو برے ہیں، نواز شریف کو باہر نہیں بھجوانا چاہیے تھا، مجھے پہلے دن سے پتا تھا یہ واپس نہیں آئیں گے لیکن اسد عمر صاحب کہتے تھے آجائیں گے، ہم نے 7 ارب کا گارنٹی بانڈ رکھا تو اسی عدلیہ نے اسکو نرم کیا۔ ایک کروڑ 70 لاکھ ووٹرز نے عمران خان اور ہمیں منتخب کیا ہے، آپ اگلے الیکشن میں آئیں گھوڑا بھی حاضر میدان بھی، اپوزیشن کا جھگڑا یہ ہے کہ کیسز میں رعایت دی جائے۔فواد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف نے ہمیشہ عدالتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی، پی ٹی آئی کی حکومت بدلنے کی اتھارٹی صرف عوام کے پاس ہے۔ اسد عمر نے کہاکہ شہباز شریف سے یہ پوچھا جائے کہ جو نواز شریف نے کل اداروں کے خلاف تقریر کی اس سے وہ متفق ہیں کہ نہیں، نواز شریف تین دفعہ وزیر اعظم رہے انہوں نے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ شائع کیوں نہیں کی، ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی دیرینہ خواہش ہے کہ ان کو قومی تشخص ملے۔ نواز شریف ملک دشمن قوتوں کا آلہ کار مت بنیں۔ اپوزیشن والے جب چاہیں استعفوں والا آپشن استعمال کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ کیلئے ایک مجرم کو طویل عرصہ تک رکھنا مشکل ہو جائیگا۔